نوبل انعام اور فیکٹ چیکر محمد زبیر
نوبل انعام اور فیکٹ چیکر محمد زبیر
از : مشتاق نوری
کہا جاتا ہے کہ خدا جسے عزت بخشے زمانہ اسے چھین نہیں سکتا۔لاکھ ذلت و رسوائی کا سامان تیار کرے مگر وہی ہوگا جو قدرت نے مقدر کیا ہے۔
بھارت کے بے باک اور انصاف پسند صحافی مسٹر رویش کمار کے فیسبک پیج سے پتا چلا کہ سال ۲۰۲۲ء کے نوبل پرائز کے لیے آلٹ نیوز کے بانیان محمد زبیر اور پرتیک سنہا کے ناموں کو بھی ممکنہ منتخب فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔یہ جان کر ہر سیکولر مزاج قلم کار اور فاشزم کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہر بے سہارہ بھارتی کو فرحت محسوس ہونا فطری ہے۔
پچھلے دنوں جس طرح محمد زبیر کو بھارتی حکومت نے پریشان کیا اور بنا جرم و خطا کے اس پر کیس پر کیس لاد کر اسے ہراساں کرنے، ڈرانے کی کوشش کی، وہ سب کچھ دنیا دیکھ رہی تھی۔بھارت کے ہندوتو ایجنڈے کے ناشرین و مشتہرین کو لگتا تھا کہ ہم ہی منصف ہم ہی وکیل کون کیا کر لیگا۔مگر وقت کے یہ چھوٹے چھوٹے فرعون بھول جاتے ہیں کہ عزت و ذلت خدا کے ہاتھ ہے۔
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ
جھوٹ کا نقاب نوچنے والے ایک صحافی کو دیوار سے لگانے کی جتنی چالیں چلی گئیں،جتنے پینترے بدلے گئے جتنے غیر قانونی حربے آزماۓ گئے سب پھیکے پڑ گئے۔ آخر کار سچ سرخرو ہوا۔جھوٹ پر سچ نے فتح پائی۔اور فریب کی حکومت کا منہ کالا ہوتے سب نے دیکھا۔اس نوبل کے لسٹ میں شامل ہونے پر خوشی اس لیے بھی ہے کہ نوبل انعام کوئی گاؤں گھر کا انعام نہیں، بلکہ اس انعام کا مقام و مرتبہ اہل علم و دانش خوب جانتے ہیں۔
مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ جہاں محمد زبیر کے مداحوں اور آلٹ نیوز کے خیر خواہوں کی خوشیاں آسمان چھو رہی ہوں گی وہیں دوسری طرف بھارتی حکومت سے لے کر گودی میڈیا تک سب کے چہرے پیلیا زدہ ہو گئے ہوں گے۔اندر ہی اندر دعا کر رہے ہوں گے کہ کسی طرح نام کٹ جاۓ۔ایسا کیسے ہوگیا کہ جس کو مودی حکومت کا پترکار گینگ، صحافت سے ہی اکھاڑ دینا چاہتا تھا اتنا آگے نکل جاۓ گا ایسا تو سوچا ہی نہیں تھا۔
آپ کو بتا دوں کہ تب بھی گودی میڈیا کی جل رہی تھی جب ۲۰۱۹ میں ایشیا کا نوبل انعام مانا جانے والا “رومن میگ سیسے ایوارڈ” بے باک صحافی رویش کمار کو دیا گیا تھا۔یہ فلپائنی ایوارڈ ہے جو ایشیا کے مختلف شعبوں میں بے باکانہ و دیانت دارنہ طریقے سے نمایاں کارنامہ انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔امکانی طور پر شاید یہ دوسرا زناٹے دار طمانچہ ہوگا جب نوبل انعام محمد زبیر کو ملے گا۔
گودی میڈیا کی موت ہی ہے۔ کیوں کہ جب یوگی اور امت شاہ کی سلیکٹیڈ آرمی نے محمد زبیر کو پھنسانے، سلاخوں کے پیچھے سڑانے کی تیاری کر لی تھی تب یہ سارا کھیل میڈیا کے کارندے قریب سے دیکھ رہے تھے مگر کسی نے بھی اس ناانصافی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا۔
جب سارے میڈیا ہاوسز جھوٹ پروس کر گاے کے گوبر کو گلاب جامن ثابت کرنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہو، ضمیر فروشی کے دھندے کو، حکومت کے تلوے چاٹنے کو کمال دیش بھکتی بتایا جاتا ہو ایسے میں ضمیر کو فروخت ہونے سے بچا لینا، سچ دکھانے اور جھوٹ کا پردہ فاش کرنے کا دم لے کر نکلنا کسی آر پار کی جنگ لڑنے سے کم نہیں ہے۔اس کے لیے دل گردے کی ضرورت ہے۔اور یہ جگر کا کام محمد زبیر نے کیا ہے۔
اگر منتخب لسٹ میں ان کا نام نہ بھی آۓ تو یہ کم بات نہیں کہ نوبل کے لیے ان کے نام پر بھی غور کیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ملک کے صدارتی عہدے کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل ہو جانا بھی ایک بڑی حصول یابی ہے۔
نوبل پرائز کیا ہے؟
نوبل انعام سوڈان میں جنمے ماہر تعلیم کیمیاداں، و صنعت کار الفرڈ نوبل کے نام سے منسوب ہے۔
الفرڈ نوبل ایک بڑے سائنس دان تھے۔ ڈائنامائٹ ان کی بڑی ایجاد ہے۔ اسی سے زیادہ مشہور بھی ہوۓ۔ اور بھی کئی چیزوں کے موجد مانے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ڈائنامائٹ کا ایجاد سرنگ کھودنے اور پہاڑوں کو توڑنے کے لیے کیا تھا مگر بعد میں اس کا غلط استعمال ہونے سے وہ کافی دکھی بھی رہے۔
وہ اپنی زمینوں اور ڈائنامائٹس سے کافی پیسے کماۓ۔ یہ حیران کن بات ہے کہ ۱۸۹۶ میں جب دنیا کا بیشتر حصہ بھک مری، تنگی اور غربت میں جی رہی تھی اس وقت ان کے اکاؤنٹ میں ۹۰؍ لاکھ ڈالر کی رقم موجود تھی۔
ان کا قابل قدر کارنامہ یہ رہا کہ ۱۸۹۶ء میں اپنی وفات سے پہلے الفرڈ نوبل نے خاص طور پر ایک وصیت نامہ لکھوایا۔جس میں لکھا کہ میری دولت کو طبیعیات (Physics) کیمیا (Chemistry) طب (Medicines) ادب (Literature) اور امن( Peace) جیسے مختلف موضوعات پر نمایاں و قابل ذکر کارنامہ انجام دینے والے شخص یا ادارے کو ہر سال بطور انعام دیا جاۓ۔
الفرڈ نے پانچ اہم شعبے کے ماہرین کی تخصیص کی تھی بعد میں ۱۹۶۸ میں معاشیات و اقتصادیات کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔
اس وصیت کے پانچویں سال بعد الفرڈ نوبل کی سالانہ برسی کے موقعے سے، یعنی ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۱ء سے اس انعام کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز شان سے چل رہا ہے بلکہ مزید رنگ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہی سبب ہے کہ ہر سال اس کے انعام کی رقم بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ سویڈن اور ناروے اس انعام کی میزبانی کرتے ہیں۔
اسے تین مختلف تشکیل شدہ کمیٹیاں تقسیم کرتی ہیں۔
(1) Nobel committee of Royal Swedish Academy of Sciences
(2) Nobel committee of Karolinska Institutet
(3) Norwegian Nobel Committee طبعیات، کیمیا، طب ، ادب اور امن کے شعبے میں غیر معمولی خدمات انجام دینے والے شخص یا ادارے کو کمیٹی پہلے نامنیٹ کرتی ہے پھر اس کے کام کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد انعام کے لیے منتخب لسٹ میں شامل کرتی ہے۔
10 دسمبر کو الفرڈ نوبل کی سالانہ برسی کے موقعے پر یہ انعام تقسیم کیا جاتا ہے۔یہ انعامی رقم اتنی بڑی ہے کہ آدمی کی ساری محنت وصول ہو جاۓ۔۲۰۲۲ کے انعام کے لیے (US$ 1,145,000) ہے۔ جو موجودہ ہندوستانی کرنسی میں تقریبا نو کروڑ چوتیس لاکھ کے اوپر جاتا ہے۔
اخیر میں چلتے چلتے یہ لکھ دوں کہ جب میں الفرڈ نوبل کے متعلق پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں بار بار یہی آ رہا تھا کہ نوبل نے ایسی وصیت کیوں کی؟
انہیں تو وصیت کرنی چاہیے کہ جو بھی میری برسی میں آکر میرا قصیدہ پڑھے گا اسے بطور انعام میری دولت دی جاۓ۔
آخر ایک کرسچن کو فلاح و صلاح قوم کی اس قدر فکر کیوں تھی۔کتنی بلند سوچ تھی کہ گئے بھی ایسی یادگار چھوڑ گئے کہ اسے ہر مذہب و ملت کے ارباب علم و آگہی “یادگار اعلی” کہنے پر فخر کریں۔
کتنے بلند دماغ تھے کہ وہ چاہتے تو غریبوں میں تقسیم کرنے کی وصیت بھی کر سکتے تھے مگر اپنی ساری جمع پونجی، اہل علم و دانش کے نام مختص کر کے خود کو قیامت تک کے لیے زندہ کر گئے ہیں۔
جب تک یہ نوبل پرائز رہے گا الفرڈ کی یاد بھی باقی رہے گی۔آخر نوبل کی حقیقت جاننے کے بعد کیوں میرے دل میں بارہا آتا ہے کہ کاش ہماری کسی بڑی خانقاہ کے بڑے پیر صاحب نے ایسی وصیت کی ہوتی کہ میرے نذرانے کی رقم کو ہر سال اسلامیات (دیگر موضوعات کو چھوڑیں) پر لکھنے والے، ریسرچ کرنے والے،سیرت پر نمایاں کام کرنے والے کو دیا جاۓ تو کتنی بڑی بات ہوتی۔احساس افتخار سے ہم جیسوں کا سینہ چوڑا ہوجاتا۔
میرے دل میں یہ تمنا شدت سے سر اٹھا رہی ہے تب کسی نے ایسی نیک اور فلاحی وصیت نہیں کی تھی کوئی بات نہیں مگر اب بھی وقت ہے، پیسہ ہے، ذرائع ہیں۔اب تو کوئی نیک دل خیر خواہِ ملت کرے۔کاش! میں اپنی خواب نما تمنا کو تعبیر کا روپ لیتے دیکھ سکوں۔اے کاش! مرنے سے پہلے کسی پیر محترم کا ایسا مبارک وصیت نامہ نظر سے گزرے!
مشتاق نوری