بلڈوزر سے مسمار ہوتے گھراور ہمارا ردعمل
از : بلال احمد نظامی مندسوری، بلڈوزر سے مسمار ہوتے گھراور ہمارا ردعمل
جب ناموس رسالت پر حملہ ہوگا تو خواہی نہ خواہی مسلمانوں کےجذبات برانگیختہ ہوں گے اور شاتم کو انجام تک پہنچانےکےلیے جدوجہد بھی کریں گے۔
اسی جدوجہد اور شاتم کو سلاخوں کےپیچھےبھیجنےکےلیےمسلمانوں نےبغیر کسی مضبوط منصوبہ بندی کے احتجاجی جلوس نکالےجو فساد کےحوالےہوگیے اور نتیجتا بلڈوزر اپنی دہشت کےساتھ مظلوموں کےگھرپرچڑھائی کےلیے پہنچ گیا اور یوں شرپسندعناصراپنےمقصد میں کام یاب ہوگیے۔
ان کامقصد بھی یہی رہتاہےکہ پہلےمشتعل کیاجائے اور جب مسلمان جذبات کی رو میں بہ کر کوئی قدم اٹھائیں تو انھیں انتہاپسند اور شدت پسند باور کرایاجائے۔اور انھیں جھوٹ موٹ کےقانونی شکنجےمیں کساجائے۔
جب الہ آباد میں ایک مکان زمین دوز کیاجارہاتھا تو میڈیاوالےجوش وخروش کےساتھ اس انداز میں کامینٹری کررہےتھےجیسے کہ بھارت نےچین پر چڑھائی کرکے آدھا چین فتح کرلیاہو اور اب جشن منانےکی تیاری ہے۔
یہ ان کےتعصب،مکروفریب اور شرپسندی کو اجاگرکرنےکےلیےکافی ہےکہ پوری لابی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سےمٹانےکےلیےبھرپور تیاری کرچکی ہے، گرچہ مسلمان ابھی بھی خوابوں کی جنت میں بسیرا ڈالےہوئےہیں۔
چندسالوں سےیوپی،مدھیہ پردیش،گجرات وغیرہ علاقوں میں غیرقانونی طورپر حکومت، بلڈوزر کےذریعےآنافانا اقلیتوں کےمکانات کو مسمار کررہی ہے اور اس پر کوئی نوٹس لینےوالابھی نہیں ہے۔
ہونا یہ چاہیےکہ ملکی سطح پر قائدین کہےجانےوالےسیاسی و غیر سیاسی افراد سرجوڑ کربیٹھیں اور اس کاحل تلاش کریں ورنہ بلڈوزر کی دہشت پورےطور پر قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑدےگی اور ہم دیکھتےرہ جائیں گے۔
اس لیےکہ بلڈوزر کی دہشت نے بڑےبڑےسورماکہےجانےوالےقائدین کو بھیگی بلی بننےپر مجبور کردیاہے۔
ہرشہر کےوکلا اپنی ٹیم تیار کریں اور ہائی کورٹ سپریم کورٹ پہنچ کر اس ناانصافی اور ظلم کےخلاف پٹیشن داخل کریں،جہاں کسی علاقےمیں توڑ پھوڑ کےلیے بلڈوزر پہنچےوہاں وکلاکی ٹیم پہنچ کر قانونی چارہ جوئی کرتےہوئے بلڈوزر کی تباہی کو رکوائیں۔
ہرشہر کی ایک کمیٹی ہو جو مسلمانوں کےتمام معاملات دیکھیں،اس کمیٹی میں اثرو رسوخ اور تعلیم یافتہ افراد لیےجائیں نیز ہر محلےسےایک ممبر کاانتخاب کیاجائے۔
جن کےمکانات توڑےگئےانھیں قومی فنڈ سےدوبارہ تعمیر کروایاجائے،جو نوجوان سلاخوں کےپیچھےہیں ان کی رہائی کےانتظامات کیےجائیں،اگر ان کےیہاں کمانےوالاکوئی نہ ہو تو حسب ضرورت قومی فنڈ سےان کی کفالت کی جائے،فساد زدہ علاقےکےتعاون کےلیےامت بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔
شہر کاکوئی بھی قومی معاملہ شہربھرکی متفقہ کمیٹی کی اجازت کےبغیر نہ کیاجائے۔
آج حال یہ ہےکہ ملکی سطح تو درکنار شہری سطح پر قیادت نہیں ہےاور جوبہ نام قائد ہیں وہ یاتو دوسروں کےآلہ کار بنے ہوئے ہیں یا اس قدر خوف زدہ ہیں کہ گھرسےباہر نکلنےکی ہمت نہیں ہے،یہی وجہ ہےکہ ایسےناساز حالات کاسامنا کرناپڑرہاہے۔
بہرحال ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھےرہنےسےبہترہے کہ اس سمت پیش قدمی کی جائےپھر اللہ کی نصرت بھی شامل حال ہوگی۔
بلال احمد نظامی مندسوری