رمضان کی راتوں میں سحری اور تراویح میں مائک کا استعمال کیسے کریں

Spread the love

رمضان کی راتوں میں سحری اور تراویح میں مائک کا استعمال کیسے کریں،جمال اختر صدف

مذہب اسلام میں جمیع عبادات کا تعلق براہ راست خلاق کائنات سے ہے، پھر وہ چاہے رمضان المبارک کے روزے ہوں یا تراویح ،مسلم اکثریتی علاقوں میں شروع سے یہ رواج عام ہے کہ وہ تراویح کی نماز لاؤڈ اسپیکر سے پڑھتے ہیں اور سحری میں بھی اس کا خوب استعمال کرتے ہیں ،ایسا کرنے کے پیچھے ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہم لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں

چوں کہ وہاں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے کسی کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا ہے،الیکن اس کے بر عکس دیہی علاقوں میں جہاں مسلمان قلت میں اور باضابطہ ان کے یہاں پانچوں وقت اذان و جماعت کے ساتھ نماز کا اہتمام نہیں ہوتا ہے،جمعہ میں تھوڑا بہت اہتمام دیکھنے مل جاتا ہے

لیکن رمضان شروع ہوتے ہی سحری اور تراویح میں شہری علاقوں کی طرح وہ بھی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں،بظاہر ان کے اس عمل میں دینی جزبہ کار فرما ہوتا ہے لیکن ملک کے موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کے جزبات کہیں نہ کہیں اختلاف و فسادات کے باعث بنتے جا رہے ہیں

سوشل میڈیا و دیگر ذرائع ابلاغ سے ہر دن خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ لاؤڈ اسپیکر کو لے کر ہنگامہ ہوا ،یا مسجد سے ہارن اتروا دیا گیا،اسلام امن و سکون اور بھائی چارے کا مذہب ہے ، آپکی عبادت صرف اور صرف رب کے لیے ہونی چاہیے

اس میں ریا کاری کا کوئی بھی عنصر عبادت کو برباد کر دیتا ہے،جو لوگ مسجد میں نماز کے لیے نہیں آتے ہیں تراویح کے دوران ان کو آپ لاوڈ سپیکر کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ،جنہیں نماز و تراویح ادا کرنی ہوتی ہے وہ عشا سے قبل ہی مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں

بلکہ بعض مقامات پر تو تراویح پڑھنے والوں میں اتنا جوش ہوتا ہے کہ وہ اذان سے آدھا گھنٹے قبل ہی مسجد کی پہلی صف میں آکر بیٹھ جاتے ہیں ،وہیں دوسری جگہ ایسی بھی مسلمان مل جایئں گے جو ایک بھی تراویح نہیں پڑھتے

اب جنہیں تراویح سے مطلب نہیں انکے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بالکل درست نہیں،چہ جاے کہ وہ تراویح کے دوران لاؤڈ اسپیکر پر ہونے والی تلاوت کو سنتے بھی ہوں گے یا اپنے عمل مصروف ہی رہتے ہوں گے ،دوسرا نقصان کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جاے تو خاموشی سے سن نے کا حکم ہے

اس وقت جو مسجد سے باہر ہوتے ہیں وہ اکثر کھیل تماشوں اور ہنسی مزاق میں لگے رہتے ہیں،اس لیے تراویح کے دوران لاؤڈ اسپیکر کا اتنا ہی استعمال کیا جاے کہ جتنی ضرورت ہو،جیسے کہ مسجد کے باہر نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو،یا امام کی آواز باہر تک نہ پہنچ پا رہی ہو

دیہاتوں میں مشکل سے مسجد کی صفیں مکمل ہو پاتی ہیں ،وہاں بھی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال وہ بھی بہت تیز آواز میں قطعاً مناسب نہیں،ابھی کے حالات کو دیکھتے ہوے عقل مندی و دانش وری سے کام لینا بہت ضروری ہے ،ایسے ہی سہری میں لاؤڈ اسپیکر سے بہت تیز آواز میں جگایا جاتا ہے

بعض مقامات پر تو نعت و تقریر کی کلپس گھنٹوں بجائ جاتی ہیں ،یہ دور ترقی کا دور ہے سب کے گھر میں موبائل و دیگر اہتمام ہے کہ وہ سہری میں اٹھ جاتے ہیں،اور جنہیں روزہ رکھنا ہے انہیں جگانے کی ضرورت نہیں وہ خود اٹھ جاتے ہیں ان کا ایمان انہیں جگا دیتا ہے

بار بار لاؤڈ اسپیکر سے آواز لگانا یہ بھی درست نہیں،ہاں ایک بار جگا دینے میں کوئ قباحت بھی نہیں کہ لوگ احتیاطی طور جگ ہی جاتے ہیں، کسی کی آنکھ نہ کھل سکی ہو تو وہ بھی جگ جائیں

رمضان المبارک پارلیمانی انتخابات سے بالکل قریب واقع ہو رہا ہے ،ایسے وقت میں بالکل احتیاط کی ضرورت ہے ، تاکہ ہمارے مخالفین کو ماحول خراب کرنے کا کوئ موقع نہ ملے،لاؤڈ اسپیکر کی آواز حکومت کی گائیڈ لائن کے حساب سے رکھیں

جتنے ہارن کی پرمیشن ہے اتنا ہی استعمال کریں ،فجر کے بعد مائک میں زور زور سے سلام پڑھے سے اچھا ہے کہ مسجد میں موجود نمازی بغیر مائک کے خود ایک ساتھ بلند آواز سے سلام پڑھیں

جمعہ میں تقریر کے لیے ائمہ حضرات مسجد کے اندر کا ساؤنڈز استعمال کریں،ہماری تہذیب اور عبادت دونوں شان دار ہیں،اس میں کوئی شک نہیں لہذا ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے ہمارے مخالفین کو ماحول برباد کرنے اور فساد جیسی صورت پیدا کرنے کا موقع حاصل ہو،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *