یکساں سول کوڈ اور دانش وروں کا مشورہ
یکساں سول کوڈ اور دانش وروں کا مشورہ !!
تحریر:جاوید اختر بھارتی
ہندوستان میں برابر یکساں سول کوڈ کا جن بوتل سے باہر آتا رہتا ہے کچھ دنوں تک سیر و تفریح کرتا ہے، بحث و مباحثہ کا بازار گرم کرتا ہے، کچھ لوگوں کی پیشانی پر لکیریں ابھارتا ہے
کچھ لوگوں سے بیان بازی کراتا ہے، کچھ لوگوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی پیدا کراتا ہے، کچھ میٹنگیں اور پروگرام کراتا ہے اور پھر بوتل کے اندر چلا جاتاہے
یہ سلسلہ بہت دنوں سے چل رہا ہے اور آجکل پھر یہ بوتل سے باہر آکر سیر و تفریح کرہا ہے، لوگوں سے بیان بازیاں کرا رہا ہے
جب کہ بہت پہلے آنجہانی ہیم وتی نندن بہوگنا نے کہا تھا کہ ہندوستان صوفی سنتوں کی آماجگاہ ہے
کل مذاہب اور کل برادری کا سنگم ہے اور ملک کے آئین نے سب کو اپنے اپنے طریقے پر مذہبی،سیاسی، سماجی زندگی گزارنے کا اختیار دیا ہے کسی پر زبردستی کوئی چیز تھوپی نہیں جاسکتی
بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ملک میں ایک زبان، ایک تہذیب تھوپنے کی زبردستی کوشش کی گئی تو ملک کو ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے،،۔
یہ بھی بہت حد تک واضح ہے کہ جب بھی یکساں سول کوڈ کا مسلہ اٹھتا ہے تو سیدھے مسلمانوں کی طرف اس کا رخ کردیا جاتا ہے بلکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کی چڑھ بنادی گئی ہے
جب کہ مسلمانوں کو بھی اس سے چڑھنا اور بہت زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام مذاہب سے ہے۔
اس معاملے میں جہاں بہت سے لوگ ٹی وی چینلوں پر ڈیبیٹ میں حصہ لیتے ہیں مگر اپنا واضح نظریہ پیش نہیں کرپاتے جس سے چینل والوں کو بھی مرچ مسالہ مل جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کو بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
کچھ اخباروں میں بیانات دیتے ہیں تو ان کا نظریہ بھی واضح نہیں ہو تا کہ آخر وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اور کیا مشورہ دینا چاہتے ہیں حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس چیز کی معلومات نہ رہے تو اسے چھیڑنا ہی نہیں چاہیے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ لوگوں کو اخباروں کی سرخیوں میں بنے رہنے کا شوق ہوتا ہے تو کچھ لوگوں کو ٹی وی کی دنیا میں پہنچ کر سستی شہرت حاصل کرنے کا شوق ہوتا ہے
اور نتیجہ یہ ہوتا ہے چھوٹا سا نالج ہوتا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات عورتوں کے ہاتھوں پٹ جاتے ہیں اور پوری قوم کو شرمندگی کا سامنا کراتے ہیں
مگر ہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو ٹی وی چینلوں پر نہیں جاتے مگر انتہائی جامع مشورہ دیتے ہیں کہ ان پر اعتماد کرنے میں بھلائی نظر آتی ہے ایسے ہی آج کل یکساں سول کوڈ سے متعلق دو اہم شخصیات کے مشورے اخبارات کے صفحات پر نمایاں ہوئے ہیں اور دونوں ہی عظیم صحافی اور دانش ور ہیں۔
شاہد صدیقی اور پروفیسر اختر الواسع،، ان دونوں شخصیات کا یہی مشورہ ہے کہ یونیفارم سول کوڈ جیسے مسلے پر مسلمان جذباتی ردعمل کا اظہار ہرگز نہ کریں تاکہ مسلمانوں کے درمیان کوئی نیا مسلہ نہ کھڑا ہو بلکہ وہ اپنی طرف سے اجتماعی طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو یہ اختیار دیں کہ وہ لاء کمیشن کے سامنے ان کی نمائندگی کرے اور مضبوطی کے ساتھ اپنے دلائل پیش کرسکے
اور پورے ملک میں مسلمانوں کی شناخت قائم ہو سکے اور ایک مثال بھی قائم ہوسکے جو پورے ہندوستان کے لیے محبت بھرا پیغام ہو اور ہر ہندوستانی مسلمانوں کی تعریف کرنے کے لیے مجبور ہو جائے،،
دونوں صحافیوں نے جس طرح اس مسلہ پر بروقت ملت اسلامیہ کو کارآمد مشورہ دیا ہے اس کی تائید اور حمایت کا یہی طریقہ ہے کہ ہمارے درمیان سے کوئی بھی شخص ٹی وی چینلوں پر یونیفارم سول کوڈ کے موضوع پر مباحثہ کے لیے نہ جائے کیوں کہ ایسا کرنے سے ٹی وی چینلوں کو نفرت انگیزی پر مبنی ماحول بنانے کا موقع مل جائے گا اور مسلمانوں کی شبیہ کو وہ بگاڑ کر باتوں کو توڑ مڑوڑ کر اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلا کر حکومت کے سیاسی مقاصد و عزائم کی تکمیل کریں گے اور سارا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑیں گے۔
اس بات کو یاد رکھیں کہ یکساں سول کوڈ جیسا مسلہ صرف مذہب اسلام کا نہیں ہے بلکہ یہ ہندو مذہب کا بھی مسلہ ہے ان کے وہاں بھی شادیاں ہوتی ہیں تو سات پھیرے لئے جاتے ہیں اور ایک پھیرا کم ہونے کی صورت میں شادی ہوہی نہیں سکتی شاید اب کچھ لوگ اس بات کا رخ دوسری طرف موڑنے کی کوشش کریں کہ ان کے وہاں تو ایک دوسرے کے گلے میں مالا ڈال دینے سے شادی ہوجاتی ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے۔
کہ ایک دوسرے کے گلے میں مالا ڈالنا یہ ساتھ رہنے کے فیصلے کا اظہار کرنا ہے اور شادی کی خوشی کا اظہار ہے یہ مذہبی رسومات میں شامل نہیں ہے بلکہ مذہبی رسومات کے مطابق سات پھیرے لینا ضروری ہے جیسے مسلمانوں کے وہاں لاکھ ممانعت کے باوجود بھی سو دوسو آدمیوں پر مشتمل بارات، دلہن کی آمد پر آتش بازی یہ مذہبی رسومات نہیں ہیں بلکہ مذہبی بنیاد پر تو سخت ممانعت ہے ہمارے یہاں بھی شادی میں دو گواہ، مہر، ایجاب و قبول یہ مذہبی امور ہیں اور ان پر عمل ضروری ہے،،۔
یکساں سول کوڈ کے معاملے میں مسلمانوں کو بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت نے ابھی تک یونیفارم سول کوڈ کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا ہے 2018 میں تشکیل لاء کمیشن نے یونیفارم سول کوڈ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا اس کے ساتھ ہی کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ فی الوقت ہندوستان کے لئے غیر ضروری اور غیر مطلوب ہے۔
جب بھی اس طرح کا کوئی مسلہ اور معاملہ ہوتا ہے تو مستقبل قریب میں کوئی نہ کوئی اہم موقع بھی آنے والا ہوتا ہے جیسے 2024 میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں تو ہندؤں اور مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے کی بھی کوشش کی جائے گی تاکہ مذہب کے نام پر ووٹوں کا بٹوارہ بھی ہوسکے اور مذہب کے نام پر ووٹ جمع بھی ہوسکے۔
اس لیے مسلمانوں کو کھیل کے ساتھ کھیل کی دھار کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ملی تنظیموں نے جو احتجاج درج کرانے کا طریقہ اپنایا وہ ایک قابل ستائش ہے- کل ملا کر دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ کے نام پر سیاست کی جارہی ہے حالاں کہ سیاست دانوں اور حکم رانوں کو کسی معاملے میں عوام کو نہ اندھیرے میں رکھنا چاہیے۔
اور نہ ہی عوام کو الجھانا چاہیے بلکہ ہر فیصلہ ایسا ہونا چاہیے جو آئینے کی طرح صاف ہو اور ملک کی عوام پوری طرح مطمئن ہو اس سے ہمارے ملک کی تعمیر و ترقی ہوگی اور ہر طرف امن و امان اور خوشحالی ہوگی ملک کا بھی وقار بڑھے گا اور ملک کے حکمرانوں کا بھی قد اونچا ہوگا
اور وقار بڑھے گا اور میڈیا کا بھی ایسا ہی کردار ہونا چاہئے کہ قومی اتحاد کو فروغ حاصل ہو اور لوگوں کے اندر یہ جوش و جذبہ پیدا ہو کہ پارٹی و سیاست سے اوپر اٹھ کر ملک کی تعمیر و ترقی و سجانے اور سنوارنے کو ترجیح دی جائے لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داری اور فرائض کو بحسن و خوبی انجام دینے سے بہت دور ہوگیا اور صحافت کے وقار کو مجروح کردیا جبکہ صحافت ہمارے ملک کا چوتھا ستون ہے اور ایک ایک ستون کو بچانا اور اس کی حفاظت کرنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے
مسلمانوں کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کیوں کہ مسلکی جنون اور مسلکی منافرت و اختلافات کے نتائج برآمد ہونے لگے ہیں بابری مسجد ہاتھ سے نکل گئی، گیان واپی مسجد نشانے پر ہے، متھرا کی عید گاہ پر فرقہ پرستوں کی نظر گڑی ہوئی ہے
اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش خالی کرنے کا مسلمانوں کو الٹی میٹم دیاجارہا ہے بار بار یکساں سول کوڈ کا مسلہ اٹھتا رہتا ہے یہ سب مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کے نتائج برآمد ہونے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پوری طرح مفلوج ہوجائیں اس سمجھنا بھی ضروری ہے اور سنبھلنا بھی ضروری ہے اور نہیں تو پھر خمیازہ بھی بھگتنا ضروری ہے۔
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی