حضرت مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کا انتقال خطابت کے ایک عہد کا خاتمہ ہے
حضرت مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی کا انتقال خطابت کے ایک عہد کا خاتمہ ہے : محمد تاج الدین قاسمی
مظفر پور، 4/ اگست (وجاہت، بشارت رفیع)
مسجد عثمان غنی فیض کالونی، مظفر پور کے امام و خطیب، سیکریٹری قومی اساتذہ تنظیم بہار محمد تاج الدین قاسمی کہتے ہیں دن بھر کی مصروفیات کے بعد آج شام میں جب موبائل پر نظر پڑی تو پورا سوشل میڈیا اکاؤنٹس ایک الم ناک حادثہ کی خبر سے بھرے پڑے تھے
یہ سن کر آنکھیں نم ہو گئیں اور دل و دماغ پر سکتہ طاری ہو گیا کہ مقرر ذیشان، باکمال خطیب، مصلح امت، متبع شریعت عالم دین حضرت مولانا مطلوب الرحمن مکیاوی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے
یہ ایک ناقابل یقین خبر تھی لیکن اس کثرت سے لوگوں نے پوسٹ کر رکھے تھے کہ یقین کیے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔
یقیناً آپ کا شمار ہندوستان کے سر فہرست مقررین میں ہوتا ہے، مولانا موصوف کسی بھی جلسے کی کام یابی کی ضمانت ہوتے تھے، کسی پروگرام میں ان کی موجودگی ہوتی تو قرب وجوار کے عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد ان کو سننے کے لیے تشریف لے جاتی، گھنٹوں گھنٹوں بیان فرماتے سامعین کو ہنساتے بھی تھے رلاتے بھی تھے،سامعین کے ذہن و دماغ پر ان کی مکمل حکمرانی ہوتی تھی چار چار گھنٹے بھی اگر وہ بیان کرتے تو کیا مجال کہ مجمعے میں سے کوئی آدمی اٹھ کر چلا جائے، بڑی قیمتی قیمتی باتیں انتہائی عام فہم اور مزاحیہ انداز میں کہہ جاتے۔
زمانۂ طالب علمی میں ہم لوگ دور و دراز کا سفر کر کے حضرت کی تقریر سننے کے لیے جایا کرتے تھے کڑک دار آواز اور علاقائی انداز میں جب ان کی تقریر ہوتی تھی تو پورے مجمعے پر نشاط چھا جاتا تھا
اور گھنٹوں کی تقریر میں کوئی بھی سامع لمحہ بھر کے لیے بھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا تھا، اپنی تقریر کے ابتدائی حصے میں جب وہ مترنم آواز اور اپنے مخصوص انداز میں اشعار پڑھتے تو مجمع عش عش کرنے لگتا تھا، اپنے مخصوص دیہاتی انداز، لطیفوں، حکایتوں اور مثالوں کے ذریعے اپنی بات سامعین کے ذہن و دماغ میں اچھی طرح بسا دیتے تھے۔
زیادہ تر ان کی تقریریں سماجی اصلاح پر مبنی ہوتی تھیں اور عوام کو مخاطب کر کے اس خوبصورت اور دل فریب انداز میں نصیحت فرماتے کہ ان کی باتیں دلوں کو دستک دیتی تھیں
اصلاح معاشرہ میں اپنی تقریروں کے ذریعے جو اہم کردار انہوں نے ادا کیا ہے بہت دنوں تک یاد کیے جائیں گے،یقینا ان کی رحلت سے میدان خطابت میں وہ عظیم خلا پیدا ہو گیا ہے جس کی بھرپائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ خطابت کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے
اللہ تبارک و تعالی حضرت اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے، ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کے وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین!