خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

Spread the love

تحریر: افتخار احمد قادری خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
ہندوستان کی مایہ ناز شخصیت جسے دنیائے سنیت حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے نام سے جانتی پہچانتی اور مانتی ہے،ایسے محسن کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہےرہتی دنیا تک ان کا اسم گرامی خاندان گیتی پر روشن وتاب ناک رہے گا

کیوں کہ سرکار غریب نواز کی ذات ایسی ذات ہے کہ جس کے عرفان و آگہی کی داستانیں چمن چمن میں پہنچ گئی ہیں-موج قرطاس سے گزر کر ان کے فیوض وبرکات کا چراغ کشوردل کے شبستانوں میں جل رہا ہے

یہی وہ عظیم الشان شخصیت ہے کہ جسکے شام وسحر اور شب وروز کا ایک ایک لمحہ دینی ومذہبی مہمات میں اس درجہ مصروف تھا کہ خیال غیر کی کوئی باریابی نہیں ہو تی۔ حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خون جگر کی سرخی سے ویرانوں میں دین کے گلشن لہلہا اٹھے۔

عشق وایمان کی روح ان کے وجود کے رگ رگ میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ اپنے محبوب پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے جمال کے لئے ہر وقت بے چین وبے قرار رہتے اور جب دیدار مصطفیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے آنکھیں سیراب ہوئیں تو چہرے سے تابانی چھلکتی تھی

ایسا کیوں نہ ہوتا آخر وہ ایک خاندان رسول ہی کے تو ایک فرد تھے، جن کی ایک نگاہ آن واحد میں زندگی تبدیل کر کے رکھ دیتی-تاریخ ہند کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب ہندوستان کفرستان بنا ہوا تھا معبود برحق کی عبادت وبندگی کرنے کے بجائے خود تراشیدہ پتھروں، بےجان مورتیوں کو اپنا پالنہار وخالق مان کر اس کی پرستش کر رہے تھے

ہندوستان کے اخلاق و اطوار بگڑ چکے تھے، ظلم وستم کا بازار گرم ہو چکا تھا، وحشت وبربریت پھیلتی جارہی تھی، لوٹ گھسوٹ چوری عیاشی اور شراب نوشی میں لوگ منہمک تھے حقوق العباد غصب کرنا عام طور پر ضروری بن چکا تھا جگہ جگہ انتشار تھا جگہ جگہ بے چینی وبے قراری تھی گویا ہندوستان کی تہذیب اپنی شمع گل کر چکی تھی

ایسے وقت میں آپ کے قدوم میمنت لزوم کی برکت سے یہ ہندوستان جو کفرستان بنا ہوا تھا تکبیر ورسالت کی دلنواز صداءوں اور ملکوتی ترانوں سے گونج اٹھا-اس قدسی صفت بزرگ کی چھوٹی سی مجلس رشدوہدایت اور نور ایمان بن گئی

کفروشرک کے دلدل میں پھنسے ہوئے لاکھوں باشندگان ہند اسلام کے اس چشمہ شیریں کی جانب دوڈنے لگے اور کفر کے مجسمے جام ہدایت پی پی کر اسلام میں سرشار ہونے لگے

سلطان الہند حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کو پورے عالمِ اسلام کے مسلمان انتہائی عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں-ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ اور اسلام کے آفاقی پیغام کی ترویج و اشاعت کے تعلق سے آپ کو تقدیم و اولیت حاصل ہے

اس کفرستان ہند میں اسلام کا چراغ اگر چہ آپ سے جل چکا تھا اور اسلامی مبلغین ومصلحین آچکے تھے لیکن اسلام کو قبولیت عام نہ مل سکی تھی، آپ کی تبلیغ نے ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا، اور لوگ بہت تیزی کے ساتھ اسلام کے دامن میں پناہ لینے لگے

اسلام کی دلکش بہاریں آپ کی دعوت وتبلیغ اور رشدوہدایت کا نتیجہ ہیں کیونکہ آپ کے گلشن ہدایت کی جو ہوا چلی تو بساط ہند میں نور اسلام سے چراغاں ہی چراغاں ہو گیا، یہی وجہ ہے کہ ہر شخص آپ کا قدردان ہے-

بدعقیدگی کا سیلاب بھی آپ کی عظمت و رفعت کو متاثر نہ کر سکا اور انشاء اللہ صبح قیامت تک متاثر نہ کر سکے گا-آپ کے عقیدت مند آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے رہیں گے اور بدعقیدگی کے چہرے پر لعنت و ملامت کے تیر برساتے رہیں گے

سرکار غریب نواز کی نگاہ ولایت سے دل بھی بدلے آپ کے خلفاء ومتوسلین خاک ہند کے جس خطے پر پہنچے تو اسلام کا بول بالا ہوتا اور نور ہدایت پھیلتا اور کفر کا اندھیرا چھنٹتا چلا گیا

تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ آپ نے اجمیر شریف میں گوشہ نشینی اختیار کی-اسلام کا چراغ خوب جلایا،ہندوستان کے ہر دور کے خوش عقیدہ مسلمان اس مقدس دربار گہربار میں حاضر ہوتے رہے ہیں-اور انکے وسیلے سے دل کی مرادیں پاتے رہے

اس بارگاہ اقدس میں سلاطین ہند بھی پاپیادہ حاضر ہوتے رہے ہیں اور مشاءخین طریقت بھی گردنیں خم کر رہے ہیں اساطین علم و دانش بھی با ادب آتے رہے ہیں اور کج کلاہان زمانہ بھی خمیدہ نظر آتے رہے ہیں کیونکہ آپ کی نگاہ جس پر پڑھتی دل کی دنیا بدل جاتی

آپ کی بارگاہ میں جو بھی آتا فیض یاب ہو ہی جاتا، رہزن آتا رہبر بن جاتا، قاتل آتا محافظ بن جاتا، شقی آتا سعید بن جاتا، نا اہل آتا اہل بن جاتا، سرکش آتا غلام بن جاتا کافر آتا مسلمان ہو جاتا فاسق آتا متقی بن جاتا، دشمن آتا حاشیہ بردار بن جاتا، جادوگر آتا تاءب ہو کر عامل قرآن بن جاتا

خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے کسی نے سوال کیا کہ جو مقبولیت سلطان ہند کو حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں جو ان کے مزار پرانوار پر جاتا ہے ان پر فریفتہ اور دیوانہ ہو جاتا ہے-اس کی وجہ کیا ہے؟۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قدرے توقف کے بعد فرمایا کہ ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کی عظمت کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے

کہ سرکار کے عرس کا موقع ہے لاکھوں وابستگان خواجہ دور دراز سے سفر طے کر کے آتے ہیں آنے والوں کا جم غفیر ہے ہما ہمی کا عالم ہے اجمیر کی مقدس گلیوں کوچوں میں دھوم دھام ہے سب کے چہروں پر مسرت وشادنانی کے آثار نمایاں ہیں آخر یہ سب کیوں ہے

صرف اس لیے کہ خدا کے برگزیدہ بندے اور مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس شاہزادے کا عرس ہے، مولی تعالیٰ سے دعا ہے ہم تمام سنی مسلمانوں پر سرکار غریب نواز کے فیضان کی موسلادھار بارش نازل فرمائےآمین ۔

خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے مختصر حالات

آپ کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں- ظاہری و باطنی فضائل و کمالات کی جامع پاکیزہ برگزیدہ ہستی تھی-آپ شریعت و طریقت معرفت و حقیقت اور رشدوہدایت کے بحر بیکراں تھے- ایسی عارف و کمال ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں

آپ روحانی کمالات و تصرفات فیوض و برکات کے سبب اولیاء ہند کے پیشوا اور مقتدائے اعظم ہیں- آپ کے قدوم میمنت لزوم کی نسبت و برکت سے ہندوستان کی تاریک فضا اسلام و ایمان کے نور سے منور ہو گئی ۔

اس عظیم ہندوستان میں اجمیر ہی وہ مقدس شہر ہے جس کو خواجہ خواجگان سرکار خواجہ غریب نواز قدس سرہ نے اسلام و ایمان کی تبلیغ واشاعت کے لئے مرکز رشد و ہدایت اور روحانی راجدھانی قرار دیا

اور اسی مبارک شہر سے بغیر کسی مادی دباؤ یا مالی ترغیب و تحریص کے اسلام کی حقانیت و صداقت ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں اشاعت پذیر ہوئی نیز یہی وہ محبوب شہر ہے جہاں روحانیت و عرفانیت کا وہ ابدی چشمہ پھوٹا جس نے ہندوستان کی سرزمین کو حقیقت و طریقت کے گلہائے رنگا رنگ سے رشک چمن بنا دیا-آپ کا نام نامی اسم گرامی: معین الدین حسن ہے

والد ماجد کا نام حضرتِ خواجہ غیاث الدین محمد ہے آپ نجیب الطرفین سید ہیں- آپ کے جد اعلیٰ بنی عباس کے مظالم سے تنگ آکر اپنے وطن اصفہان سے ہجرت فرما کر سنجر نامی قصبہ میں اقامت پذیر ہو گیے سنجر ایک مردم خیز قصبہ ہے جو ایران و خراسان کے کنارے تہران سے ڈیڑھ سو میل دوری پر واقع ہے

اسی مبارک قصبہ میں بتاریخ 14/رجب المرجب 535/ہجری بروز دو شنبہ حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت ہوئی-ابھی آپ سات برس کے تھے کہ تاتاریوں نے آپ کے وطن پر حملہ کردیا آپ کے والد بزرگوار مع اہل و عیال عراق منتقل ہو گئے اور وہیں بغداد شریف میں آپ کا وصال ہوگیا

اس کے بعد دیگر اہل خانہ کے ساتھ آپ خراسان جاکر اقامت گزیں ہوگئے سرکار خواجہ غریب نواز کا بچپن اور زیادہ وقت خراسان میں گزرا ابھی چودہ سال ہی کے تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا کچھ عرصہ کے بعد والدہ ماجدہ بھی وصال کر گئیں ترکہ پدری میں ایک باغ اور پن چکی ملی قصبہ سنجر کی طرح تاتاریوں کے ہاتھ قتل و غارتگری ظلم و بربریت خراسان میں بھی نازل ہوگئی

حضرتِ خواجہ غریب نواز کے حساس قلب و ضمیر نے بہت زیادہ رنج و ملال محسوس کیا دنیا سے دل اُچاٹ کھا گیا آپ کے مبارک قلب میں عرفان و روحانیت کا احساس پیدا ہوا ہی تھا- کہ بحکم رب ایک مجذوب صادق حضرتِ ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ آپ کے باغ میں آگئے آپ نے تازہ انگور کے خوشوں سے تواضع کی فقیر نے عادتاً کچھ کھا لیا

آپ کی تواضع سے خوش ہو کر اپنی جھولی سے روٹی یا کھل کے سوکھے ٹکڑے نکال کر چبائے اور لقمہ بناکر فرمایا کہ کھا لو آپ نے بلا تامل کھالیا جس سے آپ پر غیر معمولی تجلیات و کیفیات کا ظہور ہوا آپ کے روحانی قوی ایک دم شگفتہ ہو گیے اور غلبہ وعشق الہی سے متاثر ہو کر تلاش حق میں نکل پڑے سب سے  پہلے سن شعور کو پہونچ کر باقاعدہ علوم اسلامیہ دینیہ کی تحصیل و تکمیل کے لیے آپ بلخ سمر قند تشریف لے گیے

مختلف علما و محدثین کے زیر درس رہ کر دوسال کی مدت میں قرآن مجید تفسیر حدیث فقہ معارف اسرار وغیرہم علوم حقیقیہ و فنونِ حکمیہ میں آپ نے پوری مہارت و سبقت حاصل کرلی اور اپنے معاصر علما و فضلا سے ممتاز ہوگیے

علوم متداولہ سے فارغ ہو کر بہت سے اولیاء اللہ سے افاضہ و استفادہ کرتے رہے مکمل روحانی تعلیم و تربیت کے لیے آپ سیدنا خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت اقدس میں بغداد شریف حاضر ہوکر مرید ہوئے اور اپنے شیخ کی مراد ہوگئے۔

۔ 20/سال تک اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر علوم روحانی و فیوض باطنی میں درجہ کمال حاصل کیا- حضرتِ خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو 562/عیسوی میں شرف خلافت و اجازت سے سرفراز فرما کر اپنے تبرکات عصا، خرقہ، تسبیح، مصلی، نعلین عطا فرمائے اور اسم اعظم کی خصوصی تعلیم دے کر رخصت کیا

بخارہ سے سیر و سیاحت و سفر حج کے بعد 588/عیسوی میں آپ نے سرزمین ہندوستان کو قدم بوسی کا شرف عطا فرمایا- بروایت مختلف 589/عیسوی میں دارالخیرات اجمیر شریف تشریف لائے اور تقریباً 45/سال تک قیام فرمایا

اسی عرصے میں آپ نے اپنی روحانیت خرق عادات اخلاق حسنہ صوفیانہ طریقہ تبلیغ سے تقریباً 90/ لاکھ افراد کو مشرف باسلام فرماکر ہزارہا بندگانِ خدا کو خدائے پاک کا قرب عطا فرما دیا

کراماتِ خواجہ غریب غریب

حضرتِ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تک میں خواجہ غریب نواز کی خدمتِ اقدس میں تھا کبھی آپ کو ناراض ہوتے نہیں دیکھا-

البتہ ایک روز خواجہ غریب نواز کے ہمراہ میں اور ایک دوسرا خادم شیخ علی نامی باہر جارہے تھے کہ اچانک راستےمیں ایک شخص نے شیخ علی کا دامن پکڑ کر سخت و سست کہنا شروع کیا حضرتِ پیر و مرشد نے اس شخص سے جھگڑے کی وجہ دریافت کی اس نے جواب دیا کہ یہ میرا قرض دار ہے

اور میرا قرض ادا نہیں کرتا آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو تمہارا قرض ادا کردے گا- لیکن وہ شخص نہیں مانا اس پر حضرت پیر و مرشد کو غصہ آگیا- اور فورن اپنی چادر مبارک اتار کر زمین پر ڈال دی اور فرمایا جس قدر تیرا قرضہ ہے اس چادر لے لے

مگر خبردار! زیادہ لینے کی کوشش نہ کرنا- اس شخص نے اپنے قرضے سے زیادہ لے لیا اسی وقت اس کا ہاتھ خشک ہوگیا اور نہایت ادب سے معافی کا خواستگار ہوا آپ نے کمال مہربانی سے معاف کردیا اس کا ہاتھ فورن درست ہوگیا اور حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا

ایک مرتبہ جب کہ آپ اپنے مریدوں کے ساتھ سیاحت فرما رہے تھے آپ کا گذر ایک جنگل سے ہوا وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستس میں مشغول تھا اس گروہ کی ریاضت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ چھ چھ ماہ تک بغیر آب و دانہ رہ جاتے تھے اکثر لوگ ان کی ریاضت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان سے اظہارِ عقیدت کرنے لگے اور ان کی اس کیفیت سے ایک خلقت گمراہ ہوتی جاتی تھی

خواجہ غریب نواز نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو ان سے استفسار فرمایا- اے گمراہوں خدا کو چھوڑ کر آگ کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا آگ کو ہم اس لئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں دوزخ میں تکلیف نہ پہونچائے

آپ نے فرمایا یہ طریقہ دوزخ سے نجات کا نہیں ہے- جب تک خدا کی پرستش نہ کرو گے کبھی آگ سے نجات نہ پاؤ گے تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پرستش کر رہے ہو ذرا اس کو ہاتھ میں لے کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ آتش پرستی کا صلہ کیا ہے

انہوں نے جواب دیا کہ بیشک یہ ہم کو جلا دے گی کیونکہ آگ کا کام ہی جلا دینے کا ہے- مگر ہم کو یقین کیسے ہو کہ خدا پرستوں کو آگ نہ جلا سکے گی اگر آپ آگ کو ہاتھ میں اٹھا لیں تو ہمیں اطمینان ہو جائے

آپ نے جوش میں آکر فرمایا مجھ کو تو کیا خدا کے بندے معین الدین کی جوتیوں کو بھی آگ نہیں جلا سکتی آپ نے اسی وقت اپنی نعلین مبارک اس آگ کے الآو میں ڈالتے ہوئے آگ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا- اے آگ اگر یہ جوتی خدا کے کسی مقبول بندے کی ہیں تو اس کو ذرا بھی آنچ نہ آئے

جوتی کا آگ میں پہنچنا تھا کہ فورن آگ سرد ہوگئ اور جوتی صحیح و سلامت نکل آئیں- اس کرامت کو دیکھ کر آتش پرستوں نے کلمہ پڑھ لیا- اور دل سے اسلام قبول کر کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گیے ۔

ایک روز ایک عورت کی پردرد فریاد سے آپ کے جذبات رحم و ہمدردی میں ہیجان پیدا ہوا کہ آپ فوراً عصائے مبارک ہاتھ میں لے کر اٹھے اور بڑھیا کے ساتھ روانہ ہوگیے بہت سے خدام اور حاضرین بھی آپ کے ہمراہ ہوئے جب آپ لڑکے کی بے جان لاش کے پاس پہنچے تو بہت دیر تک خاموش کھڑے اس کی طرف دیکھتے رہے پھر آگے بڑھے اور اس کے جسم پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اے مقتول اگر تو بے گناہ مارا گیا ہے

تو اللّٰہ کے حکم سے زندہ ہوجا ابھی آپ کی زبان فیض ترجمان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ مقتول زندہ ہوگیا آپ نے اس وقت فرمایا بندہ کو اللّٰہ تعالیٰ سے اس قدر نسبت پیدا کرنی چاہئے کہ جو کچھ خدا کی بارگاہ میں حاضر کرے قبول ہو جائے

وصال خواجہ غریب نواز:٦٣٣/ ہجری شروع ہوتے ہی خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰہ علیہ کو علم ہو گیا کہ یہ آخری سال ہے

چناں چہ آپ نے اپنے مریدوں کو ضروری ہدایتیں اور وصیتیں فرمائیں جن لوگوں کو خلافت دینی تھی ان کو خلافت سے سرفراز فرمایا اور ساتھ ہی حضرتِ خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اجمیر بلا بھیجا

حضور خواجہ غریب نواز ایک روز اجمیر کی جامع مسجد میں تشریف فرما تھے مقربین اور احبابِ خاص حاضر خدمت تھے- آپ ملک الموت سے باتیں کر رہے تھے کہ معا شیخ علی سنجری سے مخاطب ہوئے اور ان سے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خلافت کا فرمان لکھوایا قطب صاحب حاضر خدمت تھے

حضور خواجہ غریب نواز نے اپنی کلاہ مبارک قطب صاحب کے سر پر رکھی اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھا خرقہ اقدس پہنایا عصا مبارک ہاتھ میں دیا مصلی کلام پاک اور نعلین مبارک مرحمت فرما کر ارشاد فرمایا

یہ نعمتیں میرے بزرگوں سے سلسلہ بہ سلسلہ فقیر تک پہنچی ہیں اب میرا آخری وقت آپہونچا ہے یہ امانتیں تمہارے سپرد کرتا ہوں- حق امانت حتیٰ الامکان ادا کرنا تاکہ قیامت کے دن مجھے اپنے بزرگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے

پھر اور کئ نصیحتیں فرمائیں اور آپ کو رخصت کر دیا- وصال سے چند روز قبل آپ نے اپنے بڑے صاحب زادے حضرت خواجہ سید فخر الدین کو نصیحت فرمائی

دنیا کی تمام چیزیں مٹنے والی ہیں اور فنا ہونے والی ہیں ہر دم خدا کی خوشنودی طلب کرتے رہنا اور کسی چیز پر بھروسہ نہ رکھنا

تکلیف و مصیبت کے وقت صبر و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا- ٦٣٣/ہجری میں،٥ اور/٦ رجب کی درمیانی شب کو حسب معمول عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرے میں داخل ہوئے اور اندر سے دروازہ بند کر کے یاد خدا میں مشغول ہو گئے رات بھر درود اور ذکر کی آواز آتی رہی- صبح ہونے سے پہلے ہی یہ آواز بند ہو گئی

جب دروازہ نہیں کھلا تو خدام نے دستکیں دیں اس پر بھی کوئی جواب نہیں ملا تو پریشانی بڑھ گئی آخر مجبوراً دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ آپ واصل بحق ہو چکے ہیں اور آپ کی نورانی پیشانی پر سبز اور روشن حروف میں لکھا ہوا ہے،،۔ هذا حبيب الله مات فى حب الله،،۔

یعنی اللّٰہ کے حبیب تھے اللّٰہ کی محبت میں وفات پائی-خواجہ غریب نواز کے انتقال پر ملال کی خبر فوراً شہر کے گلی کوچوں اور مضافات میں پھیل گئی لوگ محبت کے آنسوں بہاتے ہوئے اپنے محبوب کے جنازے پر ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوگیے

آپ کے بڑے صاحب زادے خواجہ سید فخر الدین رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی جس حجرے میں آپ نے انتقال فرمایا تھا- اسی حجرے میں آپ کو دفن کیا گیا تب ہی سے آپ کا آستانہ مبارک تمام ہندوستان کا روحانی مرکز بنا ہوا ہے اور اں شاء اللّٰہ تعالیٰ قیامت تک بنا رہے گا

آپ کا عرس مبارک ہر سال 6/ رجب المرجب کو بڑے اہتمام و انصرام کے ساتھ ہوتا ہے

ارشادات خواجہ غریب نواز

.جس نے حرص و ہوا کو ترک کیا اس نے مقصود حاصل کیا-.جس نے اپنی خواہشات کو روکا اس کا ٹھکانہ جنت ہے
جو تصوف کی ماہیت سے واقف ہونا چاہے وہ خواہشات کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لے۔
عارف آفتاب صفت ہوتے ہیں ان سے عالم منور ہوتا ہے
راہ محبت میں عاشق وہ ہے جو دونوں جہاں سے دل اٹھا لے
گناہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا مسلمان بھائی کو ذلیل و خوار کرنا

کافر سو برس تک لا الہ الااللہ کہنے سے مسلمان نہیں ہوتا لیکن ایک مرتبہ محمد رسول اللّٰہ کہنے سے صد سالہ کفر دور ہو جاتا ہے

.عارف وہ ہے جو راہ عشق میں کسی کو نہ دیکھے

تحریر: افتخار احمد قادری

کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش

ان مضامین  کو بھی پڑھیں

 ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

 افسوس کہ شرم ان کو مگر نہیں آتی

 جدید اُردو نثر نگاری کا بانی کون ؟

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 

 

8 thoughts on “خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *