ایک ہی دارالافتاء ہونا چاہیے

Spread the love

ایک ہی دارالافتاء ہونا چاہیے

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)

مقصود منزل پیراگپور سہارن پور

روز مرہ کے دینی مسائل بتلانے کے لیے یا نئے پیش آمدہ مسائل میں دینی راہنمائی حاصل کرنے کیلئے دارالافتاء مسلمانوں کی ایک مشترکہ ضرورت ہے ، مگر کچھ تو مسلکی دھماچوکڑی نے اور کچھ غیر تربیت یافتہ مفتیان کرام نے اس مشترکہ ضرورت کو امت مسلمہ میں فتنے وفساد کا ذریعہ بنادیا ہے ۔

یہ سچ ہے کہ اتحاد بین المسلمین کے نام پر مسالک کو ختم نہیں کیا جاسکتا ، اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ خود احادیث میں اور پھر صحابہ کرام کے طرزِ عمل میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

مگر یہ تو ہوسکتا ہے کہ آئیندہ کے پیش آمدہ مسائل میں ایک ہی فتویٰ اور ایک فیصلہ کیا جائے جیسے تمام ہی مسالک کے دارالافتاء کے مفتیان کرام نے ”وندے ماترم“ کے سلسلے میں ایک ہی فتویٰ صادر کیا ، جس کی وجہ سے امت مسلمہ میں ”وندے ماترم“ کے تعلق سے کوئی کنفیوژن نہیں ہے 

تمام بھارتی مسلمان وندے ماترم کے شرکیہ گیت ہونے پر یک زباں ہیں ، اسی طرح سے ”سوریہ نمسکار“ کے معاملے میں ایک ہی فیصلہ لیا گیا ہے ۔ ہمارے محترم مفتیان کرام نے یہ متحدہ موقف تو بیرونی مسائل کے نپٹارے کے لیے اختیار کیا کیا ہے ، کتنا اچھا ہوتا کہ اندرونی مسائل کے نپٹارے کے لئے بھی اسی قسم کا ایک متحدہ موقف اختیار کیا جاتا ، اس کے لیے خواہ تمام مسالک کے وسیع الخیال مفتیان کرام پر مبنی ایک ہی دار الافتاء قائم کیا جائے ۔

حقیقت یہ ہے کہ گلی کوچوں میں قائم دار الافتاء کے فتاوی مسلمانوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں ، ہر مفتی کی الگ رائے ہوتی ، ہر مفتی اپنی جگہ مجتہد مطلق بنا ہوا ہے ، بہت سے مفتیانِ کرام کا مطالعہ انتہائی ناقص ہوتا ہے ، ماضی کے فتاویٰ کو بعینہٖ حال پر منطبق کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور اسی قسم کے مفتیانِ کرام استفتاء کے جواب کی کاپی پر مہر لگانے میں دوڑ پڑتے ہیں ۔


ایک واقعہ: غالباً 1997/98 میں ہمارے گاؤں پیراگپور میں جمعہ کی نماز شروع کرنے کا مسئلہ پیش آیا ، مظاہر علوم (وقف) سہارنپور کے مفتیانِ کرام نے معائنہ کرنے کے بعد 10/ سال انتظار کرنے کو کہا ، گاؤں کے لوگوں کے لئے یہ طویل وقفہ ناقابلِ برداشت تھا 

انہوں نے گلی کوچوں کے مفتیانِ کرام کی دعوت کی اور ان کی پانچوں انگلیاں مرغ و مرغن میں تر کی فتویٰ کو چھپاکر غلط معلومات فراہم کی ، انتہائی ناقص المطالعه مفتیان کرام نے جواز کا فتویٰ دے دیا اور پھر گاؤں کے لوگ تقریباً 25/ سال تک اختلاف کرتے رہے ایک مسجد کے مسلمان جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کرتے رہے۔ 

جب کہ دوسری مسجد کے مسلمان جمعہ اور عیدین کو مظاہر علوم وقف سہارنپور کے فتویٰ کی بنیاد پر ناجائز سمجھتے رہے اور جمعہ وعیدین کے لیے گاؤں سے شہر میں جاتے رہے ، دونوں کے پاس فتوے تھے دونوں ہی اپنے اپنے زعم میں دین پر عمل کر رہے تھے ۔

گلی کوچوں کے مفتیانِ کرام کو اصل حقیقت بتائی بھی گئی مگر وہ تو فتویٰ پر مہر لگا چکے تھے اور کسی طرح اپنے فتوے سے رجوع کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔ اسی قسم مسائل مسلمانوں میں بہت بڑے پیمانے پر پیش آتے رہتے ہیں اور امت مسلمہ کا اتحاد فتوؤں کی وجہ سے پاش پاش ہوتا رہتا ہے ۔

حنفی علماے کرام کا غیر مقلدین ( أہل حدیث ) کے علماے کرام پر ایک اہم اعتراض یہ بھی ہے کہ ان کا عام آدمی جس نے فہم دین کے لیے ضروری علم بھی حاصل نہیں کیا وہ بھی مسائل کا استخراج و استنباط کرتا ہے اپنے آپ کو قرآن و سنّت کے نام پر بے لگام مجتہد سمجھنے لگتا ہے ، عربی تو دور کی بات اردو زبان سے بھی ناواقف شخص صحیح بخاری کے صفحے نمبر اور حدیث نمبر بتلاتا ہے ، مگر یہ ہی صورت حال ہمارے محترم مفتیان کرام کی بھی ہے وہ بھی ہر سؤال کا جواب دینا چاہتے ہیں

طلاق کا مسئلہ ملکی قانون سماج اور مکاتبِ فکر کے درمیان ایسا الجھا ہؤا ہے کہ ماہرین فقہ و فتاویٰ بغیر ذاتی تحقیق کے حل نہیں بتلاتے مگر گلی کوچوں کے یہ جاہل مفتیانِ کرام انتہائی عجلت سے کام لیتے ہوئے فون پر ہی فتویٰ بتادیتے ہیں اور خاندان کو اجاڑ دیتے ہیں نہ بچوں پر رحم کھاتے نہ عورت پر ، کہیں فوراً حلالے کی راہ نکال دیتے ہیں اور کہیں علیحدگی کا فتویٰ سنادیتے ہیں ۔

ہمارے ان جلد باز اور انتہائی ناقص المطالعه مفتیانِ کرام کو یہ تک معلوم نہیں کہ اب فقہ الأقلیات بھی وجود میں آچکا ، بہت سوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ”مفتی“ اور ”قاضی“ میں فرق ہوتا ہے ، مفتی کا تعلق علمی میدان سے ہے جب کہ قاضی کا تعلق سماج سے ، فتویٰ کچھ ہوسکتا ہے اور قضاء قاضی کچھ اور ، ایک قاضی حالات کے معائنہ کے بعد فتوے کو نظر انداز کرکے اس کے برخلاف فیصلہ دے سکتا ہے اور مفتیانِ کرام کو بھی وہی فیصلہ ماننا ہوگا 

مگر ہمارے محترم مفتیان کرام اس فرق کا خیال رکھے بغیر اور سماج کو پڑھے بغیر فتوے دیے جارہے ہیں اور فتنہ وفساد پھیلا رہے ہیں ۔ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ آج کل تو افتاء کا کورس تین ماہ میں یا ایک سال میں آن لائن بھی ہونے لگا ، دوسری طرف مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری کہتے تھے کہ مفتی کو اس وقت تک فتویٰ دینے کی اجازت نہیں جب تک وہ کسی ماہر مفتی کے زیرِ سایہ کم ازکم 25/ سال نہ گزار لے

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)

مقصود منزل پیراگپور سہارن پور

واٹسپ نمبر 8860931450

 

ان سب کو بھی پڑھیں :

مسلم قیادت کہاں ہے 

سڑک پر نماز اور ہماری ذمے داری

نفاذ یکساں سول کوڈ کے امکانات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *