نکاح کو مسنون طریقہ پر آسان بنایا جائے

Spread the love

نکاح کو مسنون طریقہ پر آسان بنایا جائے   ………!!!  (قسط اول)

محمد عبدالحفیظ اسلا می

شادی جس کے عام معنی خوشی کے ہیں اس طرح جس گھر میں شادی، بیاہ ہوتی ہے اس گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں نظر آتی ہیں اور دولہا دلہن کے خاندانوں میں مسرتوں کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

لیکن جب انسان لالچ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر یہی شادی اخلاقی گراوٹ و معیشت کی بربادی کا پیغام لاتی ہے، جس کی وجہ سے خود انسان بڑے بڑے مسائل کا شکار ہوجاتا ہے، اب ذرا شادی بیاہ کا معاملہ لے لیجئے کہ نصف صدی قبل کس طرح آسان شادیاں ہوا کرتی تھیں لیکن آج کے شادیاں لوگوں کے لئے بالخصوص لڑکی کے والدین کے لیےمسائل و مشکلات کا پہاڑ ثابت ہورہی ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی لوگ سیدھی سادھی شادیاں کررہے ہیں، مشکلات سے خود بھی بچ رہے ہیں اور دوسروں کو بھی بچا رہے ہیں لیکن معاشرہ میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے یا پھر لاکھوں میں چند سو سے زیادہ نہیں ہے۔

لوگ اپنا ذہن صاف کرلیں کہ شادی ایک معاشرتی ضرورت ہے اور یہ کوئی سوداگری ہے اور نہ ہی پیسہ کمانے کا ذریعہ، یہ صرف ایک مرد اور عورت کے لئے مساوی طور پر شدید ضرورت کی چیز ہے اور یہ ہر انسان کے فطرت میں داخل ہے

ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت و مرد کے دائرہ کار میں فرق ہوسکتا ہے اور خدائے برتر نے ان دونوں کا مقام و مرتبہ مقرر فرمادیا ہے اور مرد کو ایک گنا برتری عطا فرمائی ہے کیوں کہ مرد محنت و مشقت کرکے روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے اور عورت گھر کی ملکہ بن کر اس کا نظم چلاتی ہے

اس طرح ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور مرد کو عورت پر فوقیت اس لیے دی گئی کہ وہ اپنا پیسہ خرچ کرکے (مہر ادا کرتے ہوئے) عورت کو اپنی زوجیت میں لیتا ہے اور زندگی بھر اس کے کھانے پینے، رہنے اور زیب تن کرنے کے لیےلباس کے علاوہ اس کی ساری ضروریات کا صرف وہی ذمہ دار ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ فی زمانہ شادیاں جو مشکل بنادی گئی ہیں اسے آسان اور سہل کس طرح بنایا جائے۔ اس سلسلہ میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی اس ہدایت کو عام کیا جانا چاہئے کہ ’’شادی کو آسان بنائو تاکہ زنا مشکل ہوجائے‘‘ آج کے زمانے میں شادیاں جو مشکل بنتی جارہی ہیں، اس کا سدباب عورتیں بحسن خوبی کرسکتی ہیں کیوں کہ اس سلسلہ میں جتنے بھی رسومات ہیں یہ ان ہی کے دم خم سے قائم ہیں، یہ ایک قدیم مثل ہے’’از ماست کہ برماست‘‘ یعنی ہم پر جو مصیبت آتی ہے وہ اپنے ہی ہاتھوں کی لائی ہوئی ہے، آج بن بیاہی لڑکیوں کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اس میں مرد بھی ذمہ دار ہیں۔

لیکن اس میں عورتوں کا رول نمایاں ہے۔ کسی لڑکی کو پسند کرنے سے لے کر شادی کی تاریخ تک اور پھر اس کے بعد پانچویں جمعگی تک قدم قدم پر جو مختلف عنوانات سے فضول و غیر ضروری رسمیں ادا کی جاتی ہیں اس کے خاتمہ کے لیے عورتیں بھی متحدہ طور پر کوششیں کریں گی تو اسے رفتہ رفتہ ختم کیا جاسکتا ہے۔

دوسری چیز یہ کہ لوگوں میں یہ احساس اجاگر کیا جائے کہ والدین جب اپنی لڑکی کو بیاہ کرکے دیتے ہیں تو یہ ان کی بڑی قربانی ہے کیوں کہ پیدائش سے لے کر جوانی تک والدین کو بہت ساری دشواریوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ آخرکار اپنے جگر کے گوشہ کو ایک اجنبی کے ہاتھ سونپ دینا یہ بڑے ایثار کی بات ہے جس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہی ہے۔

ان ساری محنت و مشقت سے پال پوس کر بڑا کرکے شادی کا مرحلہ آتا ہو۔ اس موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے کئے جانے والے مطالبے، والدین پر بجلی گرادیتے ہیں۔ ان ساری باتوں سے عورتیں کماحقہ واقف ہیں لیکن احساس کی کمی نے سارا معاملہ چوپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے خواتین کو یہ سمجھایا جائے کہ وہ عورتوں پر بالخصوص بن بیاہی لڑکیوں پر رحم کھائیں جب یہ رحم و کرم کی فضا عام ہوجائے تو ہر گھر میں ایک بہار آئے گی اور کسی لڑکی کے سر میں چاندی نظر نہیں آئے گی۔ شادی کی رسومات کے علاوہ طبع ذات لوازمات بھی بہت بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اس پر قابو پانا بھی بے حد ضروری ہے۔

اس سلسلہ میں متمول والدین اپنی لڑکیوں کی شادی میں سادگی اختیار کریں، عام طور پر عقد نکاح کے موقع پر لڑکی کے والدین کی جانب سے دیا جانے والا کھانا اور پورے لوازمات نے کم آمدنی اور جز معاش والدین کے لئے ایک بڑا چیالنج ہے، کیوں کہ پیسے والے لوگ اپنی لڑکی کی شادی میں کھانے پر لاکھوں روپئے خرچ کردیتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کے علاوہ بالخصوص لالچی قسم کے لڑکے والوں کے دل میں یہ بے جا خواہش زور پکڑتی ہے کہ ’’ہم بھی اپنے بیٹے یا بھائی کی شادی میں عقد کے موقع پر لوازمات سے بھرپور کھانے کا مطالبہ کریں گے‘‘۔

اس طرح جوڑے کی رقم جہیز و طلائی زیور کے علاوہ اچھا شادی خانہ اور ہمہ اقسام کے کھانوں کا مطالبہ لڑکی کے والدین کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے

اگر معاشرے کے مالدار لوگ شادیاں سادگی سے کریں تو عام لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں کیوں کہ کسی بھی معاشرے میں ’’بگاڑ‘‘ بڑے لوگوں سے شروع ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے عوام بھی اس دلدل میں اْتر جاتی ہے کیوں کہ عام آدمی مال داروں کی نقالی میں اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلاکر قلاش ہوجاتا ہے اور بعض تو اپنی جائیدادوں کو رہن رکھ دیتے ہیں یا پھر فروخت کردیتے ہیں۔

؎اور جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ بھاری سود پر رقم اٹھاکر زندگی بھر سود ادا کرتے ہیں اور سالوں اصل رقم ادا نہیں ہوتی۔ بعض اوقات سودی معاملت کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس سلسلہ میں اصل بات لوگوں کو سمجھانے کی یہ ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر لازمی جو چیز ہے اس پر عمل کیا جائے۔

مثلاً ایجاب و قبول، مہر کا مقرر کیا جانا، گواہوں کی موجودگی۔اس کے علاوہ شادی کے موقع پر جو کچھ زائد چیزیں شامل کرلی گئی ہیں یہ سب کے سب ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کے مصداق ہے۔ آج ہر طرف معیاری شادی کے بڑے چرچے ہیں اور ہر ایک معیار پر توجہ دے رہا ہے اور معیار کو ناپنے کے مختلف پیمانے ہیں۔

مثلاً کسی کی نگاہ ظاہری خوبصورتی پر ہے اور کوئی مالداری پر نظریں جمائے بیٹھا ہے اور کوئی ذات برادری کو ترجیح دیتا ہے اور بہت سے نادان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بیک وقت ان چاروں چیزوں کو فرد واحد میں تلاش کرتے ہیں اس ساری جستجو میں سب سے آخری چیز اگر دیکھی بھی جاتی ہے تو وہ یہ ہے کہ لوگ شریف ہیں یا نہیں قصہ مختصر یہ کہ مذکورہ آخری چیز خانہ پوری کی حد تک ہی محدود ہوتی ہے۔

ٹھیک اسی طرح لڑکے کی دریافتگی کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے، بعض گھرانوں میں خود لڑکی والے بھی اپنی لڑکی یا بہن کی شادی میں خوامخواہ مشکلات پیدا کرتے ہیں اور اپنے خود ساختہ معیار پر عمل کرتے ہوئے مختلف وجہ بتاکر رشتے مسترد کرتے ہیں، موجودہ زمانے میں رشتوں کا استرداد مندرجہ ذیل عذرات پر ہوتا ہے، مثلاً آمدنی یا تنخواہ کا خوب نہ ہونا، ذاتی مکان کا نہ ہونا، پرانے شہر میں رہائش کا ہونا، ضعیف والدین اور کچھ بن بیاہی بہنوں کا ہونا، اگر ان مذکورہ بالا چیزوں کو سرف نظر کیا جائے۔

دوسری اچھی چیزوں پر نظر رکھی جائے تو رشتہ نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی، مثلاً لڑکے میں عمدہ اخلاق کا پائے جانا، اپنے والدین کی خدمت، بہنوں کی ذمہ داری کا احساس، حلال کمائی، حرام سے اجتناب اور سب سے اونچی بات یہ کہ حقوق اللہ کا ہر وقت پاس و خیال حقوق العباد کی بھرپور ادائیگی غرضیکہ ان ساری باتوں کو سمیٹ دیا جائے تو ہم اسے دو لفظوں میں بیان کرسکتے ہیں۔ وہ ہے’’دین داری‘‘ اگر رشتوں کو طے کرتے وقت دین داری کو ترجیح دیں تو یہ کامیابی کی ضمانت ہے، جس سے معاشرے میں طلاق و خلع کے واقعات میں بڑی حد تک کمی واقع ہوکر رہے گی۔طعام ولیمہ ایک اہم چیز ہے اسے بھی سادہ بنانے کے لیے شعور کی بیداری نہایت ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ولیمہ کرنا سنت ہے اور ہر سنت کو سنت کے مطابق ادا کرنا خیر و برکت کا باعث ہے اور دونوں جہاں کی کامیابی اسی میں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق وہ نکاح (شادی ولیمہ) مبارک ہے (اللہ و رسول کی نگاہ میں محبوب ہے) جس میں خرچ کم ہو اور محنت بھی زیادہ نہ ہو۔

شادی ولیمہ کی محفلوں کو آسان بنانے اسراف سے بچنے کی بات کو عام کرنے کے لیے ہمارے خطیب صاحبان، واعظین اور مفتیان عظام، علماے کرام و مشائخین کرام ، انفرادی و اجتماعی سطح پر بھرپور کوششیں کریں اور اسے ایک تحریک کی شکل دیں کیوں کہ عوام اب بھی متذکرہ بالا شخضیتوں کی بات کو غور سے سنتے اور وزن دیتے ہیں لیکن یہاں پر ہدایت کے سرچشمہ قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے کہ ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو وہ بات تم کہتے کیوں ہو جو تم کرتے نہیں‘‘۔

کیوں کہ اگر خدانخواستہ قول و فعل میں یکسانیت نہ ہو تو رشد و ہدایت کی ساری کوششیں ہوا میں تحلیل ہوجاتی
ہیں اور اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ لوگ اپنے بزرگوں اور بڑوں سے اچھی چیزیں سیکھتے ہیں اور بْری باتوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر میں چند گذارشات پیش کرنا چاہوں گا جو شادی کو آسان بنانے کے ضمن میں مفید اور کارآمد ثابت ہونگی۔

(۱) شادی بیاہ کے بے جا رسومات کے منفی پہلوئوں کو معاشرے کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے۔

(۲) طعام ولیمہ کو سادگی سے کرنے کی وعظ بیان کے موقع پر تلقین کی جائے اور سادگی سے انجام پانے والے تقاریب کی ہمت افزائی کی جائے اور ایسے مبارک محفلوں کا ہر جگہ خوب چرچا کیا جائے، اور روزناموں میں نیوز کے ذریعہ اس کی اچھی تشہیر بھی ہو۔

(۳) لڑکی والے ان رشتوں کو مسترد کردیں جن میں بے جا مطالبات رکھے جاتے ہیں۔ یہ کام بڑا صبر آزما ہے اور خدا پر توکل کے بغیر ناممکن ہے، اگر متحدہ طور پر لڑکی والے لالچی قسم کے لوگوں کا بائیکاٹ کریں تو بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور شادیاں بھی آسانی کے ساتھ ہونے لگ جائیں گی۔

(۴) شادی کو آسان بنانے میں مالداروں کی یہ حکمت عملی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی یا اپنے بیٹے کا ولیمہ، ان دونوں مواقع پر سادگی کا مظاہرہ کیا کریں اور اپنے مالدار ہونے کا اظہار اپنے عمل سے اس طرح کریں کہ مال عطا کرنے والے مالک کے محتاج و بے کس بندوں کی دستگیری کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کریں ورنہ تقاریب میں مال و دولت کو لٹادینا معاشرے کے لئے مہلک بیماری کا باعث ہے۔

(۵) رشد و ہدایت کے منصب پر فائز لوگ، سیاسی رہنمائی و رہبری کرنے والے قائدین، عوام کو حالات سے باخبر رکھنے والے مدیران و دانش وران ان سب کی متحدہ پالیسی یہ ہونی چاہئے کہ جہاں بھی شادی ولیمہ کی تقاریب میں دولت کا اسراف و زیاں ہورہا ہے اس کا بائیکاٹ کیا جائے اس طرح ان مسرفین کی حوصلہ شکنی کی جائے تو معاشرہ میں ایک صالح تبدیلی کی اْمید کی جاسکتی ہے۔

محمد عبدالحفیظ اسلا می

سنیئر کالم نگارو آزاد صحافی۔

فون نمبر:9849099228

mahafeez.islami@gmail.com

جاری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *