ایک ملک دو تحریکیں دو نتائج
تحریر: انصار احمد مصباحی ایک ملک دو تحریکیں دو نتائج
ایک ملک دو تحریکیں دو نتائج
موجودہ گورنمنٹ کے دور اقتدار میں ، بھارت کی سر زمین سے دو عظیم تحریکیں اٹھیں اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔
آغاز اور درمیان دونوں کا یکساں تھا؛ لیکن دونوں تحریکوں کے انجام میں نمایاں فرق نظر آیا۔ ایک تحریک اپنے مقصد اور ہدف کے حصول میں حرف بحرف کام یاب ثابت ہوئی ، جب کہ دوسری تحریک نے درمیان ہی میں اپنی دم خم توڑ دی۔
اول الذکر زرعی قوانین مخالف کسان آندولن تھا اور دوسری شہریت ترمیمی قانون مخالف تحریک۔
آج کسان آندولن کے مظاہرین ، اپنی شرطوں کو منوا کر گھر لوٹ چکے ہیں اور ”سی اے اے“ مخالف مظاہرین کچھ تو اپنی تحریک بھول گئے ، کچھ عنوان تازہ کی تلاش میں لگ گیے اور چند حوصلہ مند باضمیر سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔
دونوں تحریکوں میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ ان دونوں تحریکوں کی یکسانیات دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ دونوں بی جے پی مخالف تھیں ، دونوں تحریکیں ملک میں اٹھنے والی تاریخی تحریکیں تھیں، دونوں نے بے گناہوں کی قیمتی جانیں گنوائیں
دونوں نے کورونا کی مار جھیلیں ، گودی میڈیا کی آنکھوں میں دونوں چبھیں، دونوں پولیس کا مشق ستم بنیں، ہر دو تحریک ، زعفرانی غنڈہ گردی کے شکار رہیں ، دونوں کا مطمح نظر کالے قوانین تھا ، عالمی اہمیت کے حامل ماہرین کی حمایت دونوں کے ساتھ رہی، مانگیں بھی یکساں تھیں ۔
بھارت کی یہ دو عدیم المثال تحریکیں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں، دونوں اس قابل ہیں کہ انھیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیے جائیں۔ کسان آندولن کو خالصتانی آندولن کہا گیا تو شہریت ترمیمی مخالف احتجاج کو پاکستانی، کسان آندولن کو سکھ اور ہندو دھرم میں بانٹنے کی کوشش کی گئی تو
CAA, NRC
مخالف تحریک کو ہندو مسلم میں تقسیم کرنے کی شازش رچی گئی۔ سی اے اے اور این آر سی قانون کی مخالفت میں اٹھنے والی تحریک ملک گیر تھی ، جب کہ کسان آندولن کے اثرات دوسرے علاقوں میں کم نظر آئے
شہریت ترمیمی قانون مخالف تحریک میں اکثریت پڑھی لکھی نوجوان نسل کی تھی، اس کے با وجود کسان آندولن تحریک کام یاب رہی اور سی اے اے مخالف تحریک سر تا پا نا کام۔ ہم یہاں اس کے وجوہات جاننے کی کوشش کریں گے:۔
ناکامی کےوجوہات:۔
اعلی قیادت کا فقدان : کسان آندولن تحریک میں ” سنیُکت کسان مورچا“ کے بینر تلے لگ بھگ 500 تنظیموں کے اتحاد و اتفاق کی طاقت کار فرما تھی
اس کی قیادت راکیش ٹکیت اور ان کے ہم نوا جیسے اعلی بصیرت اور سوجھ کے حامل قائدین کر رہے تھے؛ جب کہ ملکی پیمانے پر شروع ہونے والا ”شہریت ترمیمی ایکٹ“ مخالف احتجاج ، کسی مرکزی قائد کے بغیر ہی حق و انصاف کی لڑائی لڑنے کے لیے سر گرم عمل تھا۔
اس سادگی پہ کیوں نہیں مرجائیں اے خدالڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیںاعلی قیادت کے فقدان کی وجہ سے
CAA
مخالف تحریک میں ناپائیداری یقینی تھی ، سو ایسا ہی ہوا۔ کسی سیاسی جماعت نے سر پرستی کی ذمے داری نہیں لی، کانگریس نے خانہ پری کا کام انجام دیا، باقی سیکولر پارٹیوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیا۔
بے یار و مدد گار تحریک ، ذرا سی باد مخالف سے متزلزل ہو گئی۔ سیاسی عمل دخل: سنیُکت کسان مورچا پر سیاست کم ہوئی ؛ لیکن
CAA
مخالف تحریک پر سیاست حاوی رہی۔ ملک کے پر امن شہریوں کے احتجاجات اور اس کے اسٹیج کا سیاسی لیڈروں نے فائدہ اٹھایا ، جو مخلص تھے ، پولیس نے چن چن کر گرفتار کر لیا۔
چاپلوسی : شہریت ترمیمی ایکٹ کے معاملے میں اپنی ہی صف کے کچھ دلال قوم و ملت کا سودا کرتے نظر آئے اور صاف صاف حکومت کی چاپلوسی کے مرتکب ہوئے۔عدم توازن:سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرے پاے دار نہیں رہ پائے ۔
سارے مظاہرے علاقائی نوعیت کے تھے۔ شاہین باغ کا احتجاج سب سے نمایاں اور موثر رہا؛ لیکن بجاے اس کی حمایت اور اسے ”سنگھو بارڈر“ کی طرح تحریکی شکل دینے کے ، علاقائی لیڈروں اور قائدین نے اپنے اپنے شہر ، گاوں اور قصبوں میں احتجاجی خیمے لگا لیے۔
یہ ایک اعتبار سے درست تھا، پر اس سے کہیں زیادہ ضروری تھا کہ شاہین باغ تحریک کو اتنا مضبوط کیا جاتا کہ اس کا دائرہ کار کالا قانون کی منسوخی تک جاری رہتا۔ کیا احیا یا نشاة ثانیہ ممکن ہے؟۔
کسی بھی تحریک کے لیے استقلال اور پاے داری بہت ضروری ہوتا ہے۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جد و جہد جمہوریت کی لڑائی تھی ، اپنے حقوق کی لڑائی تھی ، آئین ہند کے تحفظ کی جد و جہد تھی، جو مطالبات منوانے تک باقی رہنی چاہیے تھی۔
ہمارا جوش اور ولولہ بہت جلد سرد پڑ گیا۔ اور تو اور ، جو طلبہ بے جا گرفتار ہوگیے تھے، ان کی رہائی کی مانگ تک صرف رسمی طور پر کیا گیا ، شرجیل امام، میران حیدر ، عمر خالد، صفورا زرگر ، خالد سیفی ، شاہ رخ پٹھان ، عشرت جہان جیسے حساس بچوں اور بچیوں کی رہائی کی خاطر ٹویٹر ٹرینڈ چلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا، کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں ہوا۔
ایسے میں آواز اٹھانے والے بھی ، پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے تحریک کی احیا کی۔
زرعی قوانین مخالف تحریک کو ، سی اے اے ، این آر سی احتجاج سے رہنمائی ملی تھی۔ سنکیت کسان مورچا کی کام یابی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ بی جے پی اقتدار میں جو قانون بنتا ہے ، وہ منسوخ بھی ہو سکتا ہے۔ زعفرانی پارٹی کا زور دھیرے دھیرے ٹوٹ رہا ہے۔
ایسے میں وہ بھارت کے اس طبقے کو بھی رجھانے کی کوشش ضرور کرے گی۔ دوبارہ منظم ہوکر سی اے اے اور این آرسی کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے؛ ورنہ تاریخ میں جب دو یکساں تحریکوں کے دو مختلف نتائج دیکھے جائیں گے ، ہمیں ناکام کہا جائے گا۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے۔
تحریر: انصار احمد مصباحی
پمپری ، پونہ
aarmisbahi@gmail.com
9860664476
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں