خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات
خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
مولانا ابو سفیان بن سعید ندوی (ولادت 3 جولائی 1973) بن سعید احمد (م2017) بن قاضی ظفر بن قاضی اشمل ایک بڑی علمی شخصیت ہیں، انہوں نے ندوۃ العلماء سے 1994 میں فضیلت اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ سے 1996 میں عربی میں ایم اے کیا ہے، تدریسی زندگی کا آغاز مظاہر علوم دار جدید سہارن پور سے 1997 میں کیا، 1998 کے آخر میں وہ جدہ سعودی عرب چلے گیے جہاں انہوں نے سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا، 2017 سے 2020 تک ان کی وابستگی مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسیٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے رہی
ان دنون گذشتہ تین ماہ سے وہ قاضی نور الحسن میموریل اسکول پھلواری شریف پٹنہ سے وابستہ ہیں، یہ اسکول امارت شرعیہ کا ہے اس لیے کہنا چاہیے کہ اس ادارہ کے واسطے سے وہ امارت شرعیہ سے منسلک ہیں، مولانا عربی اور اردو زبان کے ماہر ہیں، انہیں ان زبانوں میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا اچھی طرح آتا ہے۔
ان کی تصنیفی صلاحیت کے مظہر کے طور پر تین کتابیں، والدین کی فضیلت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے پیار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے پیکر شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، مولانا کی چوتھی کتاب خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات ہیں، جو ابھی پریس جانے کو تیار ہے اور میرے زیر مطالعہ ہے۔ عورت کے سلسلے میں دنیا افراط وتفریط کی شکار رہی ہے
بعض مذاہب میں اسے دیوی کا روپ دے کر اس کی پوجا کی جانے لگی، بعضوں نے اسے قدموں کی دھول سمجھ کر ذلیل وخوار کیا، اور سماج میں اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا، جس سے انسانیت شرمسار ہوئی، ایک زمانہ تک اسے صرف خواہش نفسانی کی تسکین کا ذریعہ جانا گیا، اس کی اپنی مرضی اپنی خواہش کچھ نہیں ہوتی تھی، وہ مرد کے تابع ہوتی تھی، اور اسے مرد کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنی ہوتی تھی
ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اسے شوہر کے مرجانے کے بعد اس کے ساتھ ہی ’’ستی‘‘ چتا پر جل کر مرجانا ہوتا تھا۔پھر ایک دور وہ آیا جب عورتوں کی آزادی کے نام پر اسے بے پردہ کیا گیا، رقص وسرود کی محفلوں میں اسے آئٹم گرل کے طور پر پیش کیا جانے لگا، بڑی بڑی مشینوں سے لے کر ماچس کی ڈبیا تک اس کی نیم برہنہ تصویریں اشہارات میں لگائی گئیں اور ان کو خوش کرنے کے لیے فلمی دنیا میں ’’اسٹار‘‘ اور طوائفوں کے حلقے میں ’’سیکس ورکر‘‘ کا نام دیا گیا
اس کے خورد ونوش کی ذمہ داری مردوں پر تھی، لیکن حقوق نسواں کا بلند وبالا نعرہ لگا کر انہیں معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنا دیا گیا، اب عورت بچے پیدا کرتی ہے، پوستی پالتی ہے، چولھا چوکا کرتی ہے اور روزگار کے حصول کے لیے مختلف کمپنیوں، فیکٹریوں، اسکولوں کالجوں اور گھروں میں کام کرتی ہے، مرد ڈیوٹی سے آکر آرام کرتا ہے اور عورتیں گھر آکر بھی گھریلو کاموں سے لگ جاتی ہیں، یعنی اسے کسی وقت آرام نہیں ہے
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب گھر میں کئی کمانے والے ہوتے ہیں تو معاشی ترقی ہوتی ہے، حالاں کہ عورت کا اصل کام بچوں کی پرورش وپرداخت ہے، انہیں تربیت دے کر اچھا شہری بنانا ہے، اب بچے دائی اور نوکروں کے حوالہ ہوتے ہیں اور مائیں گھر سے باہر کسی دفتر میں مفوضہ امور انجام دینے میں لگی ہوتی ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک مرید صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ عورتیں مجاہد تیار کرنے والی کمپنی ہے
اگر کمپنی کو ہی میدان میں لے کر چلے جاؤگے تو مجاہد کہاں سے پیدا ہوں گے۔ان دونوں نظریات کے بر عکس اسلام نے عورتوں کی عفت وعصمت کی حفاظت پر زور دیا، بعض شروط کے ساتھ اسے کام کرنے کی بھی اجازت دی، والدین کی متروکہ میں اس کا حصہ مقرر کیا، شادی بیاہ میں اس کی اجازت کا خیال رکھا جانے لگا
شوہروں کو اس پر ظلم وزیادتی سے روکا گیا، وہ ماں، بہن بیوی بیٹی جس حیثیت میں ہوں اس کے حقوق مقرر کیے، وفا شعاری اور حسن سلوک کی تلیقن کی اس طرح عورتیں افراط وتفریط کی زندگی کے بجائے اعتدال کی زندگی گذارنے لگیں ایسااعتدال جس میں مرد وعورت دونوں کے حقوق کی رعایت کرکے گھر کو جنت نشاں، پرسکون اور ’’ٹینشن فری زون‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔
مرد جو عورتوں سے اپنی آنکھیں سیکنے اوراسے شہوت رانی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے، محفلوں کی رونق وتابانی اسی کے دم قدم سے مانتا ہے وہ اسلام کی معتدل تعلیمات جو عورتوں کے حوالہ سے ہے اس میں کیڑے نکالتا ہے، تنقیدیں کرتا ہے اور کبھی کبھی مسلمان عورتوں کے ذریعہ بھی سوالات کھڑے کرتا ہے
ان کا منطقی اور سماجی جواب دینا آج کی ضروت ہے۔ مولانا ابوسفیان سعید ندوی جن کی علمی صلاحیت اور تدریسی خدمات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے،انہوں نے اس موضوع پر اسلام کی جامع تعلیمات کا تفصیلی جائزہ اپنی کتاب ’’خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات‘‘ میں لیا ہے، انہوں نے اسلام سے پہلے عورت کا مقام اور عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت پر اپنا مطالعہ پیش کیا ہے، پھر اسلام میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے جو حقوق ہیں بشارتیں اور حسن سلوک، اطاعت وفرماں برداری پر ثواب کا جو ذکر قرآن واحادیث میں آیا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے
صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مولانا نے اپنی باتیں اپنے تبصرے اس کتاب میں کم اور احادیث کا ترجمہ زیادہ پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب معتبر اور اس کے مندرجات قابل اعتماد ہیں، اگر مولانا نے اس کتاب میں واقعات ومسائل کا ذکر احادیث کی تخریج کے ساتھ کیا ہوتا تو یہ کتاب زیادہ مستند ہوجاتی، مولانا نے یہ کتاب عام مسلمانوں کے لیے لکھی ہے
ممکن ہے یہ ذہن میں رہا ہو کہ حوالہ جات کے ذکر سے کتاب بوجھل ہو جائے گی اورقاری کے مطالعہ میں کسی حد تک رکاوٹ بھی، کتاب میں پردہ، نگاہ کی حفاظت، اجنبی کو دیکھنے اورباریک وچست لباس پہننے کی حرمت اور اسلام میں رہبانیت کی ممانعت کے تعلق سے بھی اچھا خاصہ مواد موجود ہے، جس سے مولانا ابو سفیان صاحب کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔ اردو میں اس موضوع پر بہت ساری
کتابیں موجود ہیں، ان میں عورتوں کے حقوق سیرت نبوی کی روشنی میں مصنفہ نغمہ پروین، عورت اسلامی معاشرہ میں از مولانا نور الحق رحمانی، مولانا رضی الاسلام ندوی اور مولانا جلال الدین انصر عمری، اسلام اور عورت از مظہر الدین صدیقی، عورت اور اسلام وغیرہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا کی یہ کتاب تحصیل حاصل ہے، ہرمصنف کی اپنی فہم اور سوچ ہوتی ہے
اس لیے موضوع کی یکسانیت کے باوجود کتاب میں گفتگو صاحب کتاب کے نقطۂ نظر سے آتی ہے اور ہر گلہائے رنگ وبوئے دیگر است کے مصداق قاری کے مشام جاں کو الگ الگ انداز میں معطر اور مختلف انداز میں معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے، اس لیے ایک موضوع پر کئی کتابوں کو دیکھ کر مصنف پر غیر ضروری محنت کا الزام چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے
مولانا ابو سفیان صاحب کی کتاب کا مطالعہ اسی نقطۂ نظر سے کرنا چاہیے۔ مولانا کو اس کتاب کی تالیف پر مبارکباد دیتا ہوں اور دل سے دعا کرتا ہوں کہ اس کتاب کا فیض عام وتام ہو اور ان کا قلم اسی طرح رواں دواں رہے اور صحت وعافیت کے ساتھ وہ ایسی طویل عمر پائیں جس میں مشقت وپریشانی، تعب وتکان کا گذر نہ ہو۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