چیف جسٹس کو سلام

Spread the love

از : ودود ساجد :: چیف جسٹس کو سلام

چیف جسٹس کو سلام

سپریم کورٹ نے اپنی تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب کھولا ہے۔ سپریم کورٹ نے وہ کیا ہے جو اس ملک کو آزادی ملنے کے فوراً بعد انصاف پسند قانون ساز اداروں کو کر دینا چاہیے تھا۔۔

سچ پوچھیے تو سپریم کورٹ نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ایک ایسی تاریخ کہ جسے اس دور میں رقم کرنے کے لیے قلم کاغذ کی نہیں بلکہ لوہے کے جگر کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس این وی رمنا کو اس ملک کے ہزاروں لاکھوں مظلوموں کی طرف سے سو سو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔۔

گزشتہ سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے اس ملک کی حکومتیں غداری کی دفعہ 124اے کا بے دریغ استعمال کرتی آرہی ہیں۔

اس’گناہ کبیرہ‘کا ارتکاب کسی ایک پارٹی نے نہیں بلکہ سبھی پارٹیوں نے کیا ہے۔لیکن پچھلے سات آٹھ برسوں میں اس کا جس بڑے پیمانے پر ناجائز استعمال ہوا ہے اس کی کوئی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔۔

انگریزوں کے زمانے میں اس کا بے دریغ استعمال آزادی کے متوالوں اور انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف ہوا۔لیکن فی زمانہ اس کا استعمال ان سیاسی مخالفین تک کے خلاف کیا گیا جنہوں نے حکومت کے طریقہ کار سے اختلاف کیا۔

یہاں تک کہ کورونا کے زمانہ میں جن سیاسی مبصرین نے حکومت کو اس کی ناکامیوں کی طرف توجہ دلائی ان کے خلاف بھی پولیس نے اس دفعہ کے تحت مقدمات درج کرلیے۔

اس طرح کے کئی مقدمات سپریم کورٹ کے سامنے بھی آئے اور عدالت کی مختلف بنچوں نے اس دفعہ کے ناجائز استعمال پر اپنی ناگواری کا اظہار بھی کیا۔

 

تازہ مثال چیف جسٹس آف انڈیا کی ہے جنہوں نے اس دفعہ کے ناجائز استعمال کا موازنہ لکڑی کاٹنے والی لوہے کی اس آری سے کیا جو کوئی چیز بنانے کے لیے بڑھئی کو دی جاتی ہے اور وہ محض کوئی درخت کاٹنے کی بجائے پورا جنگل ہی کاٹ دیتا ہے۔۔ موجودہ حکومت ابتدا میں نہیں چاہتی تھی کہ اس دفعہ کے خلاف سپریم کورٹ آئینی اور قانونی جائزہ لے۔

اس نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے ایک حلف نامہ بھی دائر کردیا تھا جس میں کہا تھا کہ وہ اس دفعہ پر نظر ثانی کرنے یا عدالت کے ذریعہ اس پر غور کرنے کے حق میں نہیں ہے۔لیکن جب اس نے عدالت کا رویہ دیکھا تو ایک دوسرا حلف نامہ دائر کرکے وعدہ کیا کہ وہ اس دفعہ پر نظرثانی کرنے کو تیار ہے۔

یہی نہیں اٹارنی جنرل کو یہ علم بھی ہوگیا کہ اس دفعہ کا ناجائز استعمال بھی ہورہا ہے۔انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہنومان چالیسا‘ پڑھنے تک کے خلاف اس دفعہ کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔۔

آپ کو یاد ہوگا کہ مہاراشٹر میں راج ٹھاکر ے کے ذریعہ مسجدوں میں لائوڈ اسپیکر پر اذان کا مسئلہ اٹھانے کے بعد آزاد ممبر پارلیمنٹ نونیت رانا اور ان کے شوہر ایم ایل اے نے مہاراشٹر کے وزیر اعلی کے گھر کے سامنے ہنومان چالیسا پڑھنے کی ضد کی تھی۔

اس کے علاوہ راج ٹھاکرے نے بھی اعلان کیا تھا کہ اگر مسجدوں سے اسپیکر پر اذان دینے کا سلسلہ نہ تھما تو ان کے لوگ ہر مسجد کے آگے اسپیکر پر ہنومان چالیسا پڑھیں گے۔ حکومت مہاراشٹر نے نونیت رانا ور ان کے شوہر کے خلاف اسی طرح کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا۔

لہذا اٹارنی جنرل نے اس واقعہ کو اس دفعہ پر غور کرنے اور مرکزی حکومت کے تبدیل شدہ موقف کے جواز کے طورپرپیش کیا تھا۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ مرکزی حکومت اس سلسلہ میں بہت سنجیدہ ہے۔

لیکن چیف جسٹس نے مرکزی حکومت کو اسی کے حصار میں مقید کردیا۔گزشتہ 11 مئی کو عدالت نے اپنے حکم میں اٹارنی جنرل کے ذریعہ پیش کردہ اس مثال کو بطورمثال شامل کیا۔اور عدالت کے ذریعہ اس دفعہ کے استعمال پر عبوری پابندی کے جواز کے طورپراسی مثال کو پیش کیا۔

عدالت نے تمام زیر التوا مقدمات میں پیش رفت پر تو پابندی لگاہی دی ہے ساتھ ہی کوئی بھی نئی ایف آئی آر اس دفعہ کے تحت اس وقت تک نہیں لکھی جاسکے گی جب تک حکومت اس پر نظر ثانی کرکے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ جاتی۔۔ بہرحال یہ قضیہ بڑی تفصیل سے لکھے جانے کا متقاضی ہے۔ بہت سے مبصرین اس پر لکھیں گے بھی۔

لیکن سردست یہ بات زیادہ اہم ہے کہ سپریم کورٹ نے پوری طاقت سے دکھایا ہے کہ حقوق انسانی کے معاملات میں وہی سپریم ہے اور یہ کہ اگر وہ چاہے تو طاقت ور حکومت بھی اس کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اس ملک کے دس ہزار سے زیادہ ان افراد کو راحت دینے کا سامان فراہم کردیا ہے جو اس سخت دفعہ کے تحت جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔

اس دفعہ کے تحت دو سال سے پہلے کوئی ملزم عدالت کے روبرو اپنی داستان رنج والم لے کر نہیں آسکتا۔ یعنی اسے دو سال سے پہلے ضمانت ملنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔

لیکن اب سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایسے تمام متاثرین کو مقامی مجاز عدالتوں سے رجوع کرنے کا حق دیدیا گیا ہے۔ابھی یہ قضیہ ختم نہیں ہوا ہے۔

لیکن یہ ایک بہت تاریخ ساز مرحلہ ہے۔اس کے لیے چیف جسٹس این وی رمنا تمام مظلومین کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *