راز درون خانہ
راز درون خانہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
انسان کی ذہنی وجسمانی ساخت اللہ رب العزت نے ایسی بنائی ہے کہ اس کے احساسات ، مشاہدات ، خیالات ، معلومات اس کے ذہن ودماغ میں محفوظ رہتے ہیں، کچھ شعور کی گرفت میں ہوتے ہیں
اور کچھ تحت الشعور میں محفوظ رہا کرتی ہیں، تھوڑی سی تحریک سے وہ شعور کی گرفت میں آجاتی ہیں،آپ نے بار ہا دیکھا ہوگا کہ ایک آدمی بولتے بولتے رک جاتا ہے ، آگے جو کہنا چاہتا ہے وہ اس کی گرفت میں نہیں آ رہا ہے
وہ خاموش ہو کر ذہن پر زور ڈالتا ہے، تو وہ بات یاد آجاتی ہے، اورسلسلہ کلام جاری ہو جاتا ہے۔
ا س صورت حال کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کسی دوسرے کو اپنے معاملات اور حالات میں جس قدر شریک کرنا چاہتے ہیں، اسی قدر بتاتے ہیں، آپ کی زندگی کے بہت سارے واقعات جنہیں آپ پردۂ خفا میں رکھنا چاہتے ہیں، اسے کوئی آپ سے اُگلوا نہیں سکتا،تا آں کہ آپ خود اس کو طشت از بام کرنا چاہیں
اسی لیے ہپنا ٹزم, نار کوٹسٹ اور دواؤں کے اثرات کے ذریعہ تحت الشعور سے چیزوں کے نکالنے کو قانونا جرم قرار دیا گیا ہے اور مجرموں پر بھی اس کا استعمال بغیر عدالت کی اجازت کے نہیں ہوتا، قانونی اصطلاح میں اخفاء راز کو رائٹ ٹو پرائیویسی(Right to privacy)کہتے ہیں، آپ گھر میں کیا کھا رہے ہیں؟ بیوی بچوں کے ساتھ کس طرح رہتے ہیں؟
کس کو فون کر رہے ہیں؟ اور کس کس سائٹ پر مشغول رہے ہیں، اسے جاننے کا حق باہر کے لوگوں کو نہیں ہے ، یہ قدرت کی جانب سے دیا گیا حق ہے اور سماجی سوچ ہے، بند گھروں کے اندر جھانکنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے، اس اصول کا خیال رکھا جانا چاہیے،ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہیے
اللہ رب العزت نے تجسس سے منع کیا ہے۔ ’’ولا تجسسوا‘‘ ٹوہ میں مت پرو۔ترقی کے اس دور میں یہ خیال ختم ہو تا جا رہا ہے ، درون خانہ تک پہونچنے کی مذموم کوشش ہر سطح پر ہو رہی ہے، بھیجے ہوئے خطوط کی اسکیننگ اور فون ٹیپ کیے جانے کی بات اور روایت عام سی ہو گئی ہے ، جس کے نتیجے میںنجی راز طشت ازبام ہو رہے ہیں
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ نجی راز کی حفاظت ہمارا بنیادی حق ہے یا نہیں،اور ہندوستانی دستور اس کی کس حد تک اجازت دیتا ہے ، یہ سوال اس لیے اٹھ کھڑا ہوا کہ سرکار سارے کام سے آدھار کارڈ کو جوڑ رہی ہے، آدھار کارڈ میں جومعلومات ہو تی ہیں، وہ نجی ہیں اور اس صورت میں راز ، راز نہیں رہ پائیں گے۔
Pingback: موت کے بعد کی زندگی ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: دوستانہ ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: اتر پردیش گورنمنٹ کی نئی چال ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی