ویلنٹائن ڈےشہد دکھائے زہرپلائے کے مترادف
’’ویلنٹائن ڈے‘‘شہد دکھائے زہرپلائے کے مترادف
تحریر: مفتی محمدشمس تبریزقادری علیمی ( ایم.اے. بی.ایڈ) مدارگنج .ارریہ،بہار۔
اللہ تعالیٰ نے دنیامیں کم وبیش اٹھارہ ہزار مخلوقات کو پیدافرمایا۔ ان میں انسان کو سب سے افضل واشرف بنایاہے۔عقل وشعور اور فکر وآگہی کے ساتھ حق وباطل کے درمیان امتیازکرنے کی عظیم صلاحیت عطافرمائی۔
شرم وحیا جیسے بہترین وصف سے انسان کونوازاگیا۔غورکرنے پرمعلوم ہوتا ہے کہ مسرت وشادمانی اور رنج والم کوظاہرکرنے کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی کچھ حدتک مماثل ہوتے ہیں جب کہ شرم وحیا ایک ایسا وصف ہے جو صرف اور صرف انسان میں ہی پایاجاتاہے۔
جانور اور انسان کے درمیان شرم وحیا ہی خط امتیازاور دونوں کے مابین فرق کی بنیادی علامت وپہچان ہے۔ جب کسی قوم یامعاشرے سے شرم وحیارخصت ہوجائے تو دھیرے دھیرے باقی اچھائیاں بھی عنقا ہونے لگتی ہیں۔ جب تک سماج میں بسنے والے لوگ شرم وحیاکے دامن سے وابستہ رہتے ہیں ذلت و رسوائی سے محفوظ رہاکرتے ہیں اور جب آزاد خیالی کے نام پر اس سے دوری اختیارکی جاتی ہے تو انسان ہر طرح کا گھٹیا اور رذیل کام بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ کرتا نظرآتا ہے۔
رسولِ کریم ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے:’’جب تجھ میں حیا نہیں توجوچا ہے کر‘‘(بخاری)
اسلام بلاشبہ ایک مکمل نظام حیات ہے جوانسان کے فطری تقاضوں کااحترام بھی کرتاہےاوران کی تکمیل کااہتمام بھی کرتاہے۔مذہب اسلام اور شرم وحیا کا آپسی تعلق وہی ہے جوجسم وروح کاہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’بے شک حیا اورایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک اٹھ جاتاہے تو دوسرابھی اٹھا لیاجاتا ہے‘‘۔(مستدرک للحاکم)
ایک حدیث میں ہے’’بے شک ہر دین کاایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیاہے‘‘۔(ابن ماجہ)۔
تاریخ شاہد ہے کہ ابتداہی سے دشمنِ اسلام مسلمانوں کی حیاپر شب خون مارنے میں لگے رہےہیں اور اس کے لئے طرح طرح کے پروپیگنڈے اور ہتھکنڈے اپنائے گئے۔حیاسوز سیریل،ڈرامے اورفلمیں تیارکی گئیں ۔دشمنِ اسلام کی دیرینہ کاوشوں کانتیجہ ہی ہے کہ آج بے حیائیوں کابازار شباب پر ہے۔
مسلم دین دار اور تقویٰ شعارگھرانوں کی عورتیں اور بچیاں ہی اس پُرفتن بلا سے اب تک محفوظ ہیں ورنہ اب توفیشن کے نام پر ہرگھرکا یہی عالم ہے۔عصری تعلیم کے نام پر آج مسلم بچیاں بھی اس کا شکار ہوچکی ہیں ۔ مذہبِ اسلام ہی ہے جوعورتوں کی عزت وعصمت اور پاک دامنی وپارسائی کی مکمل حفاظت کے لیے شرم وحیاکی تعلیم دیتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کا پس منظر :
کہاجاتاہے کہ ایک پادری جس کانام ’’ویلنٹائن‘‘ تھا۔تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلاڈیس ثانی کے زیرِ حکومت رہتاتھا۔کسی نافرمانی کی بناپر بادشاہ نے اس پادری کو قیدکرکے جیل میں ڈال دیا۔ مرورِ ایام کے ساتھ ہی جیلر کی لڑکی اور اس پادری کے درمیان عشق ومحبت کابازار گرم ہوگیا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لڑکی نے عشق کی وجہ سے اپنے آبا واجداد کا دھرم چھوڑکرپادری کا مذہب ِنصرانیت قبول کرلیا۔
وہ لڑکی روزانہ کسی نہ کسی بہانے سے ایک لال رنگ کاگلاب لے کرپادری سے عشق لڑانے آیاکرتی تھی۔ان دونوں کے عشق والفت کی داستان جب مکمل شباب پر آگئی توبادشاہ ِوقت کواس کاعلم ہوگیا۔ تو اس نے پادری کوپھانسی دینے کا حکم صادرکردیا۔
پھانسی کی خبرجب اس پادری تک پہنچی تو ’’مرتاکیانہ کرتا‘‘آتشِ عشق ومحبت سے سرشاراپنے آخری لمحات اپنی معشوقہ کے ساتھ گزارنے کاارادہ کرلیااور اس کوعملی جامہ پہنانے کے لئے ایک کارڈ اپنی معشوقہ کے نام بھیجاجس پر یہ تحریرتھا’’مخلص ویلنٹائن کی طرف سے‘‘بالآخر وہ گھڑی بھی آہی گئی جب اس پادری کوپھانسی دے دی گئی۔ اس دن کے بعدسے ہرسال ۱۴/فروری کویہ دن اس پادری کے نام ویلنٹائن ڈے کے طور پرمنایاجانے لگا۔(ماخوذ:ویلنٹائن ڈے،ص:۱۲)
ہرسال ۱۴/فروری کی تاریخ جوں جوں قریب آتی ہے نئی نسلوں کی رگوں میں خون کی حرارت بہت زیادہ بڑھنے لگتی ہے۔اسکول وکالج اوریونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات نئے نئے منصوبے تیارکرنے لگتے ہیں۔اس تاریخ سے لطف اندوزہونے کے لئے نئ نئ جگہوں کاانتخاب کیاجاتاہے۔من پسند گفٹ اور تحائف خریدے جاتے ہیں۔ ہرکوئی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاردینے کاعزم بالجزم کرتے نظرآتے ہیں۔بقیہ زندگی بسرکرنے کے سنہرے خواب سجائے جاتے ہیں۔
موجودہ زمانے کے عاشقِ دھتورہ لوگ اپنی اپنی محبوبہ اورمعشوقہ کو خوبصورت اوردلکش ودلفریب لفافہ میں چھپاکر اپنے مستقبل کے عزائم ومقاصد پیش کرتے ہیں۔جیسے ہی تیرہ تاریخ گزر کر۱۴/فروری کی شب آتی ہے ’’اللہ کی پناہ!‘‘عشق ومحبت کے نام پر نوجوان لڑکے اورلڑکیاں ایک دوسرے کوفون سے متعینہ جگہ پربلاتے ہیں اور پھرساری حدیں پارکرجاتے ہیں۔
فرائنڈشپ کے نام پرساری رات بے پردگی وبے حیائی کے ساتھ میل ملاپ،تحفے تحائف کے لین دین سے لے کرفحاشیت وعریانیت اور عصمت دری کھلے عالم یاچوری چھپے جس کاجتنابس چلتاہے ہرنوعیت کامظاہرہ کیاجاتاہے۔
مغربی ممالک میں کھلے عام دوشیزائیں اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ رنگ ریلیاں مناتی ہیں ۔ کیوں کہ ان معاشروں میں اسے ایک تہوار کے نام سے یادکیاجاتاہے اور اس طرح کے افعالِ بدسے انہیں کسی طرح کی عار محسوس نہیں ہوتی ہے۔
مشرقی اقدارکے ممالک میں چند برس قبل تک کھلی چھوٹ نہیں ملتی تھی لیکن اب آزادخیالی اور نئے فیشن کے نام پرمہذب اور تہذیب یافتہ ملکوں میں بھی اس کو اپنایاجانے لگاہے۔وطن عزیزبھارت میں بھی اس تاریخ کونوجوان لڑکے ،لڑکیاں آپسی محبتوں کاتحفہ پیش کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے اس دن ریسٹورنٹ اورہوٹلوں کی بکنگ عام دنوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے اورنوجوان لڑکے عشق ومحبت کے نام پر اپنی محبوبہ کی ردائے عصمت کوعیش وعشرت کے ساتھ تارتار کردیتے ہیں۔اور ان دوشیزاؤں کوذرہ برابربھی احساس ندامت نہیں ہوتاہے ۔
اورنہ ہی ان کے والدین کوکسی طرح کی انسانی غیرت سوچنے پر مجبورکرتی ہے۔اس کی وجہ بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسے والدین جوماڈرن اور دنیادارہوتے ہیں جن کی جنت دنیاہی ہے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ میری بیٹی جسے اپنے دامِ عشق میں گرفتارکئے ہوئے ہے وہی تو اس کاشریک حیات بنے گا۔اور بیٹیوں کی خوشی میں ہی والدین بھی خوش رہاکرتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہرسال اس تاریخ کوفیملی پلاننگ کی ادویات عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنازیادہ فروخت ہوتی ہیں اورخریدنے والوں میں اکثریت نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کی ہوتی ہے۔اس ایک دن میں کھلے اور چھپے بے حیائیوں کے نتیجہ میں انگلینڈ کے ایک پرائمری اسکول میں دس برس عمرکی ۳۹/بچیاں حاملہ ہوگئیں۔
غورکرنے کی بات ہے کہ یہ توایک پرائمری اسکول میںدس سالہ بچیوں کے ساتھ ظلم وبربریت کی داستان ہے اگرپوری دنیاکاجائزہ لیاجائے تورزلٹ کس قدربھیانک ہوگااس کااندازہ لگانامشکل نہیں۔اس دن کوتہوارکے طورپرمنانے والے بے دین اوردشمنِ اسلام ہی ہواکرتے تھے مگرچندبرسوں سے اس وبا کا شکارعصری تعلیم یافتہ ماڈرن مسلم گھرانابھی ہے۔
انتہائی دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بے دینوں اورملحدوں کی روش پرچلتے ہوئے بہت سے مسلمان بھی مذہبِ اسلام کے عطاکردہ پاکیزہ احکامات کوپسِ پشت ڈالتے ہوئے اس دن کھلم کھلاگناہوں کاارتکاب کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
افسوس !صدکروڑ افسوس !جوان لڑکی اب چادراورچاردیواری سے نکل کرمخلوط تعلیم کی نُحوست میں گرفتار،بوائے فرینڈ کے چکرمیں پھنستی جارہی ہیں ۔اسے جب تک چادراورچاردیواری میں رہنے کی سعادت حاصل تھی وہ شرمیلی تھی اوراب بھی جوچادروچاردیواری میں ہوگی وہ ان شا اللہ عزوجل باحیااورباپردہ ہی ہوگی۔
عورتیں اوربچیاں بے پردگی کاشکارہوتی جارہیں اس کاپہلاذمہ دارہروہ باپ ہے جواپنی بچیوں کواعلیٰ عصری تعلیم اورسرکاری نوکری کے نام بےپردگی کے ساتھ تعلیم دلاتے ہی
ں۔ اور وہ عورتیں بھی ہیں جواپنی دینی تعلیم کے بجائے دنیوی تعلیم کوترجیح دیتی ہیں۔تعلیم وتعلم اورجاب کے نام پر نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں ،مردوعورت کے آزادانہ میل جول کے بھیانک نتائج سوسائٹی میں دکھائی دے رہے ہیں۔قدیم زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کابے حجاب ،بے نقاب غیرمردوں اوراجنبیوں کے ساتھ خلط ملط رہنااگران جہالت کے ماروں کی تہذیب کاایک حصہ تھاتوآج بھی رقص وسروری محفلوں میں حیاسوز حرکتوں کی موجودگی یہ تعلیم کے نام پربے ہودگی کوفروغ دے رہی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے نام پر ماں باپ خودسے اپنی بچیوں کوگناہوں کے دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ہمیں غیروں سے کوئی شکوہ نہیں کیوں کہ ان کی جنت یہیں ہےوہ جوچاہیں کریں ان کے اندر شرم وحیانام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
لیکن افسوس ہوتاہے اور کبھی کبھی دل خون کے آنسو روتاہے ان مسلم ماں باپ پرجویہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی بچیوں کوعصری تعلیم کے لیے مکمل آزادی فراہم کرتے ہیں۔
عصری تعلیم دیناہی ہے توآپ ایسے ادارے کاانتخاب کریں کہ جہاں صرف اور صرف دوشیزائیں ہی رہاکرتی ہوں اور ان کوپڑھانے کے لیے معلمہ ہوں کسی بھی اجنبی مردکاسامنانہ ہوتاہو۔کچھ والدین کوتو اپنی بچیوں کودنیوی تعلیم دلانے کا خمار اس قدر چڑھ جاتاہے کہ وہ برملایہ بول دیتے ہیں میری مرضی میں جہاں چاہوں اپنی اولادکوپڑھاؤں کوئی اعتراض کیوں کرے گا؟
اور اسی آزاد خیالی نے ہماری بچیوں کواسلامی تعلیمات سے دور کردیاہے۔ماڈرن اور دیوث وبے غیرت باپ اپنی بچیوں کونوجوان لڑکوں کے ساتھ پڑھتے ،گھومنے اور رقص وسرورکرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر ذرہ برابربھی شرم وحیانہیں کرتے ۔
دینی تعلیمات کے لیے مساجد ومدارس کے علماے کرام چیخ چیخ کرکہتے ہیں لیکن اس پر کوئی دھیان نہیں دیتے۔خود سے صبح سویرے اپنی بالغہ لڑکیوں کو بائک پر سوارکرکے اسکول وکالج پہنچانے والے گارجین کوکبھی یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ دنیوی تعلیم سے کہیں زیادہ دینی تعلیم کی ضرورت ہے ۔دین سے دوری کانتیجہ ہے کہ آج لاکھوں کی تعدادمیں مسلم بچیاں دشمنِ اسلام کی منظم سازشوں کاشکارہوچکیں اور کفروارتداد کے تاریک غارمیں پہنچ گئی ہیں۔
دنیوی تعلیم کے بہانے کفارومشرکین اوریہودونصاریٰ مسلم دوشیزاؤں کے ایمان کوچھین رہے ہیں۔ہماری قوم کے لوگ اس قدر بے غیرت اور دیوث بن چکے ہیں کہ انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی ہے۔۱۴/فروری ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘کے نام پر ہر طرح کی برائیوں کوفروغ مل رہاہے۔ اس کی جانب اہل ِ علم ودانش متفکرنظر آرہے ہیں مگروہ لوگ کیاکرسکتے ہیں۔
درحقیقت عشق ومحبت کے نام پراس دن اس طرح کے گُل کھلائے جاتے ہیں کہ جوان لڑکیاں اسی کو اپنی زندگی کی معراج تصور کرنے لگتی ہیں۔انہیں اپنے بوائے فرینڈ کی باتوں پر اتنااعتمادہوتاہے کہ اس کے مقابل اپنے عزیزواقارب سب دشمن معلوم ہونے لگتے ہیں۔
مگر ان بے حیااور بے غیرت بچیوں اوران کے ماڈرن والدین کویہ معلوم نہیں کہ یہ توایساہی ہے کہ کوئی شخص شہد دکھاکرزہرپلارہاہو۔ظاہر سی بات ہے کہ اگرکوئی آدمی زہردکھاکرپلائے توکوئی بھی نہیں پیئے گاچاہے وہ کتنا ہی جگری دوست کیوں نہ ہو؟۔
اگر چہ محاورے کے طورپر بولاجاتاہے کہ ’’محبت میں زہربھی پلایاجائے تو پی لوں گا‘‘مگر جب عملی طور پر وقت آجائے توہر کوئی رفو چکرہوجائے گاکیوں کہ جان ہر کسی کوعزیزہواکرتی ہے۔لیکن اگر اطلاع کے بغیرشہد کے پیالہ میں زہرملادی جائے اور پھردیا جائے تولوگ شوق سے نوش کرلیں گے۔ یہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘درحقیقت ’’شہددکھائے اورزہرپلائے ‘‘کے مترادف ہی ہے۔(ویلنٹائن ڈے ،حیا اورپردہ) عاشقِ رسول حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے کیاخوب لکھا ہے:
سُوناجنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو ،چوروں کی رکھوالی ہے
شہددکھائے زہر پلائے ،قاتل ،ڈائن ،شوہرکش
اس مردار پہ کیا للچایا دنیادیکھی بھالی ہے
لہٰذا مغربی تہذیب وثقافت کواختیارکرنے اوراپنانے والوں سے ہمدردانہ گزارش ہے کہ اسلام کے سایۂ رحمت میں پناہ لیں اور اس کی تعلیمات کوجان کراس پر عمل کریں ۔ یقین جانیں کہ دنیاکا یہ واحد مذہب ہے جو عورتوں کی عزت وآبرو اور عصمت وعفت کی حفاظت کرتاہے۔اسلام نے پردے کورواج دے کر ان فتنوں کاقلع قمع کردیا۔
صنف نازک کو عزت وعظمت کاپاکیزہ اور بلند مقام عطاکیاہے۔اس لیے والدین اورجوان بھائیوں کوچاہیے کہ اپنی بچیوں اورعورتوں کوپردہ میں رکھے اورباپردہ ہی تعلیم دلائے ۔بے پردگی کے ساتھ تعلیم دلانے سے بہترہے کہ جاہل ہی رہیں اوراپنے ایمان پرقائم رہیں کیوں کہ پردہ وحیا ایمان کاحصہ ہے جسے شریعت نے فرض ولازم قراردیاہے توجوکامل مسلمان ہوگا وہ ضروراپنی عورتوں کوپردے میں رکھے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کوشریعت مطہرہ پراستقامت عطافرمائے۔
Stabrazalimi786@gmail.com
Pingback: شہد کا ایک قطرہ ⋆ رخشندہ بخآری