غریب نواز پر الزام تراشی سازش پرانی اور تیاری پوری ہے
غریب نواز پر الزام تراشی سازش پرانی اور تیاری پوری ہے
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
زیادہ دن نہیں گزرے جب بدنام زمانہ نیوز اینکر امیش دیوگن نے ایک ڈبیٹ شو میں خواجہ غریب نواز کو آکرانتا (حملہ آور) کہہ کر توہین کی تھی۔وقتی طور پر ہمارے لوگوں کو غصہ آیا، مختلف مقامات پر مقدمات درج کرائے اس کے بعد گویا سبھی اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوگیے لیکن بعد میں ان مقدمات کا کیا ہوا کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔امیش دیوگن آج تک کسی بھی قانونی گرفت سے پوری طرح آزاد ہے۔ہماری اسی بے لاپرواہی سے حوصلہ پاکر نوپور جے شرما نام کی ایک بدزبان عورت نے خواجہ غریب نواز کی ذات پر ہندو عورتوں کے قتل اور زنا جیسا گھناؤنا الزام لگا کر مسلمانان ہند کی سب سے مقدس ہستی پر کیچڑ اچھالنے کی ہمت کر ڈالی ہے۔
سازش اور پس منظر
غریب نواز کی ذات پر ہندو خواتین کے قتل اور الزام زنا کو استثنائی واقعہ یا کسی ایک بدزبان کی بدزبانی نہ سمجھا جائے، آر ایس ایس سے وابستہ کوئی بھی فرد بغیر کسی منصوبہ بند پلاننگ کے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا۔لمبے وقت سے مختلف تنظیمیں مسلم دشمنی کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔کوئی بھاشن وتقریر کے ذریعے زہر پھیلاتا ہے، کچھ لوگ کتھاؤں کے ذریعے اسلام دشمنی بڑھاتے ہیں تو کچھ لوگ صحافت کے ذریعے مسلم مخالف جذبات بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔نوپور جے شرما کا تعلق اس طبقے سے ہے جو صحافت کے نام پر مسلم مخالفت کا زہر پھیلاتا ہے۔
اوپ انڈیا(opindia.com) ایک پروپیگنڈہ ویب پورٹل ہے جسے مسلم دشمنی کی نشر واشاعت ہی کے لیے بنایا گیا ہے۔
یہ ویب سائٹ لگاتار مسلمانوں کے خلاف خبریں اور مضامین شائع کرتی ہے۔خبروں کو توڑ مروڑ کر پھیلانا اور مسلمانوں کی کردار کشی کرنا اس کا بنیادی کام ہے۔نوپور اسی کی ایڈیٹر ہے۔اس نے جس بے خوفی کے ساتھ الزام تراشی کی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لوگ اب اس الزام کو پوری شدت کے ساتھ اٹھائیں گے۔کیوں کہ اب شاید انہیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ اس کے خلاف مسلمان کوئی سخت ری ایکشن نہیں دے پائیں گے۔
یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ جب جون 2020 میں امیش دیوگن نے غریب نواز کی شان میں توہین کی تھی تو اس ویب پورٹل پر 17 جون کو ایک اسٹوری پبلش ہوئی تھی جس میں معذرت خواہانہ لہجہ اپناتے ہوئے اسے انجانے میں ہوئی ایک بھول قرار دیا گیا گیا تھا۔
جو نیوز پورٹل دو سال پہلے کی گئی گستاخی کو بھول مان رہا تھا آج اسی کی ایڈیٹر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ امیش دیوگن سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر خواجہ صاحب کی شان میں شدید ترین گستاخی کر رہی ہے تو اسے محض ایک بدزبان کی بدتمیزی نہ سمجھا جائے اس کے پیچھے منصوبہ بند سازش ہے۔جس کا بنیادی مقصد بزرگان دین کی عزت و عظمت کو مشکوک اور متنازعہ بنانا ہے۔
سازش پرانی ہے
آج سے قریب 13 سال پہلے دلی کے پرگتی میدان میں منعقد عالمی کتاب میلے میں گشت کرتے ہوئے ایک ہندی پبلشر کے اسٹال سے کچھ کتابیں خریدیں۔کتابیں کھنگالتے ہوئے ایک ایسی کتاب بھی نگاہ سے گزری جس کا اس وقت تصور بھی نہیں تھا۔عموماً مسلمانوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ متشدد لوگ بھلے ہی مسلمانوں سے دشمنی رکھیں لیکن مزاروں اور آستانوں سے بڑی محبت رکھتے ہیں۔لیکن اس کتاب نے اس تصور کو سخت جھٹکا دیا، کتاب کا نام تھا:
“صوفیوں دوارا بھارت کا اسلامی کرن” اس کتاب کے مصنف پروشوتم نے اس کے علاوہ ایسے ہی عناوین پر کچھ اور کتابیں بھی لکھی ہیں جن کا مرکزی عنوان بھی ایسا ہی ہے۔اس کتاب کا مصنف صوفیاے کرام کے متعلق یوں اظہار خیال کرتا ہے:
“سن 1000 عیسوی کے بعد بھارت کے اسلامی کرن جو دوسرا دور شروع ہوا اس میں ایک طرف تو محمود غزنوی سے دوسرے بہت سارے حملہ آور تلوار اور قرآن لیکر بھارت میں گھسے یا ان کے وارثوں نے بھارت میں تلوار کے زور پر اسلام کی توسیع کی۔دوسری جانب صوفی لوگ منہ پر قوالی، وظیفے کرامتوں کے دعوے اور بغل میں قرآن وتلوار لیکر آئے۔” (صوفیوں دوارا بھارت کا اسلامی کرن ص:2)
دوسری جگہ لکھتا ہے:
“جب علاؤالدین خلجی نے جنوبی ہند میں دیوگری پر فتح حاصل کی تو سیکڑوں صوفیوں نے وہاں جاکر اپنی خانقاہیں قائم کر لیں اور تبدیلی مذہب کے کام میں لگ گیے۔ان میں سے کچھ نے کھل کر ہندوؤں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اتنے ہندوؤں کا قتل کیا کہ ان کے نام کے ساتھ قتال اور کفار بھنجن جیسا لفظ جڑ گیا۔”
(ایضاً ص 2)
سیاسی بے قدری اور بڑھتی ہوئی رسوائیاں
ان دو اقتباسات سے آپ صوفیا اور خانقاہوں کے بارے میں ان کی سوچ اور فکر کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہ اقتباسات کسی وقتی جذبات کا اظہاریہ ہیں، ان کے پس پشت ان کا مطالعہ اور بعد مطالعہ مغالطے کی بھرپور محنت شامل ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے بنگال کے مشہور صوفی بزرگ شاہ جلال الدین مجرد یمنی (670-740ھ) کو “لڑاکو صوفیوں” کا نمایاں نام قرار دیا ہے۔کیوں کہ جنگ سلہٹ(1303ء) کے وقت شیخ جلال اور ان کے مریدین وہاں قیام پذیر تھے اور سکندر خان غازی نے راجا گووند گوڑ کو شکست سے دو چار کرکے وہاں اسلامی سلطنت قائم کی۔
اس کے علاوہ اس شخص نے سید سالار مسعود غازی بہرائچ، شیخ جلال الدین تبریزی آسام، قطب العالم شیخ نور الدین بنگال، شیخ عبدالقدوس گنگوہی اتر پردیش، شیخ نورالدین نورانی چرارے شریف کشمیر، مخدوم جہانیاں جہاں گشت، میر سید علی ہمدانی کشمیر، شیخ نظام الدین اولیا دہلی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی دہلی، شیخ شہاب الدین سہروردی علیہم الرحمہ جیسے بزرگوں کا تذکرہ بایں طور شامل کتاب کیا ہے کہ ان لوگوں نے چھل فریب کے اور تلوار کے زور پر ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا ہے۔ یہ متعصب مصنف حضرت خواجہ غریب نواز کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
“بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ اس شخص [خواجہ غریب نواز] نے بھارت کے اسلامی کرن میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے اور اپنے انتقال کے 800 سال بعد بھی کر رہا ہے۔”
اپنی کتاب میں پروشوتم نے تذکرہ اولیا پر مشتمل سیر الاقطاب، سیر الاولیا، گلزار ابرار، سیر العارفین اور آثار الصنادید جیسی کتابوں کا حاصل مطالعہ اور اقتباسات پر فریب انداز میں پیش کیے ہیں۔جس سے آپ اس کی مطالعاتی محنت اور عیاری کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کاش سازش کو سمجھا ہوتا
جس زمانے میں مغرب کی اتباع میں بھارت میں اسلام کو “صوفی اسلام اور وہابی اسلام” میں تقسیم کیا جارہا تھا اس وقت کچھ لوگ بڑے خوش تھے کہ اب صوفیوں کے دن پھرنے والے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے برساتی گھاس کی طرح صوفی تنظیمیں اگنے لگیں۔جابجا صوفی سیمینار اور صوفی سمپوزیم ہونے لگے۔تصوف کا نام لیکر اسلام دشمنوں سے گلبہایاں ہونے لگیں۔مسلم مخالفین کی چادریں لیکر مزاروں کے دورے شروع ہوگیے۔کاش انہیں سمجھ ہوتی کہ جو اسلام کا دشمن ہو وہ تصوف کا دوست کس طرح ہوسکتا ہے؟
جو ہمارے مذہب سے دشمنی رکھتا ہو وہ مسلک سے محبت کیوں کرے گا؟ مسلک ہو کہ مشرب، دونوں ہی مذہب ہی کا جز اور حصہ ہیں جب مذہب ہی پسند نہیں ہے تو مسلک سے پسندیدگی صرف فریب ہے سچائی نہیں، لیکن ہمارے جذباتی لوگوں کو بات سمجھ نہیں آئی، ایک چادر لیکر اور اپنی گاگر بھر کر انہیں لگا کہ میدان مار لیا، بس مسلم مخالفین کو حامیان تصوف بتا کر روشن مستقبل کے خواب سنجو بیٹھے۔انہیں لگتا تھا کہ بڑے بڑے منصب بس ملنے ہی والے ہیں
لیکن مخالف مخالف ہی ہوتا ہے اس لیے اب انہوں نے اپنا اصلی رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔حضرت خواجہ غریب نواز کی ذات پر حملہ اسی ذہینت کا پیش خیمہ ہے۔
خوب یاد رکھیں !
ان کی تیاری پوری ہے ان باتوں کو جذباتی باتوں سے کاؤںٹر نہیں کیا سکتا اگر کسی نے رسمی وروایتی انداز میں صوفیا کا دفاع کرنا چاہا تو منہ کی کھائے گا کیوں نے ہم نے بھلے تذکرہ صوفیا کی کتابیں نہ پڑھی ہوں لیکن انہوں نے بھرپور مطالعہ کر رکھا ہے وہ مطالعے کی روشنی میں ثابت کردیں گے کہ کتنے صوفیا جنگوں میں شامل تھے اور کتنے صوفیا نے کتنے لوگوں کو کفر سے اسلام میں داخل کیا۔
اس لیے ایکتا، محبت اور گنگا جمنا تہذیب جیسی باتوں سے انہیں خاموش نہیں کیا جاسکتا۔اس کے لیے آپ کو یقین واعتماد کے ساتھ صوفیا کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قبول اسلام کے حقیقی اسباب بیان کرنا ہوں گے۔تبدیلی مذہب کے بنیادی اسباب وعلل پر فاضلانہ گفتگو ضروری ہوگی۔اگر بہ کمال حکمت ان موضوعات کو سنبھالا گیا تو یقیناً دشمن کا ہر وار ناکام ہوگا لیکن کوری جذباتیت یا خوشامدی لہجہ اپنایا گیا تو ناکام بھی ہوں گے اور ذلت وخواری بھی اٹھانا پڑے گی۔
حکومتی سختیاں اور ہمارے رویے