ماہ شعبان و شب برات کی فضیلت
ماہ شعبان وشب برأت کی فضیلت !
از۔۔۔۔۔محمدمحفوظ قادری
ماہِ شعبان رحمت و برکت والا مہینہ ہے۔دن رات ہفتہ ماہ وسال سب اللہ رب العزت کےبنائے ہوئے ہیں اوراللہ رب العزت نےہی ان میں سےبعض کوبعض پرفضیلت عطافرمائی ہےان ہی عظمت وفضیلت ا وربخشش والی راتوں میں ایک رات پندرہ شعبان المعظم کی رات بھی ہےجو’’شب برأت‘‘ کےنام سے پہچانی جاتی ہے۔جو دراصل گناہوں اورخطاؤں سےتوبہ کرکےاپنےمالک حقیقی اللہ رب العزت کوراضی کرنے کی رات ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاشعبان کو شعبان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں رمضان المبارک کے لیے بہت زیادہ نیکیاں پھوٹتی ہیں۔
رمضان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ گناہوں کوجَلا دیتاہے۔(غنیتہ الطالبین)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھاکر تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےرمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھے ہوں۔
ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ آپ شعبان کے روزے رکھتے تھے شعبان کورمضان سے ملانے کے لیے ۔
اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دومہینے کے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
اللہ رب العزت کی طرف اعمال کا اٹھایاجانا :
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاشعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے۔
لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ رب العزت کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔
لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرے اعمال بارگاہِ خداوندی میں اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ کی حالت میں ہوں۔
مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ!آپ ماہِ شعبان میں اتنی کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں۔۔؟ ارشاد فرمایااس مہینے میں ہر اُس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا نام اس حال میں ملک الموت کے حوالے کیا جائے کہ میں روزےکی حالت میں ہوں۔
شبِ برأ ت کی فضیلت و اہمیت :
ماہِ شعبان کی پندرہویں شب ” شبِ برأت“ کہلاتی ہے۔جس طرح مسلمانوں کے لئےاس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر وعیدالاضحیٰ) ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان پر دو راتیں (شبِ برأ ت وشبِ قدر) ہیں۔
مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی ہے کیوں کہ وہ رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی ہےکیوں کہ وہ سوتے نہیں۔(غنیتہ الطالبین)
احادیث مبارکہ میں شبِ برأت کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہیں پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع ( قبرستان) میں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اےعائشہ! تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ ناانصافی کریں گے۔۔؟
(یعنی میں تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جاؤں گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اےعائشہ!اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتاہے اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی بخشش ومغفرت فرماتاہے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہےحضرت علی فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرواس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک آسمان دنیا پر نزول فرماتاہے اور ارشاد فرماتاہے کہ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طلب کرنے والا کہ میں اس کو رزق عطا کروں،کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں، کیا ہے کوئی ایسا۔۔؟ایسا۔۔؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتاہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔
شب برأت میں کون لوگ بخشش ومغفرت سےمحروم رہتےہیں:
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات روئے زمین کی طر جھانکتاہے یعنی متوجہ ہوتاہے پس اپنی تمام مخلوق کی بخشش ومغفرت فرمادیتاہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔اوردوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ مومنوں کو بخش دیتاہےاور کافروں کو مہلت عطا کر تاہے تاکہ وہ نافرمانی سے بازآجائیں۔اور کینہ پرور لوگوں کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا ہےیہاں تک کہ وہ اپنی اس حالت کو ترک کردیں۔
پندرہ شعبان کی رات کوقبرستان جانا:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم اس رات جنت البقیع (قبرستان)تشریف لےگئےتھےآپ کےاِس عمل کے تحت ہمیں بھی قبرستان جانا چاہئےاور اپنے مرحومین کے لیےایصال ایصال ثواب و دعاء مغفرت کرناچاہئےکیوں کہ اس رات اللہ کی طرف سے بخشش ومغفرت کوعام کردیاجاتاہےاس لیے اِس مبارک رات میں ہم اپنےمرحومین کوبھی یاد رکھیں۔
نیزحضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ چارراتوں میں آدمی خود کو دنیوی تمام مصروفیات سےعبادت الٰہی کے لیے فارغ رکھے ۔وہ چار راتیں یہ ہیں عید الفطر کی رات ،عیدالاضحی کی رات،شعبان کی پندرہویں رات اور رجب کی پہلی رات۔
پندرہ شعبان کی رات حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کاعمل مبارک:
حضرت طاؤوس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا ،تو آپ نے ارشاد فرمایا’’میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں ۔ایک حصے میں اپنے ناناجان( حضور صلی اللہ علیہ وسلم )پر درودشریف پڑھتاہوں ۔
اللہ کے اس حکم کی تکمیل کرتے ہوئے (یٰایھاالذین اٰمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیماً۰)’’اے ایمان والو!تم بھی ان پر خوب درود اور سلام بھیجا کرو‘‘۔اور دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اس حکم الٰہی پر عمل کرتے ہوئے(وماکان اللہ معذبھم وھم یستغفرون۰)’’اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے ) مغفرت طلب کر رہے ہوں ‘‘۔
تیسرے حصے میں نماز پڑھتاہوں اللہ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے (وسجد واقترب)’’اور اے (حبیب مکرم !)آپ سر بسجود رہئے اور (ہم سے مزید)قریب ہوتے جایئے۔میں نے عرض کیا :جو شخص یہ عمل کرے اس کے لئے کیا ثواب ہوگا ۔۔؟
آپ نے ارشاد فرمایا میں نے حضرت علی سے سنا اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ نے فرمایا اسے مقربین لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔
پندرہ شعبان کی رات کواللہ کی رحمت وجنت کےدروازوں کاکھُل جانا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ حضرت جبریل علیہ السلام شعبان کی پندرہویں رات میرے پاس آئےاور کہا کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم!آسمان کی طرف سراُٹھائیں،آپ فرماتےہیں میں نےمعلوم کیااےجبریل یہ کیا رات ہے۔۔؟جبریل علیہ السلام نےجواب دیا یہ وہ رات ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کےدروازوں میں سےتین سودروازےکھول دیتاہےاور ہر اُس شخص کوبخش دیتاہےکہ جومشرک نہ ہو البتہ جادوگر ، کاہن،شرابی،سودخوراور زناکار کی بخشش نہیں ہوتی جب تک کہ یہ لوگ توبہ نہ کرلیں۔
جب رات کاچوتھاحصہ ہواتوحضرت جبریل علیہ السلام نےپھرعرض کی اےاللہ کےرسول اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اُٹھائیےجب آپ نے اپنا سر مبارک اُٹھاکردیکھاتوجنت کے دروازے کھلے تھے ۔
اورپہلےدروازےپرایک فرشتہ ندادےرہاتھاکہ اس رات میں رکوع کرنے والوں کےلئےخوش خبری ہے۔دوسرےدروازےپرکھڑافرشتہ پکاررہاتھاکہ ہر اُس شخص کے لیے خوش خبری ہےجس نےسجدہ کیا۔تیسرے دروازے پرفرشتہ کہہ رہاتھااِس رات دعا مانگنے والوں کے لیے خوش خبری ہے۔
چوتھے دروازےپرفرشتہ ندادےرہاتھا کہ اس رات اللہ کا ذکر، کرنےوالوں کے لیےخوش خبری ہے۔پانچویں دروازےپرفرشتہ پکاررہاتھاکہ اِس رات اللہ کےخوف سے رونےوالوں کے لیےخوش خبری ہے۔
چھٹے دروازےپرفرشتہ کہہ رہاتھا کہ اس رات تمام مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔ساتویں دروازےپرکھڑے فرشتے کی نداتھی کیا کوئی سائل ہے۔۔؟ کہ اُس کواُس کےسوال کےمطابق عطا کیا جائے۔آٹھویں دروازےپرفرشتہ پکاررہاتھا کہ کوئی بخشش کاطلب گار ہےکہ اُس کوبخش دیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت جبریل سےمعلوم کیاکہ اےجبریل یہ دروازےکب تک کھلےرہیں گے۔۔؟جبریل علیہ السلام نےفرمایارات کےشروع سےطلوع فجر تک۔پھرکہاکہ اےمحمد!(صلی اللہ علیہ وسلم )اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کےبالوں کی برابرلوگوں کوجہنم سےآزادفرماتاہے۔(غنیتہ الطالبین)
امام شافعی سے مروی ہے کہ پانچ راتوں میں خاص طور پر دعاء قبول کی جاتی ہے جن میں سےایک رات نصف شعبان کی رات بھی ہے
درودشرف کی فضیلت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرماکہ رجب اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرامہینہ اور رمضان میری امت کامہینہ ہے۔
جب شعبان المعظم کی نسبت آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف کی ہے تو ہمیں کثرت کے ساتھ اس مہینےمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف پڑھناچاہیے۔ اور یہ مہینہ دعاؤں کی قبولیت توبہ واستغفار کا مہینہ ہے۔
اور درود مبارک بارگاہ خداوندی میں دعا کی قبولیت اور بخشش و مغفرت کا ذریعہ ہے۔جس قدرہم کثرت کےساتھ درود مبارک کا وردکریں گے ہماری نیکیوں میں بھی اضافہ ہوگا اور اللہ رب العزت آقاکریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے ہمارے دل پرلگی گناہوں کی گندگی کوآب رحمت سے دھوکرتوبہ توبہ کرتوبہ و استغفار کوقبول فرماکرہم سےراضی وخوش ہوجائےگااور اس ماہ مقدس کی تمام رحمتوں و برکتوں سےبھی مالامال فرمادے گا۔
اللہ امت مسلمہ کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
از۔۔۔۔۔محمدمحفوظ قادری،رامپور یو۔پی
9759824259
Pingback: ماہ مقدس رمضان کا استقبال کیسے کریں ⋆ از۔۔۔۔۔محمدمحفوظ قادری