نفرت اور تشدد کا ذمہ دار کون
نفرت اور تشدد کا ذمہ دار کون ؟
تحریر: جاوید اختر بھارتی
یقیناً ملک انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے، اب تو ٹرین میں سفر کرنا بھی دشوار نظر آتا ہے، اتراکھنڈ میں نفرت کی چنگاری کو بھڑکایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو نکال بھگانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے، دکانوں میں آگ لگایا جاتا ہے اشتعال انگیز تقاریر کی جاتی ہیں مساجد اور مدارس پر الزام لگایا جاتا ہے،
مدارس کے طلباء کو تنگ کیا جاتا ہے حال ہی میں جے پور ایکسپریس ٹرین میں جس کے سر حفاظت کی ذمہ داری تھی وہی قاتل و درندگی پر اتر آیا چیتن سنگھ نامی آر پی ایف کانسٹیبل نے جہاں اپنے ایک سینئر کو موت کے گھاٹ اتار دیا وہیں تین مسلمان کے اوپر گولیاں برسا کر موت کی نیند سلا دیا اس واردات کے نتیجے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک محافظ دہشت گرد بن گیا
لیکن اس کے باوجود بھی اسے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے دماغی توازن درست نہ ہونے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے اور بہانہ بھی کیا جارہا ہے جبکہ وہ گولیاں برسانے کے بعد خون میں لت پت ایک لاش کے پاس کھڑا ہوکر جو بے بنیاد الزامات لگارہا ہے اور جو سیاسی بات کہہ رہا ہے
اس سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ اس نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی دیکھائی ہے وہ مسلموں سے بغض و نفرت کی بنیاد پر دہشت گردی کو انجام دیا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قانون کے محافظ ہی کا یہ حال ہے تو بھروسہ کس پر کیا جائے گا اس نے تو ٹرینوں کے سفر کو بھی خوف و دہشت میں تبدیل کردیا ،،
ادھر ریاست ہریانہ کے میوات، گروگرام اور نوح علاقے میں فساد برپا کردیا گیا ایک مسجد کے امام کو شرپسندوں نے مسجد کے اندر گس کر قتل کردیا اور مسجد کو آگ بھی لگائی اس کے علاوہ نصف درجن اموات کی بھی خبریں موصول ہورہی ہیں ، آگ زنی اور پتھربازی بھی ہوئی ہے افسوس اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہی فساد کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جارہاہے اور یکطرفہ کاروائی کی جارہی ہے
اور صرف مسلمانوں کی گرفتاری ہورہی ہے بلڈوزر کے ذریعے قہر بھی ڈھایا گیا مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے مسمار بھی کیا گیا ایک گھر بنانے میں کمر ٹوٹ جاتی ہے خون پسینے کی کمائی سے بنائے گئے گھر پر بلڈوزر چلانا یہ سراسر ظلم ہے،،
غرضیکہ آج کل ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قابل مذمت بھی ہے اور ناقابل برداشت بھی ہے مسلسل مدارس و مساجد کو نشانہ بنایا جارہاہے، مسلمانوں کی ماب لنچنگ کی جارہی ہے ایک سازش اور منصوبے کے تحت مسلمانوں کی آبادیوں پرد ھاوا بولا جارہا ہے، ان کی صنعت و معیشت کو تباہ کیا جارہاہے اشتعال انگیز نعرے بازی کی جاتی ہے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں آئے دن وہ زہر اگلا کرتے ہیں
لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہیں، انہیں ٹوکنے والا کوئی نہیں،، مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی دن رات کوشش کی جارہی ہے تمام سیاسی پارٹیاں بھی خاموش ہیں صرف سیکولر ازم کا ڈھکوسلہ کرتی ہیں انہیں صرف مسلمانوں کا ووٹ چاہئے اور جہاں مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کی بات آتی ہے تو ان کی زبانوں پر تالا لگ جاتاہے،،
اور حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس کا نعرہ بھی بلند کررہی ہے اور دعویٰ بھی کررہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دعوے میں دور دور تک سچائی نظر نہیں آتی ،، فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کا خواب دیکھا ہے اور منصوبہ بنایا ہے وہ ملک کی فضا کو زہر آلود بنانے پرتلے ہوئے ہیں اور برابر نفرت کا زہر گھولتے رہتے ہیں
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کہاں ہیں ہمارے مسلم رہنمائے سیاست جو انتخابات کے دوران قوم کے درمیان آکر لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں اور مسلمانوں سے اپنی پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہیں آج جب ملک کا ماحول خراب کیا جارہاہے،
سفر کے دوران ٹرینوں میں مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے، امامت کے فرائض انجام دینے والے کو مسجد میں گھس کر موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، مساجد کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا جارہاہے تو وہ مسلم رہنمائے سیاست ہجرے سے باہر کیوں نہیں نکلتے اور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیوں نہیں کرتے کہ موجودہ حالات کے لئے کون ذمہ دار ہے
؟ منی پور طویل عرصے سے جل رہا ہے وہاں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے خواتین کی عزت و آبرو سے بھی کھلواڑ کیا گیا اتنی شرمناک حرکتیں کی گئیں کہ انسانیت بھی چیخ رہی ہے اور پوری دنیا میں ہندوستان کی کرکری ہورہی ہے ایک جمہوری ملک میں عزت و آبرو محفوظ نہ رہے تو ایسی صورت میں یہی کہا جائے گا کہ جمہوریت کے لبادے میں فرقہ پرستی چھپی ہوئی ہے اور ایسی صورت میں فرقہ پرستوں اور شرپسندوں کی حرکات پر روک نہیں لگایا گیا
تو جمہوریت کے لئے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ملک کا ماحول مزید ناخوشگوار ہوسکتا ہے،، حکومت آج بھی منصفانہ کاروائی کرے اور ملک کے آئین کے تحت قدم اٹھائے تو قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی کے اندر جرأت نہیں ہوگی اور پرندہ پر تک نہیں مار سکتا مگر افسوس کہ یہاں تو تعصب و تنگ نظری اور نفرت انگیزی پر ہمارے حکمران مون برت رکھے ہوئے ہیں ہر معاملے کو مذہبی لبادہ پہنا دیا جاتا ہے اسی وجہ سے ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے والوں کے حوصلوں کو تقویت ملتی ہے،،
ملک کے آئین نے اظہارِ رائے کی آزادی کا اختیار دیا ہے لیکن کسی کے جذبات کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، کسی کے مذہب کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ یکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب کو مضبوط کرنے پر زور دیا ہے،
، اور ہمارے کچھ علماء تو گنگا جمنی تہذیب کا کچھ الگ ہی معنیٰ و مفہوم نکالنے میں لگے رہتے ہیں گروگرام میں انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جمعہ کی نماز پر پابندی نہیں ہوگی جبکہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تنظیم کے ذمہ دار اعلان کرنے لگے کہ جس طرح لاک ڈاؤن میں گھروں کے اندر نمازوں کا اہتمام کیا جاتا تھا اسی طرح ضرورت ہے کہ میوات، گروگرام میں جمعہ کی نماز گھروں میں ادا کی جائے کیونکہ مساجد میں مسلمانوں کی تعداد جمع ہوگی تو شرپسندوں کو غصہ آسکتا ہے اور ان کے اندر چڑھ پیدا ہوسکتی ہے،،
اب سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ مشورہ درست ہے اور ایسے مواقع پر ایسا قدم اٹھانا مناسب ہے،، ہرگز نہیں بلکہ یہ چاپلوسی ہے، ڈر اور دہشت ہے اور ایسے ہی بے تکے مشوروں پر کہا جاتا ہے کہ نادان
پھر گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا،، ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ جمہوری نظام میں چاپلوسی اور چمچہ گیری سے قوم و ملت کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا بلکہ سیاسی پلیٹ فارم سے، سیاسی طاقت سے اور سیاسی پہچان سے مستقبل روشن ہوگا چاہے
فرقہ وارانہ فسادات سے چھٹکارے کی بات ہو، چاہے عبادت گاہوں کے تحفظ کا مسلہ ہو، چاہے روزی روٹی کا مسلہ ہو سارے مسائل کے حل کی چابی سیاست ہے کھلی ہوئی اور واضح طور پر بات یہ ہے کہ آخرت کی کامیابی اعمال صالحہ ہے اور دنیا کی کامیابی سیاست ہے سیاست ہے
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی