بھاجپا کر رہی ہے چوبیس کی تیاری

Spread the love

تحریر: سید سرفراز احمد، بھینسہ بھاجپا کررہی ہے 2024کے تخت کی تیاری کہیں کاشی اور متھرا اسی کی پہل تو نہیں  

اقتدار کی للچائی نگاہیں سیاستدانوں کو کبھی زمین سے آسمان کی سیر کرواتی ہیں تو کبھی آسمان  سے زمین پر پہنچاتی ہے جو اسی لالچ میں ضمعیر فروش بن جاتے ہیں اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کو داؤ پر بھی لگادیتے ہیں

جن سیاست دانوں کو اپنی سیاست چمکانے کی خواہش ہوتی ہے وہ کسی بھی مذہب کا بھلا نہیں سوچ سکتے چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہولیکن ہوتا یوں ہے کہ

جب کوئی سیاستداں یا سیاسی جماعت مذہب کی سیاست کو فروغ دینا چاہتی ہوتو اسکا منشاء صرف مفادات کی تکمیل ہوتا ہے جو نہ کبھی دیش کا بھلا سوچ سکتے نہ دیش واسیوں کا

لیکن ہاں اسی کے عوض میں کچھ مذہبی فائدے حاصل ہوجاتے ہیں جو مذہبی جنونیوں کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن یہ فائدے صرف ظاہری ہیر پیچ کی مانند ہوتے ہیں جس سے مذہب کے ٹھیکیداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے ـ

 

ہمارے ملک میں پچھلے آٹھ سالوں سے مذہب کی سیاست بڑی تیزی سےپھل اور پھول رہی ہے جو ملک تمام مذاہب کا گہوارہ تھا جہاں سیکولرزم کو سر پر چڑھا کر بٹھایا جاتا تھا آج وہ دم توڑ رہی ہے جسکی جگہ مذہب نے لے لی ہے آج ملک کا اکثریتی طبقہ گنگا جمنی تہذیب کو بھلا بیٹھا ہے اور ہرکس وناکس کے سر پر ہندوتوا کا بھوت سوار ہے

کیوں کہ اس وقت ملک میں ہر طرف مندر مسجد ہندو مسلم کے چرچے ہیں ایک ہی مادرِ وطن کے مکین جو ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگایا کرتے تھے وہ آج اپنے ہی بھائی کے جانی دشمن بن گئے ہیں یہ سب کیوں اور کس لیئے ہورہا ہے کسی کو کچھ علم نہیں ہے 

کیوں کہ نہ کسی ہندو کو مسلم سے مذہبی دشمنی ہے نہ مسلم کو ہندو سے یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہندو مسلم مندر مسجد کی لہر چلائی گئی اور نا اتفاقیوں کا بیج بویا گیا تاکہ یہ آپس میں لڑتے اور جھگڑتے رہیں اور سیاسی پارٹیاں اپنی نکمی سیاست میں کامیاب ہوتے رہیں ـ

جس طرح سے بھاجپا نے 2019کا لوک سبھا الیکشن رام مندر کو اپنا انتخابی مشن بناکر میدان سنبھالا تھا اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا لیکن جو فیصلہ نہ ہی حکومت کے بس میں تھا نہ ہی انکی طاقت میں بلکہ یہ فیصلہ عدالت عالیہ کے معزز منصفوں کو کرنا تھا

بالآخر انصاف کےٹھیکیداروں نے بھاجپا کے انتخابی وعدے کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا لیکن جو شک وشہبات ہے وہ اپنی جگہ ہے جسکو سمجھانے کی نہیں بلکہ سمجھنے کی ضرورت ہے بہر حال جمہوریت سے وفا کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں نے انتہائی صبر وتحمل کے ساتھ اس فیصلہ کو لرزتے جسم دھڑکتے دل سے بے تاب ہوکر بھی ملک کی سلامتی کیلئےدستور ہند کے مطابق عدالت کے فیصلہ پر عمل کیا ـ

اب بھاجپا کے پاس آئندہ انتخابی ہتھکنڈے اور ہندو اکثریتی رائے دہندوں کو اپنی طرف پر کشش بنانے کیلئے کچھ باقی نہیں ہے جبکہ سر پر گجرات کے الیکشن کے گھنے بادل بھاجپا کے لیے آندھی اور طوفان کی طرح منڈلا رہے ہیں کیونکہ یہ وہ ریاست ہے جہاں سے مودی اور شاہ کی جوڑی کا تعلق ہے جہاں بھاجپاکو کامیابی ملنااتنا آسان نہیں ہے وہیں دوسری جانب ہماچل پردیش کے بھی الیکشن کی دستک دے رہے ہیں

تو سال 2023میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، میزوروم،راجستھان,تلنگانہ کے بھی الیکشن ہونے والے ہیں ان انتخابات میں بھاجپا کس کو انتخابی حربہ بنائے گی؟

صرف اور صرف کاشی اور متھرا کوکیونکہ اسکے علاوہ بھاجپا کے پاس کچھ باقی بھی نہیں ہے پھر جیسے ہی یہ انتخابات کے مراحل ختم ہونگے سال 2024میں لوک سبھا کے الیکشن کی آمد ہوگی ان ہی انتخابات کی تگ ودو کرنے کیلئے بھاجپا اپنا سیاسی میدان ہموار کرنا چاہتی ہے

ہندو مسلم مندر مسجد کے بغیر بھاجپا اپنی گدی حاصل نہیں کرسکتی تب ہی بھاجپا اپنے نعرے کے مطابق ایودھیا کی تیاری ہے ابھی متھرا اور کاشی باقی ہے کے تحت کام کررہی ہے کیونکہ جب تک بھاجپا مندر مسجد ہندو مسلم کی سیاست کرتے رہے گی وہ اپنی سیاسی گدی اور تخت کی دعویدار بنی رہے گی ہاں اگر عوام چاہتی ہوتو، ورنہ مذہب کی سیاست بھی عوامی اتحاد کے سامنے منہ کے بل گرجائے گی ـ

کسی بھی طرح بنارس کی گیان واپی مسجد کو عدالت کے بابداخلہ میں پہنچا دیا گیا تاکہ ایک طول کھینچتی سماعت ہو اور بھاجپا آئندہ دو سال میں اسی مسجد کی جگہ کو کاشی کا مندر بنانے کے انتخابات میں وعدے کرتی رہے گی 

جس کے عوض بھاجپا مختلیف ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں مضبوط قدم جمانے کی کوشش کرے گی تاکہ لوک سبھا الیکشن میں پاپڑ بیلنے نہ پڑے پھر لوک سبھا انتخابات میں کاشی کےساتھ ساتھ متھرا کو مدعا بناکر اکثریتی عوام کی اکثریت کو حاصل کرنے کی کوشش کرےگی اور اپنے تخت تک پہنچنے کی راہ کوہموار کرے گی بالکل اسی طرز پر اس کام کو انجام دیا جارہا ہے

جس طرح سے بابری مسجد کو رام مندر کے حق میں لے جایا گیا یہ بھاجپا کا اہم انتخابی موضوع ہوگا تاکہ اکثریتی فرقہ کو مندر مسجد کی باتیں کرکے جوش میں لاکر ہوش سے مدہوش کیا جاسکے ـ

 بھاجپا حتی الامکان یہی چاہے گی کہ وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو ہندو دشمن بتانے کا کام کرے گی حالانکہ حقیقت بالکل بھی ایسی نہیں ہے بھاجپا کی یہ سیاسی پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی ریاست کے مسلم مخالف ایجنڈوں کے زریعہ اپنا سیاسی جال بنتی ہے جیسے کہ تلنگانہ میں پچھلے دنوں امیت شاہ نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کھلے عام کہا کہ اگر تلنگانہ میں بھاجپا کی سرکار بنتی ہے تومسلمانوں کو دیئے گئے

چار فیصد تحفظات کو حذف کردیا جائے گا وزیر اعظم مودی نے بھی جمعرات کے روز حیدرآباد کا دورہ کرتے ہوئے ریاست کی حکمران جماعت پر جم کر وار کیالیکن اس جوڑی نے یہ نہیں بتایا کہ تلنگانہ میں کیا ترقی کی جائے گی،بے روزگاری کو کیسے ختم کیا جائے تلنگانہ کو ترقی یافتہ کیسے بنایا جائے گا لیکن یہ سب بھاجپا کی سمجھ سے باہر ہے جس سے

یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ بھاجپا کھلے عام ہندو مسلم منافرت پھیلارہی ہے جس سے وہ اپنی سیاسی جڑیں مضبوط کرنا چاہتی ہےـ

آئندہ دو سال یعنی لوک سبھا انتخابات تک ہمارے ملک اور ملک کی سالمیت کیلئے کسی چیلینج سے کم نہیں کیونکہ جسطرح سے ملک کے حکمران ملک کو جس راہ پر لے جارہے ہیں اس سے ملک کے امن کو خطرہ ہوگا ابھی چار دن پہلے مدھیہ پردیش کے ایک قصبہ میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تلنگانہ بھاجپا کے ریاستی صدر بنڈی سنجے نے تلنگانہ کی امن کی فضاء کو مکدر کرنے کیلئے اشتعال انگیز بیان دیا جو ریاست میں موضوع بحث بنا ہوا ہے جس کے بعد یہ سوال زہن میں الجھ رہا ہیکہ کیا ایسے ہی انتخابات تک فرقہ پرستی کو پھیلا کر ہندو مسلم کو فسادات مندر مسجد میں الجھا کر رکھا جائے گا؟ہاں یقیناً کیونکہ یہی وہ نکمی سیاست ہے جو ملک کو تباہی کی دہلیز پار کروارہی ہے ـ

جس طریقے سے کاشی اور متھرا کو مسلئہ بناکر عوام کو اصل مسائل سے الجھاکر رکھ دیا ہے درحقیقت بھاجپا کی یہ آئندہ لوک سبھا الیکشن کی تیاری ہے جو بڑے منصوبہ بند انداز میں یہ کھیل رچایا جارہا ہے تب ہی تو مودی اور امیت شاہ کی زبان پر قفل لگا ہوا ہے

پورے پانچ سالوں میں بھاجپا نے صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے اور انتخابات کی جم کر تیاری کی ہے اور اپنا دماغ بھی اسی میں کھپایا ہے کہ کسی بھی طرح ہندو مسلم کواتحاد سے دور رکھا جائے اگرچہ یہی دماغ ملک کی ترقی اور ملک کی بہتر فضاء کو برقرار رکھنے میں لگایا جاتا تو آج ملک کی ایک الگ کی تصویر ہوتی ـ

اگر اکثریتی سماج ہوش کے ناخن لیتے ہوئے دانشمندی سے کام لیں گے کاشی اور متھرا کے جال میں نہ پھنسیں گے بھاجپا کی سیاسی چال بازیوں کو سمجھتے ہوئے ہندو مسلم منافرت سے گریز کریں گے اصل مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے حکومتوں اور حکمرانوں سے سوال کریں گے تویہ دوٹوک کہا جاسکتا ہیکہ ملک کی قسمت بدلنے دیر نہیں لگے گی

ورنہ اکثریتی فرقہ اگر ایسے ہی اند بھکتی کا شکار ہوکرنفرت کا ساتھ دیتے رہے گی تو سوائے تباہی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور بھاجپا کا ہندو مسلم مندر مسجد کا یہ سیاسی سفر کا سلسلہ چلتا رہے گا ـ

سید سرفراز احمد، بھینسہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *