فضائل اہل بیت اطہار،قرآن وحدیث کی روشنی میں
فضائل اہل بیت اطہار،قرآن وحدیث کی روشنی میں ! شمع فروزاں ۔۔۔۔ محمد محفوظ قادری
مکرمی!اسلامی سال (سن ہجری)کاآغاز یکم محرم الحرام سے ہوتا ہے ہم 1443ھ۔ مکمل کرکے 1444ھ۔ میں داخل ہو چکے ہیں اس ماہ محرم میں بہت سے واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں کہ جن کا تعلق تاریخ اسلام سے بہت ہی گہرا ہے.
اُنہیں واقعات میں سے ایک واقعہ نواسئہ رسول حضرت فاطمتہ الزہرااور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے لخت جگر حضرت امام حسین اور آپ کے 72جانثارساتھیوں کی شہادت کابھی ہے جو میدان کربلا61ھ۔میں یزید پلید کی فوج کے مقابلہ میں پیش آیااور یہ واقعہ تاریخ اسلام میں قیامت صغراء سے کم نہیں ہے رہتی دنیا تک انسانیت اس واقعہ پر آنسو بہا کر شرم سار ہوتی رہے گی۔
حضرت فاطمہ،حضرت علی اور حسنین کریمین حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شامل ہیں ۔ان کی فضیلت کو اللہ نے قرآن میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’اے نبی کے گھر والو!اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی دور فرمادے‘‘(سورئہ احزاب)
اسی آیت کے تحت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ صبح کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے پاس کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دار چادر تھی اسی دوران حسن بن علی تشریف لائے تو آپ نے ان کو اپنی اس چادر میں داخل فرمالیا پھر حسین آئے تو ان کو بھی داخل فرمالیا پھر حضرت فاطمہ آئیں ان کو بھی داخل فرمالیا پھر حضرت علی تشریف لائے ان کو بھی داخل فرمالیا پھرحضور علیہ السلام نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ’’اللہ صرف یہی چاہتا ہے ،اے اہل بیت !کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دور فرمادے اور تم کو مکمل طور پر پاک و صاف کردے ‘‘(مسلم شریف )
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ،حسن اور حسین علیہم السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لیا اور فرما یا کہ اے اللہ!یہ میرے اہل بیت ہیں ۔(حاکم المستدرک)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ ’’آپ فرمادیں آؤہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو بلایا پھرفرمایایہ میرے اہل بیت ہیں ۔(صحیح مسلم ).
اہل بیت سے محبت کے بارے میں قرآن میں اللہ اپنے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ ’’تم فرماؤ میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ‘‘(سوئہ شورایٰ)
یعنی اے حبیب مکرم آپ فرمادیں کہ اے لوگو میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا (جس طرح مجھ سے پہلے کسی نبی نے دین کی تبلیغ پر اپنی قوم سے کوئی بدلہ طلب نہیں کیا)بس تم میرے قرابت داروں(یعنی میرے اہل بیت )سے محبت کرنا،اور اہل بیت سے میرے رشتہ کا لحاظ رکھتے ہوئے ایذا رسانی سے باز رہنا۔
جمیع بن عمیر بیان کرتے ہیں میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ کے پا گیا تو میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی ؟انہوں نے فرمایافاطمہ سے ۔پھر معلوم کیا مردوں میں؟انہوں نے فرمایا ان کے شوہر علی سے (ترمذی)
-
-
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ
- معرکہ کربلا تاریخ کے تناظر میں !
- معرکہ کربلا مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے
- راہِ خدا میں گھر کو لٹایا حسین نے
-
- ماہ محرم الحرام اور یوم عاشورا
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا ذکرفرماتے ہوئے حضورعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی،دوسری روایت میں فرمایا کہ جو چیز اسے قلق (بے چین)کرتی ہے وہی چیز مجھے قلق میں مبتلا کرتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو ایذا پہنچاتی ہے وہی چیز مجھے بھی ایذا پہنچاتی ہے ۔(مشکوٰۃ شریف)
اپنے نواسہ حسنین کریمین کی نسبی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو! کیا میں تم کوان کے بارے میں خبر نہ دوں جو اپنے نانا اور نانی کے اعتبار سے سب لو گوں میں بہتر ہیں؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماموں اور خالہ کے اعتبار سب لوگوں سے بہتر ہیں ؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو اپنی ماں اور باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟
وہ حسن اورحسین ہیں ،ان کے نانا اللہ کےرسول ،ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد،ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اللہ،ان کے والد علی بن ابی طالب،ان کے ماموں قاسم بن رسول اللہ ،ان کی خالہ رسول اللہ کی بیٹیاں زینب،رقیہ،اور کلثوم ہیں ۔ان کے نانا،والد،والدہ،چچا،پھوپھی،ماموں اور خالہ(سب)جنت میں ہوں گےاور وہ دونوں (حسنین کریمین)بھی جنت میں ہوں گے۔(طبرانی المعجم الکبیر)
امام حسن سے محبت کے تعلق سے حضرت براء بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی آپ کے کاندھے پر سوار تھے اور حضور فرمارہے تھے اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(مشکوٰۃ شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دن کے کسی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا یہاں تک کہ آپ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور آپ نے معلوم کیا ’’کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے،کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے یعنی حسن ہے؟ ‘‘
کچھ ہی دیر میں حسن دوڑ تے ہوئے آئے اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کو گلے لگا یا ،پھرحضور نے ارشاد فرمایا ’’اے اللہ! بیشک میں اس سے محبت کرتا ہوں،تو بھی اس سے محبت رکھنے والوں سے محبت فرما۔حضرت حسین سے محبت کا ذکرکرتے ہوئے رسول اللہ نے ارشاد فرمایاحسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں،جو شخص حسین سے محبت کر تا ہے اللہ اس سے محبت کرے،اورحسین میری اولاد ہے ۔(مشکوۃ)،
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین کے مقام ومرتبہ کو بیان کرتے ہو ئے ارشاد فرما یا کہ حسن وحسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں (حدیث)
اورحضور علیہ السلام نے دنیوی مقام کو ظاہر کرتے ہو ئے ارشاد فرماکہ حسن وحسین دینا میں میرے دو پھول ہیں۔(حدیث)
حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور کی بارگاہ میں حاضر میں ہوا تو دیکھا حسن وحسین علیہماالسلام رسول اللہ کے سامنے یا گود میں کھیل رہے تھے میں نے عرض کیایا رسول اللہ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں ان سے محبت کیوں نہ کروں
حالاں کہ میرے گلشن دنیا کے یہی تو دو پھول ہیں جن کی میں مہک سونگھتا رہتا ہوں۔(طبرانی المعجم الکبیر)حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت کی وجہ سے حضور کے پاس حاضر ہواآپ باہرتشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ آپ کسی چیز کو چھپائے ہوئے تھے میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیزتھی؟
جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا چیز چھپا رکھی ہے؟
حضور نے کپڑا ہٹایا تو آپ کے دونوں کولہوں پر حسن وحسین تھے ،اور آپ نے ارشاد فرما یا کہ ’’کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ! میں انہیں محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما،اور ان سے محبت رکھنے والوں سے بھی محبت فرما‘‘۔(ترمذی)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن سینے سے لیکر سر تک رسول اللہ مشابہ تھے جبکہ حسین نچلے حصہ سے مشابہت رکھتے تھے۔(ترمذی)
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روزنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے بیٹے کہاں ہیں؟
میں نے عرض کیا علی (رضی اللہ عنہ)ساتھ لے گئے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں نکلے پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے علی! خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے واپس لے آنا۔(حاکم المستدرک)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین کریمین کی محبت کو اپنی محبت ذریعہ بھی قرار دیا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی،اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں(نواسواں) سے بھی محبت کرے۔(نسائی )۔
دوسری روایت میں آتا ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور کوارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے حسن اور حسین سے محبت کی،اس نے مجھ سے محبت کی،اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی،اور جس نے اللہ سے محبت کی اس نے اسے جنت میں داخل کر دیا ۔(حاکم المستدرک)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔(ابن ماجہ)
اہل بیت سے جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی،حضرت فاطمہ ،حضرت حسن ،حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا کہ جس سے تم لڑوگے اس سے میری بھی لڑائی ہوگی، اور جس سے تم صلح کروگے اس سے میری بھی صلح ہوگی۔(ترمذی)
اہل بیت سے محبت اور ان کی راہ پر چلنا دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ بھی ہے حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں ایک روز مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی جگہ خم نامی مقام پر رسول اللہ نے ہمیں خطبہ دیا سب سے پہلے آپ نے اللہ کی حمد وثناء بیان کی وعظ و نصیحت کی،پھر فرمایا اے لوگو!میں بھی انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی بات قبول کر لوں! میں تمہارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
ان میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے اس میں ہدایت اورنور ہے تم اللہ کی کتاب کو لازمی پکڑے رہنا۔
پھر فرمایا دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں ۔دوسری روایت میں آتا ہے کہ اللہ کی کتاب،وہ اللہ کی رسی ہے،جس نے اس کی اتباع(کتاب)کی وہ ہدایت پر ہے،اور جس نے اسے چھوڑدیا وہ گمراہی پر رہے گا۔(مسلم)۔
اللہ رب العزت امت مسلمہ کوقرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرماکر،رسول اللہ اور آپ کے خاندان (اہل بیت)کی صحیح معنیٰ میں اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔آمین