ہمیں ادب و ثقافت کا مطالع ایک تقابلی پس منظر میں کرنا چاہیے
ہمیں ادب و ثقافت کا مطالع ایک تقابلی پس منظر میں کرنا چاہیے : ڈاکٹر انیس الرحمن
انیس الرحمن کی اعزاز میں منعقد ہوا شعری نشست، ڈاکٹر جلال اصغر فریدی نے ان کی شخصیت سے کرایا متعارف
مظفر پور، 27/ جون (وجاہت، بشارت رفیع) ہندوستان کے نامور انگریزی و اردو کے ادیب، جامیہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے سابق رجسٹرار ڈاکٹر انیس الرحمن کی اعزاز میں شہر کے مشہور و معزز شاعر ڈاکٹر صبغت اللہ حمیدی کی رہائش پر ایک شعری نشست منعقد ہوا۔ ڈاکٹر انیس الرحمن نامور ادیب و مترجم ہیں۔
اس موقع پر شہر کے دانش وروں کو خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر انیس الرحمن صاحب نے کہا کہ میں قریب 45 سال قبل مظفر پور سے رخصت ہوا اور دلی کے جامیہ میں 2015 تک اپنی خدمات دیں، بطور استاد و انتظامی عہدوں پر مختلف ذمہ داریاں نبھائیں
اس دوران اردو اور انگریزی دونوں زبانوں ادب میں خدمات دینے کا موقع ملا اور میں کناڈا میں شاشتری فیلو رہا اور امریکہ میں ویجیٹنگ اسکولر بھی رہا، میری زندگی ایک طالب علم کی زندگی تھی اور میں نے ہمیشہ یہ سمجھا اور یہ جانا کہ کوئی استاد اپنے طلبہ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا
چناں چہ میرا علمی اور ادبی صفر اپنے ہم عصروں کے ساتھ اپنے طلبہ و طالبات کے ساتھ گزارا۔ میں نے تقابلی مطالعات اور جنوب اشیائی ادب و ثقافت کے ساتھ تراجم کے میدان میں کام کرنے کے بعد یہ سیکھا کہ ہمیں ادب اور ثقافت کا مطالع ایک تقابلی پس منظر میں کرنا چاہیے
یہ بات میں عموماََ نئی نصل سے کہتا آیا ہوں کہ یہ زمانہ صرف ایک زبان ایک ادب اور ایک کلچر تک محدود ہونے کا زمانہ نہیں ہے چناچہ ہمیں اپنا سفر مختلف سمتوں میں جاری رکھنا چاہیے۔
اس موقع پر ڈاکٹر جلال اصغر فریدی نے ڈاکٹر انیس الرحمن کی شخصیت سے واقف کراتے ہوئے کہا کہ انیس الرحمن صاحب نے اپنی پوری تعلیم مظفر پور میں حاصل کی لیکن اپنی خدمات انہوں نے دلی اور امریکہ وغیرہ میں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر انیس الرحمن صاحب کی سب سے بڑی خدمات ترجمع کے شعبے میں رہی ہے۔
انہوں نے غالب اور میر کا ترجمع انگریزی میں کر کے دنیا کو اس سے واقف کرایا۔ بہت سی انگریزی کتابوں کی اردو میں ترجمع کیا۔
قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی کنوینر و آزاد صحافی محمد رفیع نے اس موقع پر کہا کہ آج کے اس دور میں ڈاکٹر انیس الرحمن جیسی شخصیت سے نئی نصل کو واقف کرانے کی ضرورت ہے اور اسے مستقبل کے تقاضوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس نشست کی صدارت بزرگ شاعر علی احمد منظر و نظامت کے فرائض محفوظ احمد عارف نے ادا کئے۔ اس موقع پر موجود شعراے کرام نے اپنے اپنے کلام سے محظوظ کیا
ایک آہٹ سے بھی ڈر جاتے ہیں
جب فسادات ابھر جاتے ہیں
ڈاکٹر صبغت اللہ حمیدی
تو خواہشوں کا اسیر ہو جا
ضمیر بیچ اور امیر ہو جا
ڈاکٹر جلال اصغر فریدی
نگاہ میں گھنے شجر کا سلسلہ بھی چاہیے
تمازت سفر میں کوئی آسرا تو چاہیے
ایمل ہاشمی مائل
کہہ رہی ہے جو زباں وہ سب تیرے اندر نہ تھا
غور سے دیکھا تجھے تجھ میں وہ منظر نہ تھا
شرون کمار
میں پلاسٹک ہوں مجھ سے سبھی کو ہے پیار
میرے خطرے سے مگر رہو ہوشیار
ناز وزیر
مخالف سمت چلنا چاہتا ہوں
ہوا کا رکھ بدلنا جاہتا ہوں
علی احمد منظر
ہوا کے رخ پہ چلوں میں، یہ ہو نہیں سکتا
ضمیر بیچ دوں اپنا، یہ ہو نہیں سکتا
محفوظ احمد عارف
آج کی اس مجلس میں قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی کنوینر و آزاد صحافی محمد رفیع، نوجوان شاعر منیب مظفر پوری، مسرور احمد اور انجینئر ظفر حسن وغیرہ نے پروقار شرکت فرما کر مجلس کو کامیاب بنایا۔