یاد ماضی عذاب ہے یارب
نیاز احمد سجاد ✍️
گزرا ہوا زمانہ کبھی واپس نہیں آتا لیکن زمانہ اپنے دامن میں کچھ ایسی یادیں اور انمٹ نقوش ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ جو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ سال دو ہزار چوبیس بھی انہیں چند سالوں میں سے ایک ہے ۔
جس نے ایک سال کی قلیل مدت میں بہت سے نشیب وفراز دیکھے ، کہیں خوشیوں اور مسرتوں کے بادل امنڈتے نطر آئے تو کہیں ظلم و جبر کی ایسی داستانیں دیکھنے کو ملیں ۔ جی سے روح کانپ اٹھتی ہے ۔
بدن میں لرزا اور جسم بے جان سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ تو کہیں انسانیت کے مسیحا کے ہاتھوں انسانیت سوز مظالم کے انبار دل میں قلق پیدا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ایک چھوٹی سی مہاجر حکومت کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بے بس و بے سہاروں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔
تو دوسری جانب افغانستان کی پہاڑیوں سے لے کر وادی بنغال تک انقلاب اور آزادی کے نعروں سے فضا معطر دکھنے لگ جاتی ہے۔ تو کہیں انصاف کا گلا گھونٹ کر تخت کو تاراج اور قائد کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ ظلم پھر بھی ظلم ہوتا ہے جب حد سے تجاوز کرتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔ مال و دولت ، اقتدار و طاقت کی کرسی نیست ونابود ہوجاتی ہے۔ دہائیوں کے عیش و عشرت کو خیرباد کہ کر مہاجر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
2024 کا سال اپنے ملک ہندوستان کے لیے بھی بہت نشیب وفراز کا سال رہا ۔ عدلیہ سے لے کر انتخابات تک ، سیاست سے لے کر حکومت تک ، مذہبی نفرت انگیزی سے لے کر قومی یکجہتی تک ۔ اتھل پتھل کا سال رہا ۔ ہندوستانی عدلیہ کا وقار کچھ ججوں کی وجہ سے جو مجروح ہوا خواہ وہ ای وی ایم سے متعلق ہوں ، یا قانون تحفظ عبادت گاہ ایکٹ 1991 پر سابق چیف جسٹس کا تبصروں ہو ۔
چاہے کلکتہ ہائی کورٹ کے سابق جج کا حزب اختلاف بی جے پی سے قرابت داری کا معاملہ ہو یا سابق چیف جسٹس چندر چوڑ کا بابری مسجد قضیہ کے تعلق سے نئے انکشاف کا معاملہ ہو اور حالیہ دنوں میں الہ آباد کے جسٹس شیکھر کمار یادو کا معاملہ ہو ۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے بھی فیصلے صادر ہوئے جو ملک و ملت کے لیے بہت اچھے اور لائق تحسین ہیں ۔ کیشونند بھارتی کا مقدمہ ، گولکناتھ معاملہ کا فیصلہ
الیکٹورل بانڈ کے تعلق سے عدالت کا فیصلہ ، بلڈوزر کی سیاست پر عدلیہ کا قدغن ، آسام کے سیٹیزن شپ ایکٹ 1995 کے سیکشن 6/اے کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ کی مہر ثبت ، قابل احترام ہیں اور اس سے جمہور کا عدلیہ پر اعتماد بڑھا ۔
دوران سال ملک میں جس طرح کے نشیب وفراز دیکھنے کو ملے ۔آزاد ہندوستان میں اس کی نظیر بمشکل ہی ملتی ہے۔ سیاسی اعتبار سے بھی یہ سال سیاسی کشمکش کا سال رہا جہاں بابری مسجد کا افتتاح عمل میں آیا تو دوسری جانب ہریانہ میں وزارت اعلی کی کرسی تبدیل ہوئی اور بی جے پی کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی۔
تو نیتیش کمار بھی اپنی کرسی بچانے کے فراق میں پلٹنے کا ریکارڈ بنایا ۔ کیجریوال کی گرفتاری اور جیل سے حکومت کرنے کا آزاد ہندوستان میں نیا ریکارڈ بنا ۔ ہیمنت سورین کا جیل جانے سے لے کر استعفی اور پھر انتخاب میں جیت کر دوبارہ وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کا واقعہ بھی اپنے آپ میں کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔
دوران سال لوک سبھا کا الیکشن اور حکمراں جماعت کا گرتا گراف ۔ جس سے اپوزیشن میں خوشی کی لہر دیکھنے کو ملی مگر حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ اور بی جے پی نے نتیش کمار اور نائیڈو کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تو دوسری جانب سال 2024 میں ہم سب کو خموشاں کر دینے والی ہستیاں بھی دار فانی کو خیر باد کہ گئیں۔ شاعر انقلاب منور رانا، ملک کے صنعتی گھرانے کے چشم و چراغِ رتن ٹاٹا ، ریڈیو پہ آواز کے جادو گر امین سیانی ، سنہری آواز کے بادشاہ پنکج اداس ، عظیم سیاست داں عزیز قریشی اور شفیق الرحمٰن برق ، مختار انصاری ، بابا صدیقی وغیرہم کے علاوہ آزاد ہندوستان کے سچے سپہ سالار ، ماہر معاشیات ،عالی دماغ کا علمبردار ، انسانیت دوست نظریات کا حامل ایک تاریخ ساز نام نامی اسم گرامی ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی داغ مفارقت دے گئے ۔
سال 2024 جہاں ملک متعدد نشیب وفراز کا شکار رہا وہیں حالیہ دنوں میں وزیر اعظم کا کویت کا دورہ اور وہاں کے اعلی ترین شہری اعزاز “دی آرڈر آف مبارک الکبیر ” سے نوازا جانا اور ملک میں درپیش آپسی رسہ کشی اور نفرت کے بازار کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں موہن بھاگوت کا بیان اور سپریم کورٹ کے جسٹس پرشانت کمار مشرا کا بیان کہ نفرت و تقسیم کی سیاست ملک کو کمزور کرنے اور قومی یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ معاشی عدم مساوات اور سماجی شناخت کا غلط استعمال سے ملک اور سماج کمزور ہوتا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تمام نکتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اگلے سال ملک کی کیا رفتار ہوتی ہے اور جمہوریت کی جڑیں کتنی مضبوط ہوتی ہیں ۔ قانون کی بالادستی اور پاسداری میں ملک کتنا مستحکم
اور طاقتور ہوتا ہے۔ خدا کرے کہ “بسودھیو کٹمبھکم – ” كا نعره شرمنده تعبيرهو اور ملک ایک بار پھر سونے کی چڑیا کہلانے کے حقدار بنے ۔ ویسے 2024 ملک کے معاشی اور مالیاتی استحکام کے لئے نمایاں کامیابی کا حامل رہا مگر اس میں چنداں اصلاحات اور بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا