اے انسان خود کو پہچان

Spread the love

اے انسان خود کو پہچان !

از ۔۔۔۔۔۔۔۔محمد محفوظ قادری

انسان کو چاہیےکہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرے کیوں کہ خود کو پہچاننا اپنے رب کو پہچاننا ہے اور جس نے خود کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی اس کو اپنے رب کی معرفت بآسانی حاصل نہیں ہو سکتی ۔

اسی لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ (قرآن)’’عن قریب ہم انہیں اپنی نشانیاں جہان میں اور خود ان کو اپنی ذات میں دکھائیں گے تاکہ انہیں واضح ہوجائے کہ وہی حق ذات ہے‘‘۔

اسی آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘(حدیث)’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ‘‘اے انسان! تجھ کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا اور تجھے ہر چیز کے پہچاننے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی کہ تیرا پیدا کرنے والاکون ہے،اور تیرے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے،اور تیرے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے

اس کے باوجود بھی اے انسان ! اگر تجھے اپنی پہچان نہیں ہوسکی تو تجھے دنیا اورآخرت میں خسارہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ خود کو تو جانور بھی پہچانتے ہیں لیکن ان کو اپنی زندگی کا مقصد معلوم نہیں۔

جس طرح انسان اپنے ظاہری جسم کے حصے سر،آنکھ،منھ ،پاؤں اور ہاتھ وغیرہ کی پہچان رکھتا ہے اسی طرح اپنے باطن کے حال سے بھی واقفیت رکھتا ہے کہ جب انسان کو بھوک لگتی ہے تو کھانا کھتا ہے ۔

پیاس کا احساس ہوتا ہے توپانی پیتا ہے ۔انسان پر شہوت غالب آتی ہے تو نکاح کا ارادہ کرتا ہے۔ یاجسم کے کسی حصے میں تکلیف یادرد کا احساس ہوتا ہے تو دوائی لیتا ہے ان تمام پہچانوں سے اے انسان! تیری اصل پہچان مراد نہیں اس میں تودوسری مخلوقات بھی تیرے برابر ہیں ۔

تجھے اپنی اصل حقیقت کو تلاش کرنا ہے کہ توکہاں سے آیا ہے اور کدھر کو جائےگااوراللہ رب العزت نے تجھ کواس فانی دنیا میں کیوں پیدا کیا ہے تیرے لیے سعادت کس چیز اورکس کام میں ہے ،جب تک انسان کو اپنے پیدا ہونے کے مقصد کی پہچان نہیں ہوگی جب تک انسان کو سعادت (نیک بختی) کی منزلیں حاصل نہیں ہوسکتیں۔

اے انسان! تجھے اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں سے پیدا کیا ہے ایک ظاہری ڈھانچہ ہے جسے جسم کہتے ہیں جس کو ہم ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔دوسرے تیرا باطن ہے کہ جس کو نفس دل اور جان کہتے ہیں اور اس کی پہچان صرف باطن کی آنکھ سے ہوتی ہے اور یہی باطن تیری اصل پہچان ہے ۔

اسی کوحسد،بغض ،کینہ ،عداوت ونفرت ،چغل خوری جیسی تمام عادات قبیحہ ا وربرے خیالات سے پاک وصاف رکھنا تیری ذمہ داری ہے ۔

اے انسان !جب تیرا باطن پاک وصاف ہوگا تو اس کے اثرات تیرے ظاہری جسم پر بھی ظاہر ہوں گے۔اسی لئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ(قرآن)۔

میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف دنیا طلب کرنے اور طلب دنیا میں منہمک ہونے کے لیے پیدا نہیں کیا ،بلکہ انہیں اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں میری معرفت حاصل ہوجائے ۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت اپنے بندوں کو حکم دے رہا ہے کہ اے میرے بندو!میں نے تمہیں دوسروں کی بندگی کیلئے پیدا نہیں کیا بلکہ اپنی بندگی (عبادت) کے لیے پیدا کیا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے انسان! تو میری عبادت کیلئے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دونگا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کردونگا اور اگر تو ایسا نہیں کرے گاتو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دونگا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔(ترمذی)

اللہ رب العزت ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور اس مقصد کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

از ۔۔۔۔۔۔۔۔محمد محفوظ قادری

رام پور، یو۔پی9759824259

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *