ہم کو معلوم ہے ہم نشانہ پہ ہیں

Spread the love

✍️ غلام مصطفیٰ آر ایم ہم کو معلوم ہے ہم نشانہ پہ ہیں بنام (طلبہ ، علما اور مدارس نشانہ پہ ہیں)

ہم کو معلوم ہے ہم نشانہ پہ ہیں بنام (طلبہ ، علما اور مدارس نشانہ پہ ہیں) (دور دراز اور مختلف صوبوں میں جاکر پڑھنے،پڑھانے حضرات نیز امامت کرنے والے حضرات ہمیشہ اپنے پاس کچھ ہزار روپے ساتھ رکھیں کبھی بھی ہجرت و گرفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے خاص کر طلبہ دو چار ہزار ضرور جمع رکھیں)

حضرات! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ سات آٹھ سال سے تاہنوز ملک کے حالات ابتر اور بدتر ہوتے جارہے ہیں ، اس سیاہ تاریک حکومت میں روشنی کی آس و امید باندھنا صرف خود کو دھوکا میں رکھنا ہے لاریب یہ وطن عزیز ہمارا گھر ہے اور ہمارا ہی رہے گا اور اس کی دلیل لال قلعہ، تاج محل، چار مینار، قطب مینار، آسام سے پشاور تک کا ہائی وے روڈ وغیرہ لیکن ہمارے اس قدیم گھر میں صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ مکڑی نے جالا بن دیا ہے

اور جگہ جگہ چمگادڑوں نے بسیرا کرلیا ہے جنہیں مسلنا اور کچلنا ایک آن کی بات ہے بشرطیکہ صاحب مکان سست و کاہل نہ ہو بلکہ وہ چالاک اور نظافت پسند نیز سرگرم عمل ہو۔۔ یوں تو اسلام و مسلم دشمنی صدیوں پرانی ہے بلکہ بہ لفظ دیگر یوں کہا جائے حق و باطل کی یہ معرکہ آرائی روز ازل سے ہے جو مختلف ادوار میں مختلف انداز سے چلا آرہا ہے۔۔۔

پہلے اسلام دشمن عناصر نے اسلام کو داغدار کرنے کے لئے ہرممکنہ حربہ استعمال کیا یہاں تک کہ خونی رشتوں میں بھی غدار پیدا کردیا اور یہ مشن صدیوں سے چلاتا رہا پھر ہندوستان میں چند سالوں سے مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہوں پر انگشت نمائی کرنے لگے اور اب تقریباً 5 پانچ سالوں سے مسلمانوں کی ماب لانچنگ کی جارہی ہے ابھی یہ مشن جاری ہی ہے کہ مدارس اور علما کو نشانہ پہ لے لیا۔۔۔

اسلام دشمن عناصر دین کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے اور اس کے لئے وہ تحقیق بر تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا ہے اب”برما” روہنگیا” اسپین” میں جا کر یہ مجرب عمل سیکھا ہے کہ قلعۂ اسلام کو انہدام کرنا ہے تو اس کے ستون”علما” کو گرانا اور ٹپکانا شروع کردیں

اور اس مشن کا آغاز ہوگیا ہے اب مدارس پر بکثرت حملہ ہوں گے حملہ کا مطلب یہ نہیں کہ صرف سینکڑوں شریر بدمعاش ادارہ کے اندر آکر ادھم مچائیں بلکہ کئی طریقے ہیں اولا تو یہی ہے کہ کسی کسی ادارہ میں بھی جبراً داخل ہوکر نقصان پہنچائیں گے ثانیاً بہرصورت تعلیمی معیار میں گراوٹ پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کے قوانین لائیں گے، سرکاری اسکولوں کی تعطیل پر مدارس میں بھی تعطیل ضروری۔۔ کلاس مکمل بند ورنہ انکوائری ہونے پر مشکلات کا سامنا ہوگا۔۔۔

مدارس کی کئی خصوصی چھٹیاں بھی ختم ہوجائے گی مثلاً شعبان المعظم میں ہونے والی تعطیل کلاں میں بھی تبدیلی ممکن ہے اور اسی طرح کی دیگر تعطیلات جیسے عیدالاضحی پر ہفتہ دس دن کی چھٹیاں کم ہوکر دو دن تین دن میں آجائیں۔۔۔ اسی طرح کچھ سرکاری چھٹیاں “, یوم آزادی،گاندھی جینتی ” کے علاوہ بھی مدارس میں نافذ ہوں گے جس کا منانا لازمی ہوگا اور ان دنوں خصوصی نگرانی کی جائے گی۔۔

حالانکہ کہ اسے چمنستان بنانے میں ہمارے آباء و اجداد کا خون و پسینہ پورا پورا شامل ہے لیکن چھٹیاں جو نافذ کی جائے گی وہ غیرمسلم لیڈروں کے نام ہوگی جن میں بعض بزدل اور کائر تھے۔۔۔

مدارس میں کچھ ایسے پروگرام کرنا ضروری ہوگا جو کسی خاص مردہ کے نام ہوگا جنہوں نے اسلام دشمنی میں ہر ہتھکنڈا اپنایا تھا لیکن چونکہ قانوناً یہ پروگرام منانا ضروری ہوگا اس لئے خلاف ورزی ناقابلِ معافی جرم مانا جائے گا۔۔۔ مشہور گیت “جن گن من” لازمی ہوچکا ہے جسے ہر ادارہ میں پڑھنا لازم ہے اکثر اداروں میں مجبوراََ پڑھا جاتا تھا

لیکن بعض جگہ نہیں پڑھا جاتا تھا اب سبھی کو پڑھنا پڑے گا کیونکہ مکمل نگرانی کی جائے گی اور باضابطہ ویڈیو بنائے جائیں گے حالانکہ علماء نے اسے پڑھنا ناجائز و حرام کہا ہے اور اس کی بھرپائی عالمی شہرت یافتہ ترانہ “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” سے ہرگز تسلیم نہ کی جائے گی اگر یہ بعد میں پڑھتے ہیں تو کوئی بات نہیں

لیکن وہ ضروری ہے آہ آہ ۔۔ بصورتِ انکار دہشتگردی کے الزام کے تحت کیس کی نوبت آسکتی ہے۔۔

مدارس میں اب تک دینی کتابیں ہی داخل نصاب و درس رہی اب غیر دینی کتابیں بھی لازم ہوں گی بلکہ ہندو دھرم کی خاص کتابیں بھی لازمی درس ہوگی جو جلد ہی قانون بننے والا ہے۔۔ اور اتنا سب کچھ کرالینے پر بھی بخشے گا نہیں بلکہ بالآخر یہ حق چھین لیا جائے گا مدارس کو ملنے والی سرکاری تعاون پر پابندی لگنے والی ہے جیسا کہ آسام وغیرہ میں یہ سرکاری فنڈ مدارس کے نام ہے

لیکن افسوس غداروں نے بھی حمایت کی حامی بھر دی چنانچہ حالیہ دنوں ہی محمود (آمدنی) مدنی جمعیت علمائے دیو نے کہا کہ مدارس کو ملنے والے فنڈ پر روک لگا دے سرکار

دین پر علی الاعلان حملہ ہونے پر بھی کوئی ادارہ ہرگز ہرگز کسی قسم کے احتجاج کا مستحق نہیں ہوگا ۔۔ کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ آئے دن بصورتِ ترمیم قانون اسلام پر کبھی حملہ ہورہے ہیں تو کہیں بصورتِ اہانت۔۔۔ کبھی نص قطعی سے ثابت احکام میں تبدیلی۔۔۔ اتنے حملہ ہورہے ہیں لیکن کیا کسی اداروں نے کچھ کہا؟

نہیں۔۔۔ کیا أکثر اداروں نے احتجاج کیا؟ نہیں۔۔۔ کیا اداروں نے لیٹرپید جاری کیا؟نہیں۔۔کیوں؟..

اس لیے کہ تقریباً سبھی ادارے سرکاری ہیں جن پر پابندی عائد ہے کہ وہ سرکار کے کسی بھی پالیسی کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔۔ حالانکہ ہمیں بنیادی طور پر یہ حقوق حاصل ہیں لیکن ابھی یہ باتیں کہنا کہ “ابھی بھارت میں انصاف باقی ہے” لولی پاپ دکھا کر شملہ مرچ کھلانا ہے

کچھ بھی قانون کا پاس و لحاظ باقی نہیں رکھی ظالم حکومت نے،جو کہتی ہے وہ کرتی ہے جو کہلواتی ہے وہ کرواتی بھی ہے بابری مسجد کے بعد گیان واپی پہ نشانہ سادھا، 3طلاق کے بعد حجاب کو مدعا بنایا، اجمیر کو شیولنک بکنے کے بعد مدینہ منورہ پر انگشت نمائی کی، اور اب مساجد کے ساتھ ساتھ مدارس کی باری ہے، مدارس کے بعد خانقاہ کالعدم۔۔۔۔

یہ کلی طور پر نہیں تاقیامت نہیں تبدیل کرسکتا ہے لیکن جابجا توڑ پھوڑ کی ناپاک حرکت ضرور کریں گے ان میں خاص ٹارگیٹ مدارس اور علما ہیں چلتی بندوق کے ہم دہانے پہ ہیں ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں ایسی صورت میں جو مناسب اور ضروری اقدامات ہیں وہ ضرور کریں مثلاً احتجاجی جلوس میں طلبہ ہرگز شامل نہ ہوں

کسی بھی قسم کا مظاہرہ ہو تو اساتذہ متنبہ ہوجائیں کہ کوئی طالب علم کسی بھی طرح ادھر جھانکیں تک نہیں، اپنے ادارہ میں CCTV کئی جگہ لگائے رکھیں کوئی طالب علم زیادہ پرجوش مضمون خاص کر ہندی زبان میں نہ لکھے کیوں کہ سائیبر پولیس ٹیم کے ذریعے مضامین کی بھی اب جانچ پڑتال ہورہی ہے اور قانونی کارروائی کی جارہی ہے جیسا کہ حالیہ دنوں اخبار میں بھی شائع ہوا ہے ۔۔

کوئی بھی انجان آدمی دعوت کرے تو قبول نہ کریں تنہا میلاد فاتحہ، دعا تعویذ کے لئے لے جائے تو نہ جائیں اسی طرح بعض نام نہاد مسلم سے بھی ہوشیار ہوجائے ممکن ہے کہ اعدائے دین سے کوئی سانٹھ گانٹھ ہو ایسا ہو رہا دولت کی لالچ میں انسان کس حد تک چلا جائے کہنا مشکل ہے۔۔ میڈیا سے بالکل دور رہیں چاہے طالب علم ہو یا عالم، امام یا مطلق مسلمان ورنہ اس طرح یہ باتوں باتوں جال میں پھنسالیں گے کہا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ انھیں خاص ٹرینینگ دی جاتی ہے

 

اور پھر یہ خود بھی مشق کرتے کرتے ماہر ہوجاتے ہیں لھذا میڈیا سے دور رہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں جسے میڈیا نے برعکس دکھایا ہے کسی بھی لڑکی سے فیسبک، واٹسپ، ٹیلیگرام، انسٹاگرام وغیرہ پر بات چیت نہ کرے بلکہ فیس ٹو فیس بھی بات نہ کرے شرعاً جو ممانعت ہے اس سے قطع نظر بھی ابھی یہ زہر قاتل ہے

لڑکیاں دھندا بنالی ہیں جو دوچار روز اکسا کر پھنسا دیتی ہے ایسا حادثہ کئی لوگوں کے ساتھ پیش آیا

جن میں سے دو طالب علم اتردیناج پور بنگال کے رہنے والے ہیں جن سے پولیس کی دھمکی دے کر 40 ہزار روپے وصول کیا ، اس لیے اس جھانسہ میں نہ آئیں اور ابھی ہندوؤں نے اتنی ٹیم کھول دی ہے جن کا الگ الگ مقصد ہے، کچھ خوبصورت جوانوں کی پرورش کی جارہی ہے جو صرف مسلم لڑکیوں کے ساتھ رابطہ قائم کررہے ہیں پھر شادی کا لولی پاپ دکھا کر “اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا” پر عمل پیرا ہیں۔۔بالکل اسی طرح کچھ ہندو لڑکیاں بھی آزاد آوارہ چھوڑی گئی ہے

جو مسلمان نوجوان بالخصوص مسلم چہرہ یعنی طلبہ علما اور داڑھی والے کو پھنسانے میں لگی ہیں اور ایسا سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا یہ لڑکیاں کہاں تک جاسکتی آپ سمجھ نہیں سکتے ہیں چونکہ یہ تحریکیں نئی وجود میں آئی ہے اس لیے دھیرے دھیرے ترقی کررہی ہے اور جو بیچارہ پھنس جاتا ہے وہ کبھی نہیں بتائے گا۔۔

ایسا ہورہاہے اس لیے ہوشیار ہوجائیں بس ایک لفظ میں اختتام ہے کہ ” ہم کو معلوم ہے ہم نشانہ پہ ہیں” رسم اہلِ وفا ہر ستم جھیلنا اپنی تاریخ ہے موت سے کھیلنا کج فہم لوگ ہم کو ڈرانے پہ ہیں ظلم ہے مقتدر، ظلم مغرور ہے محورِ طاقت جفاؤں پہ معمور ہے ہم بھی اپنا جگر آزمانے پہ ہیں

قاتلو! قتل گاہیں سجاتے رہو سینے حاضر ہیں گولی چلاتے رہو ہم عقیدے پہ تن من لُٹانے کو ہیں غیرتِ دین سے ربط کو توڑ دیں ڈر کے طاغوت سے نظریہ چھوڑ دیں یہ سبق ہم کو بُزدل پڑھانے پہ ہے یہ تقاضہ ہے مُلک خُدا داد کا سکہ چلنے نہیں دیں گے

الحاد کا اُن کے تاج ستم ہم گرانے پہ ہیں گرم پرواز، جانباز، شہباز ہم کشمکش ہے، جنوں ہے، تگ و تاز ہم جان کی بازیاں کھیل جانے پہ ہیں ہم کو چلنا ہے ہر حال قرآن پر دشمنوں کا چلن جنگلی جانور ہر حد آدمیت بُھلانے پہ ہے زور و زر زیر ہونے کو ہے اک دن بام و در ڈھیر ہونے کو ہے اک دن

مٹنے والے ہیں وہ جو مٹانے پہ ہیں

وقت بدلے گا افضال کو ہے یقیں جبر کے دور سے ہم ہراساں نہیں فتح و نصرت کے پیغام آنے کو ہیں

(دور دراز اور مختلف صوبوں میں جاکر پڑھنے،پڑھانے حضرات نیز امامت کرنے والے حضرات ہمیشہ اپنے پاس کچھ ہزار روپے ساتھ رکھیں کبھی بھی ہجرت و گرفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے خاص کر طلبہ دو چار ہزار ضرور جمع رکھیں)

حضرات! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ سات آٹھ سال سے تاہنوز ملک کے حالات ابتر اور بدتر ہوتے جارہے ہیں ، اس سیاہ تاریک حکومت میں روشنی کی آس و امید باندھنا صرف خود کو دھوکا میں رکھنا ہے لاریب یہ وطن عزیز ہمارا گھر ہے اور ہمارا ہی رہے گا اور اس کی دلیل لال قلعہ، تاج محل، چار مینار، قطب مینار، آسام سے پشاور تک کا ہائی وے روڈ وغیرہ

لیکن ہمارے اس قدیم گھر میں صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ مکڑی نے جالا بن دیا ہے ، اور جگہ جگہ چمگادڑوں نے بسیرا کرلیا ہے جنہیں مسلنا اور کچلنا ایک آن کی بات ہے بشرطیکہ صاحب مکان سست و کاہل نہ ہو بلکہ وہ چالاک اور نظافت پسند نیز سرگرم عمل ہو۔۔

یوں تو اسلام و مسلم دشمنی صدیوں پرانی ہے بلکہ بہ لفظ دیگر یوں کہا جائے حق و باطل کی یہ معرکہ آرائی روز ازل سے ہے جو مختلف ادوار میں مختلف انداز سے چلا آرہا ہے۔۔۔ پہلے اسلام دشمن عناصر نے اسلام کو داغدار کرنے کے لئے ہرممکنہ حربہ استعمال کیا یہاں تک کہ خونی رشتوں میں بھی غدار پیدا کردیا اور یہ مشن صدیوں سے چلاتا رہا

پھر ہندوستان میں چند سالوں سے مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہوں پر انگشت نمائی کرنے لگے اور اب تقریباً 5 پانچ سالوں سے مسلمانوں کی ماب لانچنگ کی جارہی ہے ابھی یہ مشن جاری ہی ہے کہ مدارس اور علما کو نشانہ پہ لے لیا۔۔۔

اسلام دشمن عناصر دین کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے اور اس کے لئے وہ تحقیق بر تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا ہے اب”برما” روہنگیا” اسپین” میں جا کر یہ مجرب عمل سیکھا ہے کہ قلعۂ اسلام کو انہدام کرنا ہے تو اس کے ستون”علما” کو گرانا اور ٹپکانا شروع کردیں اور اس مشن کا آغاز ہوگیا ہے اب مدارس پر بکثرت حملہ ہوں گے حملہ کا مطلب یہ نہیں کہ صرف سینکڑوں شریر بدمعاش ادارہ کے اندر آکر ادھم مچائیں بلکہ کئی طریقے ہیں اولا تو یہی ہے کہ کسی کسی ادارہ میں بھی جبراً داخل ہوکر نقصان پہنچائیں گے

ثانیاً بہرصورت تعلیمی معیار میں گراوٹ پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کے قوانین لائیں گے، سرکاری اسکولوں کی تعطیل پر مدارس میں بھی تعطیل ضروری۔۔ کلاس مکمل بند ورنہ انکوائری ہونے پر مشکلات کا سامنا ہوگا۔۔۔ مدارس کی کئی خصوصی چھٹیاں بھی ختم ہوجائے گی مثلاً شعبان المعظم میں ہونے والی تعطیل کلاں میں بھی تبدیلی ممکن ہے اور اسی طرح کی دیگر تعطیلات جیسے عیدالاضحی پر ہفتہ دس دن کی چھٹیاں کم ہوکر دو دن تین دن میں آجائیں۔۔۔

اسی طرح کچھ سرکاری چھٹیاں “, یوم آزادی،گاندھی جینتی ” کے علاوہ بھی مدارس میں نافذ ہوں گے جس کا منانا لازمی ہوگا اور ان دنوں خصوصی نگرانی کی جائے گی۔۔ حالانکہ کہ اسے چمنستان بنانے میں ہمارے آباء و اجداد کا خون و پسینہ پورا پورا شامل ہے لیکن چھٹیاں جو نافذ کی جائے گی وہ غیرمسلم لیڈروں کے نام ہوگی جن میں بعض بزدل اور کائر تھے۔۔۔ مدارس میں کچھ ایسے پروگرام کرنا ضروری ہوگا جو کسی خاص مردہ کے نام ہوگا جنہوں نے اسلام دشمنی میں ہر ہتھکنڈا اپنایا تھا لیکن چونکہ قانوناً یہ پروگرام منانا ضروری ہوگا اس لئے خلاف ورزی ناقابلِ معافی جرم مانا جائے گا۔۔۔

مشہور گیت “جن گن من” لازمی ہوچکا ہے جسے ہر ادارہ میں پڑھنا لازم ہے اکثر اداروں میں مجبوراََ پڑھا جاتا تھا لیکن بعض جگہ نہیں پڑھا جاتا تھا اب سبھی کو پڑھنا پڑے گا کیونکہ مکمل نگرانی کی جائے گی اور باضابطہ ویڈیو بنائے جائیں گے حالانکہ علماء نے اسے پڑھنا ناجائز و حرام کہا ہے اور اس کی بھرپائ عالمی شہرت یافتہ ترانہ “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” سے ہرگز تسلیم نہ کی جائے گی اگر یہ بعد میں پڑھتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن وہ ضروری ہے آہ آہ ۔۔ بصورتِ انکار دہشتگردی کے الزام کے تحت کیس کی نوبت آسکتی ہے۔۔

مدارس میں اب تک دینی کتابیں ہی داخل نصاب و درس رہی اب غیر دینی کتابیں بھی لازم ہوں گی بلکہ ہندو دھرم کی خاص کتابیں بھی لازمی درس ہوگی جو جلد ہی قانون بننے والا ہے۔۔

