اسلام ہی غالب آکر رہے گا

Spread the love

اسلام ہی غالب آکر رہے گا

تحریر : توصیف القاسمی

دین اسلام غالب آکر رہے گا ، یہ پیشین گوئی اِنسانوں کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ قرآن پاک میں خود اللہ ربّ العزت نے مختلف الفاظ میں اس پیشین گوئی کا ذکر کیاہے ، ایک جگہ آیا ہے لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ یعنی تاکہ اللہ تعالیٰ دین اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے ۔ دوسرے مقام پر آیا ہے وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ ترجمہ : اللہ تعالیٰ اپنے نور یعنی دین کو مکمل کرکے رہیگا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ أنَّ الإسلام يعلو، ولا يُعلى عليه ترجمہ : اسلام ہی سربلند رہے گا اب وہ مغلوب نہیں ہوگا ۔

کچھ علما کے نزدیک اس قسم کی آیتوں اور احادیث میں محض فکری غلبہ مراد ہے ناکہ أمور جہاں میں أہل ایمان کا حسی غلبہ ۔ فکری غلبہ یہ ہے کہ دین اسلام اور اس کے بنیادی عقائد ( توحید رسالت آخرت ) قیامت تک انتہائی مضبوط علمی و منطقی دلائل پر قائم رہیں گے اور زمانے کے علم و افکار کا بہاؤ کبھی بھی اسلام کی علمی و منطقی بنیادوں کو ہلا نہیں سکتا اور نا ہی مقابلہ کرسکتا ۔

حسی غلبہ یہ ہے کہ أہل ایمان دنیائے رنگ و بو کے مالک بن جائیں قومی و بین الاقوامی أمور کے فیصلے کریں ، اسلامی تہذیب ہر ایک تہذیب پر غالب آجائے ، قرآن و سنت میں ذکر کردہ ”معروفات“ انسانی سماج کا لازمی حصہ بن جائیں اور محرمات و منکرات پر عام پابندیاں عائد کردی جائیں ۔ خیال رہے کہ قرآن و سنت نے ”فکری غلبہ “ اور ”حسی غلبے “ کی کوئی تقسیم نہیں کی ہے بلکہ مطلق ”غلبہ دین“ اور ”علو دین“ کی بات کی ہے ، یعنی قرآن و سنت سے دونوں قسم کے غلبے مراد ہیں کسی ایک غلبے کو مراد لیکر دوسرے غلبے کا انکار کرنا قرآن و سنت کے معنی و مفہوم میں خیانت کرنا ہے

جیساکہ مولانا وحیدالدین خان صاحب مرحوم اور ان کے معتقدین کرتے رہتے ہیں ۔ بعض تجدد پسند علماء لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ سے ”اظہارِ دین“ تو مراد لیتے ہیں مگر ”غلبہ دین “ مراد نہیں لیتے اور کہتے ہیں کہ آیت میں غلبہ دین کا معنی و مفہوم زبردستی پیدا کیا گیا ہے ۔ مگر عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ کا قرآنی اضافہ اظہارِ دین کے معنیٰ میں ”غلبہ دین“ کے معنیٰ نہ صرف پیدا کردیتا ہے بلکہ غلبہ دین کے معنیٰ کو واضح طور پر متعین بھی کردیتا ہے ۔

قارئین کرام ! بھارت کے پس منظر میں مطلق ” غلبہ دین“ کیسے ہوگا ؟ آئیے اس کو سمجھتے ہیں ۔ ابھی 10/ فروری 2024 بروز ہفتہ کو میں پسماندہ سماج کے ایک نوجوان راہنما اجیت جینوال کی شادی میں شریک ہؤا کھانا کھانے کے بعد میں ہاتھ دھل رہا تھا کہ ایک نوجوان خاتون میرے پاس آئی سلام کیا اور پوچھا کہ سر Are you sure that chicken is Halal میں نے کہا ہاں حلال ہے ، میں نے پوچھا Are you Muslim خاتون نے کہا yes, I am a reverted Muslim خاتون نے مزید سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتلایا کہ میں نے آن لائن نماز سیکھی ہے اپنے گھر ہی میں اشارے سے نماز پڑھ لیتی ہوں 

