خود کشی اسلام کی نظر میں مع اسباب و تدارک
خود کشی اسلام کی نظر میں مع اسباب و تدارک
الحافظ فرحان المصطفیٰ النظامی الحنفی المدنی
خود کشی وہ غیر فطری اور غیر اخلاقی عمل ہے جس کا تصور کسی قوم یا کسی بھی مذہب میں نہیں ملتا ہے، اگر آپ خود کشی کے واقعات کا باریکی سے مطالعہ کریں گے تو یہ نتیجہ نکل کر آئے گا کہ خود کشی عالمی سطح کا نہایت ہی سنگین مسئلہ ہے ،جس کے زد میں آنے والے افراد کی عمر عموماً 15 سے 35 سال کے درمیان ہوتی ہے،تحقیقاتی ایجنسیاں بتاتی ہیں کہ عالمی سطح پر ہر 40 سیکنڈ میں خود کشی کے باعث ایک زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جاتا ہے۔
اور اگر وطن عزیز ہندوستان کی بات کریں تو ہر چار منٹ میں ایک اور ہر روز 381 خودکشیاں ہوتی ہیں اسی طرح سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ خودکشی کرتے ہیں جس کے باعث 6 لاکھ سے زیادہ خاندان متاثر ہوتے ہیں۔ تنگ آکر اپنے آپ کو موت کی آغوش میں پیش کر دینے کو “خود کشی “کہتے ہیں۔
لیکن مذہب اسلام میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے کیوں کہ انسان کا وجود اس کی ذاتی ملکیت یا اس کی محنت کی کمائی کا حصہ نہیں بلکہ اللہ جل سبحانہ کا عطیہ ہے اور کسی کو ناحق قتل کردینا یا خود کو موت پر پیش کر دینا اسلامی نظریات سے متصادم ہے کیوں کہ موت کا مالک حقیقی اللہ ہے۔
حدیث پاک میں ہے اللہ کے نبیﷺ ارشاد فرماتے ہیں: فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا ترجمہ:تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔ (صحيح البخاری،ج،٢ص،٦٩٧،رقم الحدیث ١٨٧٤)
اس حدیث پاک سے واضح ہوتاہے کہ ہمیں اپنے جسم و جان اور اعضاء کی حفاظت کا کس قدر ذمہ دار بنایاگیا ہے، اسی لیے مذہب اسلام نے بےجا کسی کو قتل کرنے یا خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے واضح طور پر منع فرمایا ہے۔
بے جا کسی کو ہلاک کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ (سورة المائدة،آيت٣١)
ترجمہ: جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔
خود کی ہلاکت کے متعلق ارشاد فرمایا :
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (سورۃ البقرۃ، آیت ١٩٥)
ترجمہ: اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا (سورۃ النساء،آیت٢٩,٣٠)
ترجمہ: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ بیشک اللہ تم پر مہربان ہے،اور جو ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ اسی طرح حدیث پاک میں بھی خود کشی کرنے والے کے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں۔
حدیث پاک میں ہے:
عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيئٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ. حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری احادیث کریمہ ہیں جن میں خودکشی کرنے والے کے متعلق وعیدیں آئی ہیں۔
خودکشی کے اسباب:
یہ بات بھی اہمیت سے خالی نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص یک لخت موت کو گلے لگانے کا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ وہ پہلے اند اندر گھٹن محسوس کرتا ہے اور دھیرے دھیرے پلاننگ کرکے اس حرام اور غیر اخلاقی و غیر معاشرتی فعل کا ارتکاب کرتا ہے۔
ماہرین لکھتے ہیں کہ خودکشی کے جو بنیادی اسباب ہیں، وہ ہیں: مالی مسائل اور خاندانی مسائل جن میں سے جہیز جیسی رسم بد بھی سر فہرست ہے مگر اس کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں جو خود کشی کا باعث بنتی ہیں مثلاً:غربت، بیروزگاری، مایوسی، افسردگی، غصہ، افراتفری، بہیمانہ تشدد، ناکامی، احساس کمتری اور امتحان میں پوزیشن کا نہ آنا اور بے جا عشق مجازی کا شکار ہونا یا ایسی محبت جس محبت کا مستحق ہے اسے نہ مل پانا یہ سب اسبابِ خودکشی میں شامل ہیں، اسی طرح بے جا سختی اور سکون کا حاصل نہ ہونا وغیرہ بھی اسباب کا حصہ ہیں
علامات و تدارک:
ماہرین نفس کا کہنا ہے جو شخص خود کو خودکشی کی آگ میں جھونکنے کی پلاننگ کرتا ہے تو وہ اپنے روز مرہ کی زندگی میں ناقابل یقین بدلاؤ کرتا ہے یا تو وہ حد سے زیادہ خوش یا حد سے زیادہ غمگین رہنا شروع کردیتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے کہتا پھرتا ہے کہ میں زندگی سے مایوس ہو چکا ہوں اسے اب جینے کا دل نہیں کر رہا اور اب میں زندگی سے ناامید ہو چکا ہوں، یا یہ دنیا میرے لیے باعثِ عذاب معلوم ہوتی ہے وغیرہ۔
یاد رکھیں! ان تمام مسائل کی بنیاد پر خودکشی کرلینا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ کئی دیگر مسائل کو بھی جنم دیتا ہے، کیوں کہ آپ بظاہر ایک فرد ہیں لیکن آپ کے گھر والے آپ کے اندر پوری دنیا دیکھتے ہیں، آپ کے گھر والے آپ کا رستہ تک رہے ہوتے ہیں والدین کو آپ کےقدموں کی آہٹ کا انتظار ہوتا ہے لہذا اپنے منفی سوچ کو تبدیل کیجیے خود کی زندگی کی پرواہ کیجیے اور انسانی رشتوں کا احترام کیجیے۔
اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہوئے بغیر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیجیے ایسا کرنے سے آپ کی زندگی بھی محفوظ ہو سکےگی اور آخرت میں دوگنا اجر کے مستحق بھی ہوسکیں گے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
ترجمہ: اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں:ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ،آیت ١٥٦)
اس کے علاوہ کثرت سے تلاوتِ قرآن کا اہتمام کیجیے اور تمام آلام و مصائب کو پس پشت ڈال کر اللہ کی رضا پر راضی رہیے، ان شاء اللہ خودکشی جیسی آفت کے وساوس سے محفوظ رہیں گے۔
ہوکے بے چین وہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اللہ تعالیٰ ہمیں خود کشی سے محفوظ رکھے اور رضائے الٰہی پر زندگی گزر بسر کرنے کی توفیق بخشے آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ۔
Pingback: اسلام اور ذاتی رجحانات ⋆ یاسر رمضان مدنی