آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا !
آج ہم نے مل جل کر جس طرح اپنے ماحول کو پلیدہ اور گندہ کیا ہے آنے والے دنوں میں تاریخ اس بات کی شاہد ہوگی کہ مستقبل میں ہورہی تمام خرابیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔آج ہمارے معاشرے کی حالت کیا ہے ؟ہمارے معاشرے کی کیفیات میں کس طرح کی خرابیاں مل گھل کے اس کا حصہ بن چکی ہیں ؟
کیا ہمیں اس بارے میں سوچنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ؟
کیا ہمیں اس بات ذرہ برابر بھی خیال نہیں کہ آنے والے دنوں میں جب ہمارے بچوں کو ایک ایک چیز کی کمی ہوگی تو اس کے ذمہ دار محض ہم ہی ہوں گے ؟
کیا ہمیں اس بارے میں نہیں سوچنا چاہیے کہ تاریخ ہمیں کس طرح یاد کرے گی؟
کیا ہمارے دلوں اب اس بات خوف نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ہماری نسلوں میں پھوٹ اور خرابیاں پیدا کرنے والے ہم خود ہیں ؟
ایسے بہت سارے سوالات ہیں مگران کے جواب بہت مشکل نظر آتے ہیں کیوں کہ ہمارے معاشرے میں آج ہر کسی کو پتا ہے کہ وہ کیا کیا غلطیاں کر رہے ہیں اور انہیں یہ بھی پتا ہے کہ انہیں ان غلطیوں سے باز آجانا چاہیے مگر ایسے حالات میں بھی وہ خودکو سدھارنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ خود کو بھی دھوکا دینے کے حق میں کیوں کہ اس دھوکے سے انہیں خوشی ملتی ہے۔
مرزا غالبؔ نے اپنی ایک غزل کے ایک ایک شعر بڑے عمدہ بیانی کے ساتھ موجودہ دور میں انسانیت کی حالت کا انکشاف کیا تھا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اس شعر کی گہرائی اتنی ہی ہے جتنی سمندروں کی مگر افسوس کہ اب لوگ نے سوچنا چھوڑ دیا ہے اور ترقی کے نام پر صرف اور صرف انٹر نیٹ اور سائنسی دنیا کے تجاویز کے سہارے چلتے رہنے کو ہی اپنی زندگی مقصد خاص قرار دیا ہے جس کا نقصان انہیں آج بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور آنے والے دنوں اس سے خطرناک طور پر انہیں دیکھنے کو مل سکتا ہے اور اگر بات کریں ان کی آنے والی نسلوں کی تو اللہ ان پر رحم کرے …
آنے والے چند سالوں میں انسانیت صرف اتنی بچے گی کہ اس دنیا میں لوگ ہونگے اور ان لوگوں کے وجود کو ہی انسانیت کا نام دیا جائے گا کیونکہ اس کے علاوہ انسانیت کی کوئی اور تعریف ممکن نہ ہو سکے گی ۔
یاد غالب ؔ کے اس شعر میں ایک بہت بڑی بات کی گئی ہے کہ اب تو انسان کو بھی یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ انہیں انسانیت کا تحفظ کر نا ہے کیوں کہ انسانیت ان کی سوچ میں صرف انسانوں کے وجود کو ہی کہا جا تا ہے جو کہ سراسر غلط اور فاحش ہے
مگر افسوس انہیں یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی خیر جو بھی ابھی بھی وقت باقی ہے اگر سنبھلنا چاہتے ہو تو سنبھل جاؤ ورنہ اس کا خمیازہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔
آج کے زمانے میں ہر کام میں کوئی نہ کوئی بہت بڑی مشکل نظر آتی ہے ۔مثال کے طور پر آپ تعلیم لے لیں ۔اگر آپ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دینا چاہتے ہیںتو ایک بات رکھیں آج کے زمانے میں تعلیم دلانا بھی ایک آسان کام نہیں ہے کیوں کہ اچھی تعلیم کے لیے اب اچھا پیسہ لازم اور ملزوم کی طرح ہے ۔ یعنی جتنی اچھی پڑھائی اتنے ہی زیادہ پیسے درکار ہیں ۔
اب جب تعلیم کو پیسے سے تولا جائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک بنیادی چیز علم جس کا انحصا ر پیسوں سے کیا جائے اس سماج میں کس طرح کی برائیاں جنم لے چکیں ہیں ۔ آج انسانیت شرمسار ہے اس کی بہت ساری مثالیں آپ خود ہی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔
جھوٹی دھن
(۱)آج لوگ اپنے علاوہ دوسروں کو مذاق محض کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتے …
اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ جب کہیں کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو لوگ اس کی مدد کرنے کے بجائے کھڑے کھڑ ے اس کا مذاق بناتے ہیں ۔
نیوز چینل اور نیوز پیپر کے ذریعے ایسی بہت ساری خبریں موصول ہوئی ہیں کہ فلاں جگہ پر کسی کے ساتھ روڈ حادثہ پیش آیا ہے اور لوگ اس کی مدد کرنے کے بجائے وہاں اپنے اپنے فون کو چالو کر کے اس کی تصویر کشی اور ویڈیوں بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
ایک خبر تویہ بھی موصول ہوئی کہ فلاں جگہ پر ایک شخص ندی میں ڈوب رہا تھا اور اسے دیکھنے والا اس کی ویڈیوں نکال رہا تھا اور اسی دوران اس کی موت ہو گئی ۔اگر ویڈیوبنانے والا چاہتا تو اس کی مدد کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا … اب جب ماحول اس قدر خراب ہے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے کترا ہی نہیں رہے بلکہ مانو جیسے منکر اور مخالف ہو چکے ہیں تو اس قوم کی خبر کوئی کیا لے گا ؟
اس انسانیت کو زندہ کر نے کے لیے ہمیں خود ہی آگے آنا ہوگا ورنہ تو آنے والے حالات کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی ڈر سا لگتا ہے اور لگے بھی کیوں نہ ایک ایک ڈرنے کی ہی بات ہے ۔
(۲) خود کشی …
آج ہمارے مابین اکثر وبیشتر لوگ پریشانی اور مایوسی کے شکار ہیں ،آئے دن کہیں نہ کہیں سے لاکھوں ایسی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں کہ فلاں گاؤں یا شہر کے فلاں ابن فلاں نے خودکشی کر لی ہے ۔
یاد رہے یہ خود کشی صرف اور صرف غربت کے لیے نہیں کی جاتی ہے بلکہ ایسی بہت ساری مثالیں مل جائیں گیں کہ امیر امیر لوگ بھی اس خو دکشی کے شکار ہو چکے ہیں ۔
اگر اسلامی نظریات نے دیکھیں تو خود کشی حرام ہے یعنی یہ کہ خود کشی کرنے والے کو سخت وعید سنائی جا چکی ہے اوراس بات کے لیے بطور حل انہیں اللہ سے دعا کر نا چاہیے کہ اے اللہ اگر میرے حق میں زندگی بہتر ہے تو مجھے اور جینے کی توفیق عطا فرما اور اگر میرے لیے موت بہتر ہے تو موت دے دے ۔
الغرض خودکشی ایک شیوہ بنتا جارہا ہے جس کے بارے سوچنا اور اس پر فکر کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ زندگی تو انسان کو صرف ایک ہی بار ملتی ہے اور اسے وہ خود ہی چھین لے تو اس سے بری بات اور کیا ہوگی ۔
خودکشی کو روکنے کے لیے ہمیں سخت سے سخت قدم اٹھانے ہونگے ۔مطلب یہ کہ یہ جو خودکشی کی لہریں اس قد ر مرتفع ہوتی جارہی ہیں ان کے پیچھے بھی ہم انسانوں کا ہی ہاتھ ہے کیوں کہ انسان کو کسی بات غم ضرور کسی دوسرے انسان کی وجہ سے ہوتا ہے یا تو کوئی قرض دار ان کے سروں پر سوار ہو جاتا ہے یا تو کوئی اور مگر یہ سب انسانوں کے ذریعے سے ہی وارد ہوتا ہے پس ہمیں ایک دوسرے کے کام میں آنا چاہیے ایک دوسرے کے درد وغم مل کر بانٹنا چاہیے تب جا کر شاید اس کا حل ڈھونڈھا جا سکتا ہے یعنی یہ کہ انسانیت کا مطلب سمجھنے کی بعد ہی اس کا حل ممکن ہے ۔
(۳)صرف انٹرنیٹ سے لگاؤ …
انٹر نیٹ کار آمد ہے یا نہیں اس بات کی بحث تو بہت لمبی ثابت ہو سکتی ہے اور اس نتیجہ بس اتنا نکالا جاسکتا ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں جن میں سے ہم جس طرف سے انہیں دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں وہ غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے اور صحیح بھی چاہیے وہ پڑھنا ہی کیوں نہ ہو …پڑھنا ایک اچھا کام ہے مگر کوئی آدمی صرف پڑھتا رہے اوراس کی وجہ سے دوسرے سارے کام پس پشت ڈال دے تویہ غلط ہی ثابت ہونے والا ہے ۔
انٹر نیٹ چونکہ بہت کارآمد ہے مگر اس کا طریقہ الگ ہے اس طریقے سے جسے آج ہم اور آپ استعمال کر رہے ہیں ۔انٹر نیٹ کا استعمال اگر اچھے کام ہو تو یہ بہتر ثابت ہوگا ورنہ نہیں ۔
آج ہم اور آپ انٹر نیٹ کے ذریعے فحش چیزوں کا مباصرہ کرتے ہیں اور یہ تو ناچاہتے ہوئے بھی دفعتا واقع ہو جاتا ہے جس سے ہمیں صرف نظر کر لینا چاہیے چوں کہ یہ انٹر نیٹ کی دنیا ہے تو اس پر ہمارا اختیار نہیں ہے ۔
آج لوگ انٹر نیٹ سے دوسروں کو لوٹنے اورپریشان کر نے کے علاوہ بھی بہت سارے غلط کام کررہے ہیں جن کا نقصان بھی ہمیں دیکھنے کو ملتا ۔ ہمیں انٹر نیٹ کا استعمال بھی انسانیت کو بحال کرنے کے لیے کرنا چاہیے جس سے ہمارے مسائل کا حق ممکن ہو سکتا ہے ۔
(۴) جرم کی بڑھتی شرح …
آج جرم اس پیمانے پر واقع ہوتے ہیں یا کئے جاتے ہیں جس کے بارے میں پچھلے چند سالوں میں کسی نے گمان بھی نہیں کیا تھا ۔آج چوریاں اس قدر ہو رہی ہیں جن کا کوئی حساب نہیں خاص طور پر انٹر نیٹ کے ذریعے بینک کے سسٹم کے ذریعے لوٹ مار چالو یہاں تک کہ اب تو چوری چکاری کرنے کے لیے باقاعدہ گروپ تیار کر لیے گئے ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر چوری کی جائے ۔
ایک سوال یہ آتا ہے کہ لوگ چوری کیوں کرتے ہیں ؟
اس کے کئی سارے جواب ہو سکتے ہیں مگر صحیح یہی ہے کہ لوگ اب شارٹ طریقے سے امیر بننا چاہتے ہیں اور اس کے لیے چوری سے بہتر کوئی راستہ انہیں نظر ہی نہیں آتا ۔
چوری ہی نہیں بلکہ اب تو متعدد جرموں کی شرح بڑی تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے مثلا عصمت دری ،قتل ،ڈکیتی ،اکثر طور پر عصمت دری کے واقعات دل دہلا دینے والے ہوتے ہیں کیوں کہ اب چھوٹی چھوٹی عمر کی بچیاں بھی غیر محفوظ اور غیر مطمئین ہیں آج ہم خود بھی اپنی ماں بہنوں کو اکیلے کہیں آنے یا جانے سے روکتے ہیں ۔…
یہ گلہ سب کو ہے لیکن پوچھتا کوئی نہیں …اب جب ہمیں ان سارے معاملات کا غم پتا ہے اور اس کے خمیازے کے بارے میں معلوم ہے تو ہمیں خود ہی ان جرموں کو وارد کرنے یا ہونے سے روکنا ہوگا اور اس سے بہترکوئی طریقہ نہیں کہ جس سے ہم انسانیت کی تعریف کو بحال کرسکیں اور عالم میں ایک مطمئن اور امن بھرا پیغام عام کرسکیں ۔
سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی
متعلم جامعہ دارالہدی الاسلامیہ
Pingback: یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے ⋆ سیف علی شاہ عدمؔ