خلیج فارس میں چین کی انٹری
خلیج فارس میں چین کی انٹری
مشرف شمسی
چین کی کوشش سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔اس کا مطلب چین خلیج ممالک میں دمدار طریقے سے انٹری کر رہا ہے ۔
ویسے بھی چین کسی بھی خطے میں اپنی پہنچ ملکوں کو جوڑ کر یا دوستی کر کے بناتا ہے جب کہ امریکہ کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ دوست ملک اُن کی ہر ایک جائز اور ناجائز بات کو مانیں۔ ورنہ سازش کر کے اس ملک کو اپنے پڑوسی ملک سے لڑائی میں اُلجھا دیتا ہے۔اس بات کے بہت سے مثال ماضی اور حال میں بھی مل جائیں گے
۔صدام حسین امریکہ کے کہنے پر اپنے ہمسایہ ایران سے بنا کسی وجہ کے دس سال تک جنگ کرتا رہا اور اسی امریکہ نے وقت آنے پر عراق کو تباہ و برباد کر دیا اور بے بس صدام حسین کو گرفتار کر کے پھانسی پر لٹکا دیا۔سوویت یونین کے خلاف کس طرح سے افغانستان میں اسامہ بن لادن کا استعمال ہوا اور پھر جب کام نکل گیا تو افغانستان کو خانہ جنگی کے حوالے کر دیا گیا۔
لیکن چین جس ملک میں اپنے پیر رکھتا ہے اس ملک کو بنانے میں یقین رکھتا ہے۔اپنے دوست ممالک میں ترقیاتی کاموں سے اُن ممالک کا بھلا ہوتا ہی ہے چین کا بھی فائدہ ہوتا ہے ۔
حالانکہ چین پر بھی الزام لگتا ہے کہ وہ جس ملک سے بھی دوستی کرتا ہے اُسے نچوڑ لیتا ہے لیکن اس میں چین سے زیادہ قصوروار اس ملک کا بد عنوان قیادت ہوتا ہے جو اپنے تھوڑے فائدے کے لیے ملک کو فروخت کرنے میں لگ جاتا ہے۔خاص کر سری لنکا جیسے ملک کو چین کے قرض کا سود نہیں چکانے کے بدلے اپنا ایک بندرگاہ چین کے حوالے کرنا پڑا ۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت ہو جانے سے خلیجی ممالک کے بہت سے معاملے آسانی سے حل ہو جائیں گے ۔یمن کی خانہ جنگی جو کئی سال سے جاری ہے وہ ختم ہو جائے گی ۔یمن کی خانہ جنگی میں اب تک لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور پورا یمن تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ایران شیعہ حوشی باغیوں کی حمایت کرتا رہا ہے
جب کہ یمن کی سرکار کو سعودی حکومت حمایت دیتی ہے ۔ایران اور سعودی کے درمیان معاہدہ ہو جانے سے یمن میں خون ریزی رک جائیگی اور امن معاہدہ جلد ہونے کی امید ہے۔سعودی اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات بحال ہونے سے عراق میں بھی خانہ جنگی رکےگی اور ملک استحکام کی جانب جائیگا۔ورنہ عراق میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہے ہیں۔شیعہ ایران کی جانب دیکھتا ہے تو سنی مسلمان سعودی سے مدد حاصل کرتا ہے ۔
ایران اور سعودی کے تعلقات بحال ہونے سے شام کے مسئلے بھی حل ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔شام کے متحدہ عرب امارات ،عمان اور سعودی عرب سے بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ہاں ایران اور سعودی عرب کے رشتے بحال ہونے سے پورے فارس کے علاقے میں امن لوٹ آئے گا۔حالانکہ امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک سعودی اور ایران کے درمیان مصالحت کی تائید کی ہے لیکن امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ خلیجی ممالک میں چین اپنی دخل اندازی بڑھائے۔
خلیجی ممالک میں چین کے پیر جم گئے تو امریکہ کے لئے اُن ممالک سے کاروبار اپنی شرطوں پر کرنا مشکل ہو جائیگا۔ساتھ ہی ایران اور سعودی کی دوستی ہو جاتی ہے تو خلیج میں امن ہوگا ۔ایسے میں امریکہ کے اسلحہ کاروبار میں کمی آئےگی۔ہاں اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ جیوں کا تیوں حل نہیں ہو پایا ہے ۔سعودی اور ایران مخلص ہو کر اس مسئلے کا حل اسرائیل کے ساتھ مل کر کرے تو ممکن ہے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے۔
لیکن کیا امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک فلسطین کے مسئلے کا حل ہونے دیں گے یا اسرائیل کو خلیج فارس میں اپنے مفاد کے لیے مسلّط کیئے رہے گا۔اس بات کے بھی امکان ہیں کہ چین ایران اور سعودی عرب کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کی کوشش کرے۔اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان مصالحت ہو گئی تو یقین مانیے فلسطین کا مسئلہ بھی اپنے آپ حل ہو جائیگا۔
لیکن چین کا دخل خلیج فارس میں بڑھ جانے سے بھارت کی مشکل شروع ہو جائے گی۔وقت گزرنے کے ساتھ بھارت اور خلیجی ممالک کے تجارت کم ہوتے جائیں گے اور اسکی جگہ چین لیتا جائے گا۔بھارت کو امریکہ کا ساتھ نبھانے کی قیمت چکانی پڑے گی۔اسلئے ضروری ہے کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی خلیجی ممالک کے تیل اور گیس کی خریداری کو دیکھتے بنائیں ۔ساتھ ہی اُن ممالک میں بڑی تعداد میں بھارتیہ کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں ڈالر بھارت آتا ہے ۔اُسے دیکھتے ہوئے بھارت کی سفارتی کوشش تیز ہونی چاہیے جو فی الحال نظر نہیں آ رہا ہے ۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 9322674787