سہ ماہی نقیب الخلیج کا رباعی نمبر ایک مطالعہ
سہ ماہی نقیب الخلیج کا “رباعی نمبر” (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی، معلم چک غلام الدین ہائی اسکول،ویشالی بہار موبائل نمبر :7909098319 سہ ماہی نقیب الخلیج ادبی، تاریخی، ثقافتی، اصلاحی، اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ایک اہم اور نایاب رسالہ ہے، جسے گلف اردو کونسل کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے- یہ رسالہ گذشتہ دو سالوں سے مسلسل اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور اس کی اشاعت کے لیے مکمل کوشاں ہے
سہ ماہی نقیب الخلیج کا تازہ شمارہ ” رباعی نمبر “(جنوری تا مارچ 2025) 72/صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت، اور اس کا پس منظر مکمل، مدلل، اور مفصل پیش کرنے کی بھر پور سعی کی گئی ہے، جو ایک قابل تعریف اور مستحسن عمل ہے – رسالہ میں رباعیات اور اس سے متعلق اہم اور لائق مطالعہ مضامین،معلومات عامہ، اور قارئین ادب کے خطوط شامل ہیں- رسالے کی شروعات اداریہ سے ہوتی ہے
جسے مدیر محترم قاضی منصور قاسمی نے قلم بند کیا ہے، اس میں رسالے کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت کو کئی زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔فن رباعی کو مشکل فن گرداننے والوں کی مدیر نے گرفت بھی کی ہے۔ اس رسالے میں رباعیات پر جن قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں۔
اُن میں “احساس و ادراک: ایک فکر انگیز اد بی سوغات”(رفیق جعفر، مہاراشٹر)، “امجد حیدر آبادی در باب رباعی” (ڈاکٹر امیر حمزہ، جھارکھنڈ)، “اُردو میں رباعی کی روایت: ایک تعارف”(پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال)، “اردور باعیات: علامہ اقبال کے خصوصی مطالعہ کے ساتھ” (ڈاکٹر صالحہ صدیقی، الہ آباد)،” رباعی” (ڈاکٹر رحمت عزیز خان، چترالی)، “عبدالحق امام کی رباعیات پر ایک نظر” (سلیم انصاری، جبل پور )، “ر باعی کا شیدا: ڈاکٹر عبدالحق امام” (مصباح انصاری، گورکھپور)، وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
اِن مضامین کے ساتھ ساتھ تاریخ ادبیات فارسی اور دیگر حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رباعی، دیگر اصناف شعری کی طرح ایک قدیم اور عظیم صنف شاعری ہے، جو فارسی شعر وادب کے عین آغاز کے ساتھ ساتھ وجود میں آئی ۔۔اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دے کر ان پر بہت سے احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی بھی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا لیتا ہے
اور ان الفاظ کو جب خوب صورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط پر کار بند رہتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات اور احسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور شاعری میں جب رباعی کا تذکرہ آتا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ رباعی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں، رباعی کی جمع رباعیات ہے۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جائے ۔
رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے، رباعی کو دوبیتی بھی کہتے ہیں-فارسی میں رباعیات کے حوالے سے عمر خیام ، ابوسعید ابوالخیر، اور سرمد کے ناموں کو دنیائے ادب جانتی اور پہچانتی ہے۔
اردو میں حالی ، اکبر، انیس ، امجد، جوش، فراق اور دیگر شعرا کی شاعرانہ عظمت و شہرت کو اس مخصوص صنف نے چار چاند لگایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رباعی نے زندگی کے آفاقی اور عالمگیر حقائق کی عکاسی کا حق بعض کے نزدیک نہ ادا کیا ہو، لیکن تاریخ ادب شاہد ہے کہ اس نے رکاکت، ابتذال ، فحاشی ، بیہودہ گوئی ، مبالغہ اور ہجو سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہیں کیا ۔ حالی نے اردو شعر و قصائد کے جس دفتر کو تعفن زدہ بتایا ہے اس میں رباعی کو شامل کرنا امر محال نظر آتا ہے ۔
اور رباعی کی یہی ایک معنوی خصوصیت اسے دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں ممتاز و موقر بنانے کے لئے کافی ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ اردو اور فارسی کے ناقدین و محققین نے رباعی کی جانب بہت کم توجہ دی- رسائل کے ذمہ داران اور مدیران نے بھی اس پر کم ہی گوشے شائع کیے تاہم سہ ماہی “نقیب الخلیج” نے خصوصی رباعی نمبر شائع کرکے اس طرف توجہ مبذول کرانے کی بھر پور سعی کی ہے کہ اردو رباعی کو اردو زبان وادب میں اب بھی وہی مقام مرتبہ حاصل ہے جو ماضی میں تھا ،اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔
رسالہ میں اردو رباعی سے متعلق جتنے بھی مضامین ہیں انہیں ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہے، البتہ رسالے میں شامل ایک مضمون جس پر میری نگاہ پڑی تو حیرت اور تجسس میں اضافہ ہوا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ رباعیات کے مضمون میں غزلوں کے اشعار شامل ہو گئے ہیں، ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے لمبے عرصے سے تحقیقی مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی میدان میں بھی خامہ فرسائی کی ہے
ان کے مضمون کی ترتیب دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوا کہ مضمون نظر ثانی کے بغیر یا عجلت کا شکار ہو کر شائع ہوگیا ہے ، مدیر محترم اور مصنفہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ رسالے میں مضمون شامل کرنے کے لیے الفاظ کی قید مقرر ہے اور مضمون چوں کہ رسالے میں شمولیت کے اعتبار سے خاصا طویل اور مخلتف اصناف پر مبنی تھا لہٰذا مضمون کو رسالے کے لحاظ سے سیٹنگ کرنے میں ترتیب اور مثال کی الٹ پھیر ہوئی ہے۔
مدیر محترم اور مصنفہ نے اس کا اعتراف کیا۔ نیز انھوں نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس رسالے کا اتنی دل چسپی سے قارئین ادب مطالعہ کرتے ہیں،ادارہ آئندہ شمارہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس مضمون کو صحیح ترتیب دے کر شامل اشاعت کرے گا۔
ادب کے قارئین کے لیے اس رسالے کا مطالعہ موضوع سے متعلق واقفیت کے لحاظ سے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ میں خصوصی طور پر قاضی منصور قاسمی صاحب کو اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ آپ عربستان میں رہ کر بھی اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور آبیاری کے لیے مکمل اور مسلسل کوشاں ہیں
رب کریم سے دعا ہے کہ آپ سبھوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور مزید زبان وادب کی خدمت کرنے کی توفیق وتوثيق عطاء فرمائے آمین۔