اور اتنا سب کچھ کرالینے پر بھی بخشے گا نہیں بلکہ بالآخر یہ حق چھین لیا جائے گا مدارس کو ملنے والی سرکاری تعاون پر پابندی لگنے والی ہے جیسا کہ آسام وغیرہ میں یہ سرکاری فنڈ مدارس کے نام ہے لیکن افسوس غداروں نے بھی حمایت کی حامی بھر دی چنانچہ حالیہ دنوں ہی محمود (آمدنی) مدنی جمعیت علمائے دیو نے کہا کہ مدارس کو ملنے والے فنڈ پر روک لگا دے سرکار۔۔۔

دین پر علی الاعلان حملہ ہونے پر بھی کوئی ادارہ ہرگز ہرگز کسی قسم کے احتجاج کا مستحق نہیں ہوگا ۔۔ کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ آئے دن بصورتِ ترمیم قانون اسلام پر کبھی حملہ ہورہے ہیں تو کہیں بصورتِ اہانت۔۔۔ کبھی نص قطعی سے ثابت احکام میں تبدیلی۔۔۔ اتنے حملہ ہورہے ہیں لیکن کیا کسی اداروں نے کچھ کہا؟ نہیں۔۔۔ کیا أکثر اداروں نے احتجاج کیا؟ نہیں۔۔۔ کیا اداروں نے لیٹرپید جاری کیا؟نہیں۔۔کیوں؟.. اس لیے کہ تقریباً سبھی ادارے سرکاری ہیں جن پر پابندی عائد ہے کہ وہ سرکار کے کسی بھی پالیسی کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔۔

حالانکہ ہمیں بنیادی طور پر یہ حقوق حاصل ہیں لیکن ابھی یہ باتیں کہنا کہ “ابھی بھارت میں انصاف باقی ہے” لولی پاپ دکھا کر شملہ مرچ کھلانا ہے، کچھ بھی قانون کا پاس و لحاظ باقی نہیں رکھی ظالم حکومت نے،جو کہتی ہے وہ کرتی ہے جو کہلواتی ہے وہ کرواتی بھی ہے بابری مسجد کے بعد گیان واپی پہ نشانہ سادھا، 3طلاق کے بعد حجاب کو مدعا بنایا، اجمیر کو شیولنک بکنے کے بعد مدینہ منورہ پر انگشت نمائی کی، اور اب مساجد کے ساتھ ساتھ مدارس کی باری ہے، مدارس کے بعد خانقاہ کالعدم۔۔۔۔ یہ کلی طور پر نہیں تاقیامت نہیں تبدیل کرسکتا ہے لیکن جابجا توڑ پھوڑ کی ناپاک حرکت ضرور کریں گے ان میں خاص ٹارگیٹ مدارس اور علما ہیں چلتی بندوق کے ہم دہانے پہ ہیں ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں

ایسی صورت میں جو مناسب اور ضروری اقدامات ہیں وہ ضرور کریں مثلاً احتجاجی جلوس میں طلبہ ہرگز شامل نہ ہوں، کسی بھی قسم کا مظاہرہ ہو تو اساتذہ متنبہ ہوجائیں کہ کوئی طالب علم کسی بھی طرح ادھر جھانکیں تک نہیں، اپنے ادارہ میں CCTV کئی جگہ لگائے رکھیں

کوئی طالب علم زیادہ پرجوش مضمون خاص کر ہندی زبان میں نہ لکھے کیوں کہ سائیبر پولیس ٹیم کے ذریعے مضامین کی بھی اب جانچ پڑتال ہورہی ہے اور قانونی کارروائی کی جارہی ہے جیسا کہ حالیہ دنوں اخبار میں بھی شائع ہوا ہے ۔۔

کوئی بھی انجان آدمی دعوت کرے تو قبول نہ کریں تنہا میلاد فاتحہ، دعا تعویذ کے لئے لے جائے تو نہ جائیں اسی طرح بعض نام نہاد مسلم سے بھی ہوشیار ہوجائے ممکن ہے کہ اعدائے دین سے کوئی سانٹھ گانٹھ ہو ایسا ہو رہا دولت کی لالچ میں انسان کس حد تک چلا جائے کہنا مشکل ہے۔۔

میڈیا سے بالکل دور رہیں چاہے طالب علم ہو یا عالم، امام یا مطلق مسلمان ورنہ اس طرح یہ باتوں باتوں جال میں پھنسالیں گے کہا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ انھیں خاص ٹرینینگ دی جاتی ہے اور پھر یہ خود بھی مشق کرتے کرتے ماہر ہوجاتے ہیں لھذا میڈیا سے دور رہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں جسے میڈیا نے برعکس دکھایا ہے

کسی بھی لڑکی سے فیسبک، واٹسپ، ٹیلیگرام، انسٹاگرام وغیرہ پر بات چیت نہ کرے بلکہ فیس ٹو فیس بھی بات نہ کرے شرعاً جو ممانعت ہے اس سے قطع نظر بھی ابھی یہ زہر قاتل ہے، لڑکیاں دھندا بنالی ہیں جو دوچار روز اکسا کر پھنسا دیتی ہے ایسا حادثہ کئی لوگوں کے ساتھ پیش آیا جن میں سے دو طالب علم اتردیناج پور بنگال کے رہنے والے ہیں

جن سے پولیس کی دھمکی دے کر 40 ہزار روپے وصول کیا ، اس لیے اس جھانسہ میں نہ آئیں اور ابھی ہندوؤں نے اتنی ٹیم کھول دی ہے جن کا الگ الگ مقصد ہے، کچھ خوبصورت جوانوں کی پرورش کی جارہی ہے

جو صرف مسلم لڑکیوں کے ساتھ رابطہ قائم کررہے ہیں پھر شادی کا لولی پاپ دکھا کر “اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا” پر عمل پیرا ہیں۔۔بالکل اسی طرح کچھ ہندو لڑکیاں بھی آزاد آوارہ چھوڑی گئی ہے جو مسلمان نوجوان

بالخصوص مسلم چہرہ یعنی طلبہ علما اور داڑھی والے کو پھنسانے میں لگی ہیں اور ایسا سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا یہ لڑکیاں کہاں تک جاسکتی آپ سمجھ نہیں سکتے ہیں چونکہ یہ تحریکیں نئی وجود میں آئی ہے اس لیے دھیرے دھیرے ترقی کررہی ہے اور جو بیچارہ پھنس جاتا ہے وہ کبھی نہیں بتائے گا۔۔

ایسا ہورہاہے اس لیے ہوشیار ہوجائیں بس ایک لفظ میں اختتام ہے کہ ” ہم کو معلوم ہے ہم نشانہ پہ ہیں”

رسم اہلِ وفا ہر ستم جھیلنا

اپنی تاریخ ہے موت سے کھیلنا

کج فہم لوگ ہم کو ڈرانے پہ ہیں

ظلم ہے مقتدر، ظلم مغرور ہے محورِ طاقت جفاؤں پہ معمور ہے ہم بھی اپنا جگر آزمانے پہ ہیں

قاتلو! قتل گاہیں سجاتے رہو سینے حاضر ہیں گولی چلاتے رہو ہم عقیدے پہ تن من لُٹانے کو ہیں

غیرتِ دین سے ربط کو توڑ دیں ڈر کے طاغوت سے نظریہ چھوڑ دیں یہ سبق ہم کو بُزدل پڑھانے پہ ہے

یہ تقاضہ ہے مُلک خُدا داد کا

سکہ چلنے نہیں دیں گے الحاد کا

اُن کے تاج ستم ہم گرانے پہ ہیں

گرم پرواز، جانباز، شہباز ہم

کشمکش ہے، جنوں ہے، تگ و تاز ہم

جان کی بازیاں کھیل جانے پہ ہیں

ہم کو چلنا ہے ہر حال قرآن پر

دشمنوں کا چلن جنگلی جانور

ہر حد آدمیت بُھلانے پہ ہے

زور و زر زیر ہونے کو ہے اک دن

بام و در ڈھیر ہونے کو ہے اک دن

مٹنے والے ہیں وہ جو مٹانے پہ ہیں

وقت بدلے گا افضال کو ہے یقیں

جبر کے دور سے ہم ہراساں نہیں

فتح و نصرت کے پیغام آنے کو ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *