پورا اسٹاف بدلیں گے

Spread the love

پورا اسٹاف بدلیں گے

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)

ہمارے ایک ساتھی شاملی کے ایک مدرسے میں پڑھاتے ہیں ، وہ جگہ کی تلاش میں تھے ، انہوں نے بتلایا کہ میں جس مدرسے میں پڑھاتا ہوں وہاں کے مہتمم صاحب اساتذہ کا پورا اسٹاف بدلنا چاہ رہے ہیں ۔

یہ ایک المیہ ہے کہ شخصی اور ذاتی مدارس کے اساتذہ پر سبکدوشی کی تلوار ہر وقت لٹکی رہتی ہے ، مہتمم صاحب کا خیال ہوتا ہے کہ اساتذہ جہاں پرانے ہوئے تو جڑ پکڑ جاتے ہیں اور مقابل بن جاتے ہیں مزید یہ کہ تنخواہ بھی بڑھا کر دینی ہوتی ہے ، دوسری طرف نئے اساتذہ ”جی حضوری“ بھی اچھی کرتے ہیں اور تنخواہ بھی از سر نو دینی ہوتی ہے ۔

اساتذہ کرام سمجھ لیں کہ جب تک آپ لوگ بولو گے نہیں اپنے حق اور انصاف کے لئے کھڑے نہیں ہوں گے ، تمام مدارس کے اساتذہ اپنی یونین نہیں بنائیں گے اور متفقہ طورپر وحدہُ لا شریک مہتمموں کے خلاف نہیں لڑیں گے تب تک تمہارے مسئلے حل نہیں ہوں گے ۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ جو مدرسہ مسلمانوں کے چندے سے چل رہا ہے وہ مدرسہ شرعاً کسی بھی مہتمم کی ذاتی ملکیت نہیں ہوسکتا تو ایسے میں شخصی اور ذاتی مدرسے کا تصور ہی سرے سے غلط ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مہتمم حضرات کے خلاف کوئی قدم اٹھانا بڑا مشکل کام ہے ، اس لیے کہ مہتمم حضرات بہت چالاکی سے بڑے مدارس کے مہتمم حضرات اور علاقے کے بزرگانِ دین پر اور کچھ نیتا قسم کے لوگوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اور پھر یوں اپنی ایک پکڑ بنالیتے ہیں ایسے میں اساتذہ کرام تنہا رہ جاتے ہیں۔

حل کیا ہے ؟

جائز اور بہتر حل تو یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جمعیت علمائے ہند وغیرہ جیسے بڑے اداروں اور بڑی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اس طرف دھیان دیں مہتمم حضرات اور کمیٹیوں کی بے لگام آمریت کے خلاف جامع منصوبہ پیش کریں ، مزید یہ کہ جس طرح عائلی مسائل کے نپٹارے کے لیے دارالقضاء قائم کیے گئے ہیں بالکل اسی طرح مدارس و مساجد کے اساتذہ و ائمہ کرام کے لیے بھی دار القضاء قائم کریں تاکہ اس مظلوم طبقے کی بھی داد رسی ہوسکے اور ان کے سر سے بے وجہ سبکدوشی کی تلوار ہٹ سکے ۔

قارئین کرام! اچھی طرح سمجھ لیں ایسا کچھ نہیں ہوگا ، کیونکہ ہماری مذہبی قیادت کو اور ان کے جلسے جلوسوں کو وحدہُ لا شریک مہتمم حضرات کی اور ان کے اساتذہ کرام کی اور طلباء کی بڑی ضرورت ہے یہ ہی طبقہ مذہبی قیادت کی ایک کال پر بڑے بڑے میدان بھردیتا ہے اور بیوقوفوں کو ”عظیم ملی راہنما“ بنادیتا ہے اور بدلے میں صرف حضرت کی توجہ مدرسہ کا تصدیق نامہ اور جنت کا ٹکٹ لیتا ہے ۔

بی جے پی کو بھی اپنے میدان بھرنے کے لئے ایک ایک ہزار روپے ہر شریک کو دینے ہوتے ہیں ، مگر مدارس کے اساتذہ کرام اور طلباء مہتمم کے ایک حکم پر آگے آگے چل دیتے ہیں ، ہم کتنے معصوم ہیں ؟ ؟

دوسرا حل جائز تو ہے مگر ……… اور یہ حل مہتمم حضرات کی آمریت پر لگام بھی کس دیگا مگر ملکی حالات کے اعتبار سے زیادہ بہتر نہیں ہے ، مزید یہ کہ نتائج کے اعتبار سے ملی اداروں کے لئے تباہ کن بھی ہوسکتا ہے ۔

وہ حل یہ ہے کہ ملکی قانون کا سہارا لیا جائے مہتمم حضرات کو عدالتوں اور پولیس اسٹیشن میں گھسیٹا جائے ان کی تشریف پر پولیس کے ڈنڈوں کی مہر لگوائی جائے ، مہتمم حضرات کے سبکدوشی کے یکطرفہ فیصلوں کے خلاف عدالت سے حکم امتناعی Stay order حاصل کیا جائے ، وغیرہ وغیرہ ۔

مذکورہ دونوں حل میں سے کوئی سا بھی اختیار کیا جائے یا کوئی تیسرا حل سوچا جائے لیکن یہ ایک ضرورت بن چکی ہے ، اگر اس المیے کا وقت پر حل نہیں نکالا گیا تو چندہ خور مدارس کی مزید بھرمار ہوجائے گی کیوں کہ مدرسے سے علیحدہ ہونے والے استاد وحدہُ لا شریک مہتمم ہی بنتے ہیں اور پھر ملت کی دولت پر وحدہُ لا شریک مہتمم بن کر مزے اڑاتے ہیں ، اساتذہ کرام جن کی شبانہ روز محنت سے علماء کرام و حفاظ کرام تیار ہورہے ہیں چاپلوسی اور غلامی کی زندگی گزارتے رہتے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *