ناکام شہزادے اور دین کی سوداگری
قسط اول………………
محمد شاہد علی مصباحی
روشن مستقبل دہلی
تحریک علماے بندیل کھنڈ
جس طرف دیکھو شریعت سے کھلواڑ کا دورِ دورہ ہے، جہاں نظر کرو دین کے مسلمات سے چھیڑ چھاڑ کرنے والے نظر آ رہے ہیں اور جس سمت توجہ کرو اسی سمت اجماع امت کیا اجماع صحابہ تک کو چیلنج کیا جارہا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والے کوئی عام لوگ نہیں؛ خاص لوگ ہیں بلکہ اخص الخاص ہیں۔ اور گہری نظر سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں اکثر تو وہ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دین ہمارا ہے۔باقی تخریب کار یا تو انہیں کی پیروی کرنے والے ہیں، یا ان کی دیکھا دیکھی وقتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والے بڑے خاندانوں کے بے علم، بے بصیرت اور تدبر کی دولت سے خالی لوگ۔
جب ان سے کچھ بن نہیں پڑتا، تعمیری کام کرنے کی صلاحیت ان میں سرے ہی سے نہیں ہوتی، اور عزت چاہیے اپنے اکابرین جیسی! زندگی کی ٹھاٹ باٹ کا عالم یہ ہے کہ جسے دیکھ کر اہل دنیا بھی شرماجائیں۔
اس ٹھاٹ باٹ کو مینیج کرنے کے لیے جس قدر مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے وہ کمانے کی ان میں صلاحیت نہیں۔
تو یہ لوگ اپنے بڑوں کے نام کا فائدہ اٹھانے کے لیے اسپاٹ لائٹ میں بنے رہنا چاہتے ہیں جس کے سبب یہ ایسے بے تکے بیان جاری کرتے ہیں جن سے اختلاف پیدا ہو اور یہ خبروں کی سنسنی بنے رہیں۔
ان کے اکابرین کے بڑے ہونے کی وجہ سے شخصیت پرست لوگ ان کی بے سر پیر کی بھی اڑاتے رہتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
مرے اشعار اڑ جائیں تو اس میں کیا تعجب ہے
جناب شیخ تو اکثر اڑا دیتے ہیں بے پر کی
جب کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بزرگ شخصیات کو تسلیم کیا جائے، ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے؛ مگر ان کی ان پڑھ، جاہل اور بے بصیرت اولاد کو ڈھونے کی ضرورت نہیں!… ڈاکٹر اقبال نے اسی کی ترجمانی کرتے ہوے کہا ہے:
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر لائق میراث پدر کیوں کر ہو
اگر بیٹے نے باپ کے علم کو حاصل ہی نہیں کیا ہے تو وہ بیٹا باپ کی علمی وراثت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں کا بیٹا ہے کیسے غلط ہو سکتا ہے تو ان کے لیے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا یہ شعر کافی ہوگا۔
پسر نوح با بداں بنشست
خاندان نبوتش گم شد
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو پائیں گے کہ دین کا زیادہ اور بڑا نقصان بڑوں کے نالائق بیٹوں ہی نے کیا ہے۔ میں نام ذکر کر کے کسی نئی بحث کو ہوا نہیں دینا چاہتا مگر کھلی آنکھ سے تاریخ پر سرسری نظر رکھنے والا ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے۔
اور پھر سورج کے وجود کے لیے دلیل دینے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، کیوں کہ جسے کھلی آنکھوں سے سورج نظر نہ آئے، اسے آپ کی دلیل کیا خاک نظر آئے گی…؟
بڑوں کے بچے کیوں بگڑتے ہیں …؟
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہ دے کر انہیں اپنے ساتھ اپنے حلقۂ اثر میں لیے پھرتے ہیں، پروگراموں میں اپنے ساتھ اسٹیجوں پر بڑی بڑی عالیشان کرسیاں لگوا کر بٹھاتے ہیں۔
پھر محبین حضرات ان کم سن بچوں کے خوب ہاتھ پیر چومتے اور نذرانہ پیش کرتے ہیں، جس سے اُن کے دل سے حصول علم کی راہ میں آنے والی پر خار وادیوں سے گزرنے کی مشقت کا خیال تک نکل جاتا ہے اور وہ بچہ اسی چکا چوندھ سے بھری دنیا کا عادی ہو جاتا ہے۔
(یہ سب تو اس کو ایک دن مل ہی جانا ہے، مگر تعلیم کا وقت نکل گیا تو پھر دولت علم کبھی ہاتھ نہیں آنی۔ لہذا ان کی چوما چاٹی سے زیادہ فکر ان کی تعلیم و تربیت کی ہونی چاہیے۔)
پھر ایک دن باپ کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے، اور یہ کسی لائق نہیں ہوتے، اکثر متعلقین دور ہو جاتے ہیں مگر کچھ اندھی عقیدت والے بچے رہتے ہیں جو اب بھی ان کی آنکھیں کھولنے کے بجائے بے جا حمایت کا دبیز پردہ ان کی آنکھوں پر ڈالتے جاتے ہیں جس سے یہ اور بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
پھر ایک دن تقلیل حلقۂ اثر، تقلیل تحائف کاباعث بنتی ہے تو یہ کسی کی بھی گود میں بیٹھ کر اس کا کھلونا بننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اور وہ لوگ ٹکڑے ڈالتے ڈالتے کب انہیں ایمان کا سودا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں یہ اپنی کم علمی یا بے علمی کی وجہ سے سمجھ ہی نہیں پاتے۔
پھر اگر علماے حق اِن جیسے لوگوں کی غلط باتوں کی گرفت کرتے ہوے اصلاح کی کوشش کرتے ہیں تو اِنہیں بڑا نا گوار گزرتا ہے کہ اچھا!…….. مجھے ایسا بولنے کی جرأت؟………. اور پھر یہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر آگے بڑھتے ہی جاتے ہیں۔
انجام کار کب یہ اپنی انا کی تسکین اور علماے حق کی تذلیل کے چکر میں اپنے ایمان کا سودا کر کے غیروں کی کٹھ پتلی بن بیٹھتے ہیں انہیں خبر ہی نہیں ہوتی۔
ان میں سے کچھ صرف غیر ضروری اخراجات کی تکمیل کے لیے جانتے بوجھتے ہوے ان اغیار کا ساتھ دینے اور ان کی بولی بولنے لگتے ہیں، جو ان کی عیش و عشرت کا سامان مہیا کراتے ہیں۔
اور ان کے چکر میں سادہ لوح عوام بھی اپنے ایمان و عقیدہ سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بستیاں کی بستیاں اور علاقے کے علاقے بد دین ہوتے چلے جاتے ہیں۔
نتیجتاً آپ غور کریں گے تو حال ہی میں ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی شان میں گستاخی سے لیکر شریعت مطہرہ کی علانیہ خلاف ورزی کے درمیان سیکڑوں شرعی امور، اسلامی مسلمات اور اجماع امت سے انحراف کے واقعات آپ کی آنکھوں کے سامنے گردش کرتے نظر آئیں گے۔
ان سے کیسے بچا جائے…؟
سب سے پہلی ذمہ داری علما و مشائخ کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو چوما چاٹی اور نذر و نیاز کی دنیا سے دور رکھ کر تعلیم و تعلم کی پر خار وادی کا مسافر بنائیں، اور قناعت پسندی کی عادت ڈالیں۔ جس سے ان کی اولادیں کسی کی محتاج نہ ہونے کے ساتھ اپنی علمی بصیرت کی بنیاد پر کسی کے حسد، کسی کی چالبازی کا شکار ہوکر دین و ملت کا نقصان کرنے سے محفوظ رہیں۔
کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ بڑوں کے بعد خاندانی جھگڑے میں بھی کوئی جا کر تفضیلوں کی گود میں بیٹھ گیا، کوئی م.شرکین کا تو کوئی بد دین و بد مذاہب کا کھلونا بن کر رہ گیا۔
……….اگر علمی بصیرت ہوگی تو آپس میں لڑیں گے نہیں………. اگر لڑے بھی تو کم از کم اغیار کی کٹھ پتلی بن کر دین و ملت کا سودا تو نہیں کریں گے……
دوسری ذمہ داری ہمارے علماے کرام کی ہے کہ وہ عوام اہل سنت کو بار بار یہ بتائیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو بھی صرف اسی وقت تک ماننا ہے جب تک وہ اہل سنت و جماعت کے عقیدے پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی عقیدے اور اسلامی مسلمات سے پھرا، اس کی پیروی نہیں کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ علامۂ دہر ہو یا پیر مغاں یا بڑے باپ کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ببناگ دہل اعلان کرتے رہنا ہے: “لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق” ہی ہماری اصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اس اصل سے ہٹا۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس سے جدا ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ ہمارا استاد، ہمارا شیخ ہو یا ہمارے شیخ کا شہزادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کسی کی شخصیت تبھی تک تسلیم کی جائے گی جب تک وہ شخصیت شریعت مطہرہ کے اصولوں، دین کے مسلمات اور اجماع امت کو تسلیم کرے”۔
نوٹ: قسط دوم میں اچھوں کے چند بُرے اور بروں کے چند اچھے بچوں کی مثالیں پیش کی جائیں گی جن کی روشنی میں: “لا طاعۃ لمخلوق فی معصیت الخالق” کا قضیہ بخوبی سمجھ آ جائے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
11مئی 2024