اس کو بھی پڑھیں :   اسلام ہی سچا مذہب کیوں 

گھر میں میرے مسلمان ہونے کا کسی کو علم نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ آپ یقین جانیے سوشل میڈیا پر نوجوان علماء اسلام کی شاندار کارکردگی ، بحث ومباحثہ اور تفہیم دین کے نتیجے میں اس قسم کے واقعات بہت بڑے پیمانے پر غیر مسلم سماج کے اندر وقوع پذیر ہو رہے ہیں خاموشی سے اسلام قبول کر رہے ہیں اور کتنے ہی غیر مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسی ہیں کہ جنہوں نے اسلام تو قبول نہیں کیا

مگر اپنے سابقہ مذہب سے بدظن ہو چکے اور اس کے مستند و مضبوط authentic ہونے پر ان کو یقین نہیں رہا یعنی وہ ”لا الہ“ تک پہنچ چکے اب ”الا اللّٰہ “ تک لانے کی ذمےداری داعیان اسلام کی ہے ۔ اس خاتون سے بات کرنے کے بعد میرے دماغ میں خیالات کا ایک طوفان امنڈ ایا اور میں سوچنے لگا کہ دین اسلام جب کسی کے دل میں گھر کر جائے تو کوئی بھی قانون کوئی بھی بل کوئی بھی پارلیمنٹ اور خطرناک سے خطرناک ماحول بھی اس کو روک نہیں سکتا

حتیٰ کہ یہ لوگ کفریہ ماحول میں ”حلال کھانے “ کی بھی تمیز رکھتے ہیں اور کافر رشتے داروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنی ”نمازیں“ بھی ادا کر رہے ہیں ۔ اس خاتون تک اسلام جو پہنچا ہے وہ واضح طور پر سوشل میڈیا کے توسط سے پہنچا ہے ، آج کے زمانے میں دین اسلام سوشل میڈیا کے ذریعہ سے ہر قسم کی رکاوٹوں بندھنوں اور قانونی پیچیدگیوں کو توڑ کر متلاشی حق Truth seeker تک پہنچ رہا ہے ، ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر انتہائی اعلیٰ درجے کا علمی مواد اپلوڈ کیا جائے اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے ۔

ابھی سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، مثلاً ایک کام یہ باقی ہے کہ جس قدر سوالات غیر مسلم حضرات کی طرف سے اسلام پر اٹھائے گئے ہیں ، مسلمانوں کی طرف سے اسی مقدار میں ”ہندو دھرم“ پر سوالات نہیں اٹھائے گئے ؟ اور اگر ہندو دھرم پر تنقید کا کام کیا بھی گیا ہے تو وہ اردو زبان میں ہے ناکہ ہندی زبان میں ۔ دوسرے ہندی زبان میں بہت بڑے پیمانے پر اسلام کی نظریاتی تفہیم و تشریح بھی نہیں کی گئیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔

دوسری طرف ہمارے علماء و سماجی رہ نما اور قوم کے بارے میں فکر رکھنے والے حضرات اس بات سے پریشان ہیں کہ ہماری بچیاں مرتد ہو رہی ہیں اور وہ ایک بہت بڑا اندازہ بھی پیش کرتے ہیں غالباً اٹھ لاکھ 10 لاکھ کا آنکڑا پیش کرتے ہیں ، جو کہ سراسر غلط ہے ۔

یہ سچ ہے کہ کچھ مسلم بچیاں دینی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یا انتہائی غربت کی وجہ سے یا پھر عشق و محبت کی وجہ سے اپنا مذہب چھوڑ چکی ہیں مگر یہ ”ترک مذہب“ ہرگز ہرگز اس بنیاد پر نہیں ہؤا کہ ان کو اسلام کی نظریاتی بنیادوں پر کوئی شک تھا یا اسلام کے مقابلے میں دوسرا مذہب ان کو نظریاتی طور پر زیادہ مضبوط لگنے لگا ۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ایک جذباتی قسم کا فیصلہ تھا جو ماں باپ کی مجرمانہ غفلت ولاپرواہی کے نتیجے میں پیدا ہؤا ، اس قسم کی خواتین سے اور ان کے ”ترک مذہب“ سے مسلمانوں کو اور ہمارے علماء و راہنماؤں کو بالکل بھی گھبرانے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں جہنم کا ایندھن بننے کا اور اپنی لاپرواہی کا احساس ضرور ھونا چاہیے

تحریر : توصیف القاسمی

(مولنواسی) مقصود منزل پیراگپور سہارن پور

واٹسپ نمبر 8860931450

مسلم سماج کے لیڈر ہمارے ساتھ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *