حجاب چھوڑئیے صاحب یہاں تو پستان چھپانا بھی جرم عظیم تھا
از قلم : آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ] حجاب چھوڑئیے صاحب یہاں تو پستان چھپانا بھی جرم عظیم تھا
حجاب چھوڑئیے صاحب یہاں تو پستان چھپانا بھی جرم عظیم تھا
{موج فکر}
آر یس یس کے زہریلے خمیر سے نکلے والی بی جے پی اپنی شرم ناک حرکتوں کے ذریعہ جب زمام حکومت سنبھالی تھی، اسی وقت ظاہر ہو چکا تھا کہ ہندو مسلم میں نفرتوں کی آبیاری کرنے والی یہ پارٹی مذہبی عداوتوں کی فصل اک دن ضرور کاٹے گی۔
لیکن وہ اس میں اتنی جلد بازی کرے گی اس کا اندازہ ہرگز نہیں تھا۔ مذہب و شریعت میں دخل اندازی کرکے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کر رکھی ہے۔ شب و روز بے چینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی ہے۔
خصوصی طور پر جب اسمبلی انتخابات قریب آتا ہے تو ہندو مسلم کے مابین نفرت کی کوئی نا کوئی بیج ضرور ڈالی جاتی ہے۔ زعفرانی پلے (पिल्ले) ابھی حالیہ اسلامی قانون حجاب کے خلاف واویلا مچائے ہوئے تھے۔
جس پر میری قوم کی غیرت مند ننھی شہزادی “مسکان خان “نے اپنی ہمت و بہادری کا جوہر دکھاتے ہوۓ زعفرانی گیدڑ بھبکیوں کو آن واحد میں ان کی اوقات یاد دلا دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان آتنکیوں کے خانۂ فکر میں مسلسل بھونچال برپا ہے۔
2022 کا حجابی سانحہ تاریخ ہند میں جلی حرفوں سے رقم کردیا گیا ہے۔ تاکہ نسل نو یہ جان سکے کہ ظالم حکم راں نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیسا جانب رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ کاش آر یس یس کے زہریلے زعفرانی خمیر اسلام پر شب خوں مارنے کی بجائے تاریخ ہند کا مطالعہ کیے ہوتے تو شاید دانتوں تلے انگلی داب لیتے اور ایسی نازیبا حرکتوں سے آئین ہند کو داغ دار نہ کرتے
۔ 1729 کی بات ہے کہ بھارت کے نقشے میں ٹراونکوڑ کی سرزمین پر دل سوز آنکھوں کو نم ناک کر دینے والا درد ناک ناقابل بیان سانحہ تاریخ ہند میں بادشاہ وقت مرتھنڈ ورما کے دور حکومت میں ملتا ہے۔ کہ بادشاہ مرتھنڈ ورما زمام حکومت کے ساتھ تخت شاہی پر بیٹھتے ہی قدیم بادشاہوں کی ریت رواج کے مطابق اپنا حکم نامہ نافذ کرتا ہے۔
کہ فلاں فلاں اشیاء پر آپ لوگوں کو ٹیکس دینا ہوگا فہرست ضوابط میں ایک ایسے ٹیکس کا ذکر تھا جسے انسانی کان کبھی سنا تھا اور نہ ہی ذہن انسانی نے اسے بھول کر بھی کبھی سوچا ہوگا۔
“پستان ٹیکس/ بریسٹ ٹیکس” کے حوالے سے قانون لکھا ہوا تھا ، جو نچلی قوم (دلت، او بی سی وغیرہ وغیرہ) کی خواتین پر خصوصی نافذ کیا گیا تھا۔ کہ ان کے لیے اپنا پستان چھپانا سب سے بڑا جرم ہوگا، خلاف ورزی کی صورت میں ٹیکس (تاوان) دینا ہوگا۔
ظلم کی انتہا اسی پر بس نہ ہوئی بل کہ بادشاہ کا حکم نامہ رعایا کو سنایا گیا کہ میری حدود سلطنت میں رہنے والے مرد و عورت کو حیات مستعار گزارنے کے لیے بادشاہ کےقانون پرعمل پیرا ہونا لازم و ضروری ہوگا۔
(نچلی قوم اسلامی حکمرانوں کے علاوہ بل کہ ہر دور حکمرانی میں کچلی گئیں ذلیل و رسوا کی گئیں) ظالم بادشاہ مرتھنڈ ورما کا خود ساختہ گھناؤنا قانون یہ تھا کہ نچلی ذات کی خواتین خالص کمر سے لےکر پیر تک کے اعضاء کو چھپا سکتی ہیں۔
پستان کو چھپانے کی انہیں قطعی کوئی اجازت نہیں ہے۔ اسی کھلے سینےکے ساتھ ضرورت پڑنے پر خواتین کوٹ کچہری کا چکر بھی لگاتی تھیں۔ عظیم عہدے دار اور اعلیٰ افسران کی آمد پر عورتوں کو اپنا پستان کھول کر بات کرنی پڑتی تھی۔ اس قانون سے باہر نکل کر زندگی گزارنے کا گویا تصور ہی مفقود ہو چکا تھا
کیوں کہ بادشاہ کے ڈر سے عام صورت حال میں بھی اسی طرح عورتیں رہنے لگی تھیں۔ شرم و حیا اس وقت دم بخود ہوکر رہ گئی جب کوئی خاتون غیرت کے مارے اپنا کھلا پستان چھپاتی اور وہ بڑا ہوتا تو اس جرم میں زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا۔
اور اگر پستان چھوٹا ہوتا تو ٹیکس کم دینا پڑتا۔(یہ بادشاہ وقت کا فرمان تھا کہ جس کا پستان بڑا ہوگا اس کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا، باقاعدہ پستان کو ناپا جاتا تھا) ٹیکس افسران (Tex officer)کی ٹیم بلاناغہ ہر ہفتے ناڈر (nadar) و ایزوا (ezhava) قوم کے پاس ٹیکس لینے آتی تھی۔
ٹیکس کو کیلے کے پتے پر رکھ کر دینا ہوتا تھا۔ آخر بادشاہ مرتھنڈا ورما کا یہ ظالمانہ کالا قانون کب تک چلتا ایک نہ ایک دن تو بھسم ہونا ہی تھا 1803ء میں ایزوا (ezhava) ذات(ایزوا نیچے ذات کو کہتے ہیں ) میں نانگیلی نامی ایک بہادر خاتون کی تاریخی سوانح حیات ملتی ہے کہ اس خاتون نے تنے تنہا نہایت ڈھٹائی سے بادشاہ وقت کے غلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ نانگیلی اپنے پستان کو ڈھک کر چلنے لگی تھی
اور اس کا کہنا تھا کہ اب میں اسی طرح رہوں گی اور بریسٹ ٹیکس بھی نہیں دوں گی ۔سماج میں یہ بات بڑی تیزی سے پھیلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ لمحوں میں یہ بات ٹراونڈ راجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ راجہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے کہ کون ہے میری رعایا میں جس کی اتنی بڑی جرأت ہوئی کہ وہ میرے فرمان کے خلاف من مانی کرنے لگی۔
اور فورا ٹیکس اصولی کرنے والے اعلیٰ افسران کو طلب کرکے ہدایت کرتا ہے کہ جاؤ اور اس سے ہر حال میں ٹیکس لے کر آؤ۔
دوپہر کے وقت ٹیکس افسران ٹراونکوڑ میں نانگیلی کے گھر پہنتے ہیں اور ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن نانگیلی اور ان کے شوہر چرکنڈن دونوں با یک زبان ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
لہذا افسران اور نانگیلی کے بیچ کافی بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور نانگیلی کو نچلی ذات ہونے کی وجہ سے افسران نے بہت ٹارچر بھی کیا۔ بلآخر یہ کہہ کر کہ “لا رہی ہوں ٹیکس” نانگیلی گھر کے اندر جاتی ہے اور پھر اپنا “ایک پستان کاٹ کر کیلے کے پتے پر رکھ کر افسران کے سامنے پیش کردیتی”۔
یہ دیکھ کر موجودہ افسران کے ساتھ ٹراونکوڑ کی جنتا حواس باختہ ہوجاتی ہے۔ اور نانگیلی کے جسم سے برابر خون جاری تھا جس سے موقع پر اس کی موت ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ٹراونکوڑ کے راجہ مرتھنڈ ورما پر جگہ جگہ سے بہت پریشر پڑتا ہے کہ بریسٹ ٹیکس کو ہٹایا جاۓ۔
احتجاج اتنا شدیدتھا کہ بادشاہ کےکنٹرول سے باہر ہو چکا تھا۔ لہذا بادشاہ کو اعلان کرنا پڑا کہ آج سے ایزوا ذات کی خواتین سے بریسٹ ٹیکس ہٹایا جارہا ہے اور اب وہ اپنے بدن کو ڈھک کر رہ سکتی ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ 1729ء میں مرتھنڈ ورما راجہ نے یہ بریسٹ ٹیکس جیسا کالا قانون لگایا تھا جو کہ 1803ء تک چلا۔ اور نانگیلی کی بے مثال قربانی کی وجہ سے ایزوا ذات کی خواتین کو 1803ء میں بریسٹ ٹیکس دینے سے نجات ملی۔
اور انہیں پستان ڈھک کر چلنے کی اجازت دے دی گئی۔(آج بھی نانگیلی کی پوجا ٹراونکوڑ میں کی جاتی ہے۔) لیکن ٹراونکوڑ میں ابھی نادر (nadar) کمیونٹی کی خواتین سے بریسٹ ٹیکس کا قانون ہٹایا نہیں گیا تھا۔ ناڈر قوم کی تاریخ بھی بہت تاریک تھی (اختصار سے پیش کر رہاہوں) ناڈرکمیونٹی نے جب دیکھا کہ ایزوا کمیونٹی سے بریسٹ ٹیکس کو ہٹالیا گیا۔
تو پوری ناڈرکمیونٹی نے اپنے حق کے لیے اس کالے قانون کے خلاف ایسا احتجاج کیا جو ایک تاریخی احتجاج بن گیا اور یہ کئی دن تک لگاتار چلتا رہا۔ 1859ء میں برٹش حکومت اور ٹراونکوڑ کے راجہ کے بیچ نادر قوم کے احتجاج کو لے کر کافی بات چیت ہوئی۔
اس وقت مدراس کے گورنر “چارلس ٹویلئن” (Charles trevelyan) تھے آپ نے ورتھنڈ ورما پر کافی پریشر ڈالا تو بادشاہ نے ناڈرکمیونٹی سے بھی بریسٹ ٹیکس کو ہٹایا پھر بھی خفیہ طور پر ٹیکس لیا جاتا رہا۔ 1924ء میں جب آزادئ ہند کی لڑائی پورے چرم سیما پر تھی تب اس وقت اس کالے قانون (بریسٹ ٹیکس) سے نجات ملی تھی۔
از قلم : آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک،گونڈہ]
Pingback: خلیل عالم رضوی کو انصاف دلانے کے لیے اخترا لایمان کا پریس کانفرس ⋆ اردو دنیا پریس کانفرس
Pingback: جامعہ ستر معلیٰ للبنات فکر رضا کی کہکشاؤں میں ⋆ اردو دنیا از : آصف جمیل قادری امجدی
Pingback: ججوں کو دھمکی سپریم کورٹ کا کرناٹک اور تامل ناڈو حکومت سے جواب طلب ⋆ اردو دنیا
Pingback: قوم مسلم گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے ⋆ اردو دنیا آصف جمیل امجدی
Pingback: ماں مجھے معلوم ہی کیا تھا ⋆ اردو دنیا ⋆ آصف جمیل امجدی
Pingback: نظم رمضان ⋆ اردو دنیا ⋆ آصف جمیل امجدی
Pingback: پردے کی شرعی حیثیت اور کرناٹک حجاب معاملہ ⋆ اردو دنیا
Pingback: بانی رضا اکیڈمی کو قائد ملت ایوارڈ بہت مبارک ⋆ اردو دنیا ⋆ رپورٹ
Pingback: پردے کی شرعی حیثیت اور کرناٹک حجاب معاملہ قسط دوم ⋆ اردو دنیا ⋆ محمد ایوب مصباحی
Pingback: حج سفر محبت وعبادت ⋆ اردو دنیا از : مفتی محمد ثناء الہدیٰ
Pingback: عورتوں کا بہترین زیور حیا اور پردہ ہے ⋆ محمد مقتدر اشرف فریدی
Pingback: اے انسان خود کو پہچان ⋆ اردو دنیا محمد محفوظ قادری
Pingback: مرتد ہوتی اسلامی بہنوں کا ذمہ دار کون ⋆ محمد توصیف رضا قادری علیمی
Pingback: مختصر احوال استاذ العلما حضرت علامہ مفتی غلام یسین نوری ⋆ توصیف رضا قادری
Pingback: منصب امامت اور عوام کے حالات ⋆ افکار رضا ⋆ از قلم: محمد جنید رضا
Pingback: نیا سال اور آہ مسلمانوں کا کردار و اعمال ⋆ از قلم: محمد اشفاق عالم نوری فیضی
Pingback: نئے سال کے خرافاتی جشن سے بچیں افکار رضا اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی
Pingback: فکرِ اسلامی کے تابندہ نقوش اور عصبیتِ قومیہ کا زوال ⋆ غلام مصطفیٰ رضوی
Pingback: آخر ایسا کیوں ⋆ مفتی رضوان احمد مصباحی
Pingback: ملِکُ العلما بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں ⋆ تحریر: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی
Pingback: موسم سرما، مؤمنوں کے لیے فصل بہار ⋆ از: خضرا فاطمہ نعمانی
Pingback: پیشوں کو باعث عارسمجھنا اس دور کی لعنت ہے ⋆ قطب الحسن نظامی
Pingback: پنجۂ کفر دختران ملت کے گریبان تک ⋆ جاوید اختر بھارتی
Pingback: ویلنٹائن ڈےشہد دکھائے زہرپلائے کے مترادف ⋆ مفتی محمدشمس تبریزقادری علیمی
Pingback: بجلی کے فلیٹ ریٹ سے ہی بنکروں کا بھلا ہوگا ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: ذرائع ابلاغ اور اظہار آزادی رائے ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: نہ کہیں شور نہ ہنگامہ ایسی ہوتی ہے عید ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: اترپردیش میں بلدیاتی انتخابات ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: قربانی ہم کیوں کریں ⋆ قمر انجم فیضی
Pingback: یکساں سول کوڈ اور دانش وروں کا مشورہ ⋆ اردو دنیا تحریر:جاوید اختر بھارتی
Pingback: مسلمان ہی کیوں جلد بازی کرے ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: یکساں سول کوڈ ایک خوش نما سراب ⋆ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
Pingback: نفرت اور تشدد کا ذمہ دار کون ⋆ اردو دنیا
Pingback: کیا امریکا نے ایک نیا قرآن بنا لیا ⋆ اردو دنیا
Pingback: سچا دوست بھی ہوتا ہے اللہ کی نعمت ⋆ جاوید اختر بھارتی
Pingback: تحفے تحاٸف محبت کی کلید ہوتے ہیں ⋆ اردو دنیا
Pingback: قربانی وذبح کا طریقہ ⋆ تحریر۔محمد توحید رضا علیمی
Pingback: وقت کے جابر حکمراں کے اگے ڈٹ جانا سیدنا امام حسین کا عظیم کردار ⋆ عبدالحفیظ
Pingback: میرے اولین استاد مولانا یوسف صاحب قبلہ کی بارگاہ میں خراجِ تحسین ⋆
Pingback: اتنی بڑی لڑکی مدرسے بھیجتے ہیں آپ ⋆ اردو دنیا