کجا ماند مسلمانی
کجا ماند مسلمانی
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
سترہ ستمبر کو وزیرکھا اعظم نریندر مودی کا جنم دن تھا۔حسب روایت سیاست، تجارت اور سنیما سے وابستہ لوگوں نے وزیر اعظم کو مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر یوپی کے ایک مدرسے میں وزیر اعظم کا جنم دن منایا گیا۔لڈوؤں کے درمیان وزیر اعظم کی تصویر رکھ کر لمبی عمر کی دعا بھی کی گئی۔اس سے قبل جون 2023 میں ایک نسواں مدرسے میں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا جنم دن بھی منایا گیا تھا.
اور اسی طرح تصویر رکھ وزیر اعلیٰ کی درازی عمر کی دعائیں کی گئی تھیں۔ان حرکات کو دیکھ کر یقین ہو چلا ہے کہ آنے والا وقت مدارس اسلامیہ کے لیے مزید آزمائشوں بھرا ہوگا، کیوں کہ دس سال پہلے تک جن کاموں کا تصور تک محال تھا آج وہ کام ہمارے مدارس میں اپنے پنجے پوری طرح سے گاڑ چکے ہیں۔
حکومت کو ناراض نہ کرنے کا یہ رجحان اسی طرح طرح بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب مدارس کی اسلامی شناخت چاہِ زمزم کی طرح نگاہوں سے یوں اوجھل ہو جائے گی کہ اس کی بازیابی کے لیے پھر کسی “عبد المطلب” ہی کا انتظار کرنا پڑے گا۔
حفاظت سے پامالی تک
سن 1980 میں دیوبندی مکتب فکر کے سب سے بڑے ادارے دارالعلوم دیوبند کا جشن صد سالہ منایا گیا۔مہمان خصوصی مسز اندرا گاندھی کو بنایا گیا جو اس وقت وزیر اعظم ہند ہوا کرتی تھیں۔
آزاد بھارت کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع تھا جب کسی اسلامی مدرسے میں ہندو لیڈر بلانے کی بدعت شروع کی گئی۔حالانکہ اس سے قبل مولانا آزاد جیسے کانگریسی لیڈر جامع مسجد دہلی میں پندٹ شردھانند جیسے متعصب ہندو لیڈر کا بھاشن کرا چکے تھے
لیکن زمانے کی اتھل پتھل میں یہ واقعہ نئی نسل کے ذہنوں سے اوجھل ہوگیا تھا مگر جماعت دیوبند کے ارباب حل وعقد نے مسز اندرا گاندھی کو جشن صد سالہ کی زینت بنا کر آزاد صاحب کی بدعت قبیحہ کے احیا کا مذموم فریضہ انجام دیا۔اس ایک طرز عمل نے دین کے نام پر دنیا کمانے والوں کے لیے ایک نظیر قائم کر دی۔
بعد کے زمانے میں آہستہ آہستہ شرم وحیا اور ملی غیرت کی دیواریں گرتی رہیں اور آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جن مدارس میں کبھی قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں گونجتی تھیں وہاں آج باضابطہ “فتوی جواز” کے ساتھ جَے ہو کے جَے کارے بلند کیے جارہے ہیں۔
ابھی تک ان امور میں دیگر مکاتب فکر ہی کی شمولیت نظر آتی تھی۔اہل سنت و جماعت کا دامن ان برائیوں سے تقریباً پاک تھا مگر اب یہ بیماری اہل سنت میں بھی بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی جارہی ہے۔
حکومت کو خوش رکھنے کا جو رجحان پیدا ہوا ہے اس کے نتیجے میں مندرجہ ذیل معاملات سامنے آئے ہیں:
🔸 مشرقی یوپی کے ایک قدیم ادارے میں گاندھی جینتی کے موقع پر گاندھی جی کی تصویر پر پھول مالائیں چڑھا کر خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
🔹مغربی یوپی کے ایک نسواں ادارے میں برقع پوش طالبات کے درمیان یوگی آدتیہ ناتھ کی تصویر رکھ کر جنم دن منایا گیا، درازی عمر کی دعائیں ہوئیں اور مٹھائی بھی تقسیم کی گئی۔
🔸 امسال یوگا ڈے کے موقع پر مغربی یوپی کے ایک مرکزی ادارے میں سوریہ نمسکار سمیت یوگا کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا گیا جس پر خاصا تنازع بھی ہوا۔
🔹مشرقی یوپی کے ایک مشہور ادارے میں بھی نہایت اہتمام کے ساتھ یوگا ڈے منایا گیا یہاں اساتذہ کے ساتھ حکومت کے کئی ذمہ داران نے بھی شرکت کی۔مذکورہ حادثات کا تعلق اہل سنت و جماعت کے مدارس ہی سے ہے
اس لیے اب خوشنودی حکام کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا الزام کسی ایک مکتب فکر پر نہیں لگایا جاسکتا کہ اس وقت حمام میں سبھی ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔ان حادثات نے جماعتی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا، تسلی اس بات کی رہی کہ جماعت کے سنجیدہ اور باشعور طبقے نے مذکورہ امور سے سخت بیزاری ظاہر کی اور ملوثین کے رویوں پر تنقید بھی کی۔
جماعتی دباؤ کہیں کہ اعتراف حقیقت، کہ بعض افراد نے تنقید واعتراض کے بعد رجوع کر لیا تو بعض افراد نے رجوع کی بجائے اپنے عمل کی تاویل اور مذکورہ امور کو درست ٹھہرانے کو ترجیح دی۔
دیوار کہاں گری؟
حکومت کے غیر شرعی اقدامات کی مخالفت جماعت اہل سنت کی روشن تاریخ کا حصہ ہے۔نس بندی کے خلاف فتوی دینا ہو کہ انہدام بابری مسجد کے مجرم نرسمہا راؤ کی مخالفت یا بابری مسجد کا سودا کرنے نکلے شری شری روی شنکر کو اوقات بتانا، جماعت اہل سنت نے کبھی داب نہیں کھایا اور حکم شرع ببانگ دہل بیان کیا
لیکن سن 2017 میں دہلی میں ہوئی ایک بڑی کانفرنس میں جماعت کے اس کردار پر کراری ضرب پڑی جب تازہ تازہ وزیر اعظم بنے نریندر مودی کو مہمان خصوصی بنایا گیا اور اس شعر کے ساتھ استقبالیہ دیا گیا:
صبا تمہارے لیے مشک بار آئی ہےتمہارے قدموں پہ ہونے نثار آئی ہےخدا کرے کہ تمہیں عمر خضر مل جائےتمہارے دم سے چمن میں بہار آئی ہے
وزیر اعظم کی آمد پر “بھارت ماتا کی جَے” کے نعرے بھی لگے جس میں برادران وطن کے ساتھ ساتھ کارکنان کانفرنس بھی شامل تھے۔بعد میں بھلے ہی اس نعرے پر صفائی بھی دی گئی مگر وہ دامن جھاڑنے کی کوشش محض ہی تھی، آج تک بھی ذمہ داران اس نعرے پر اپنا اسٹینڈ کلئیر نہیں کر پائے ہیں۔
🔹سال 2017 میں یوپی میں بی جے پی نے واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی۔سخت گیر نظریات کے حامل یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔
اپنے نظریات کے مطابق یوگی سرکار نے سرکاری مدارس میں قومی ترانہ “جَن گَن مَن” پڑھنے کا فرمان جاری کیا۔بریلی شریف سے جانشین تاج الشریعہ حضرت مولانا عسجد رضا قادری نے اس حکم نامہ کی شدت سے مخالفت کی اور اہل مدارس سے اپیل کی کہ وہ اس فرمان کو قطعاً قبول نہ کریں۔
کاش! اگر اس وقت لغت/عرف/حالات/مصلحت کی بھول بھلیوں اور تکنیکی داؤں پیچ کا سہارا لیکر جواز کا پہلو نہ پکڑا ہوتا تو اہل مدارس موجودہ آزمائشوں سے محفوظ ہوتے۔اُس وقت بعض ذمہ داران مدارس کو یہ دھڑکا لگا تھا کہ اگر حکومتی فرمان نہ مانا گیا تو مدارس بند ہوسکتے ہیں۔ان کے اس خدشے کو سن کر تاج الشریعہ مفتی اختر رضا علیہ الرحمہ نے بڑا مومنانہ جواب دیا تھا:”جو مدارس شریعت کی حفاظت نہ کر سکیں ان کا بند ہو جانا ہی اچھا ہے”۔
حالانکہ مذکورہ عذر یا تو ذمہ داران کی لاعلمی کا نتیجہ تھا یا بلا وجہ کا خوف! کیوں کہ سپریم کورٹ نے Bijoe Emmanuel VS state of kerala 1986 میں قومی ترانہ نہ پڑھنے سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ سنایا تھا جس کے مطابق؛
🔹”قانون کی کسی شق کے مطابق کسی کو قومی ترانہ پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔”
🔸”قومی ترانہ نہ پڑھنا ہرگز توہین نہیں ہے۔”
🔹”کسی بھی شہری کے لیے قومی ترانہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔
“یہ فیصلہ کیرل کی بِجوئے فیملی کے ان تین عیسائی بچوں کی درخواست پر آیا تھا جنہوں نے اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر قومی ترانہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔جس کی پاداش میں اسکول نے ان کا خارجہ کر دیا نتیجتاً مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا اور مذکورہ عیسائی فیملی کو جیت حاصل ہوئی اور انہیں واپس اسکول میں داخلہ دیا گیا۔
یہ فیصلہ اہل مدارس کے لیے بہترین ڈھال تھا اور وہ آسانی کے ساتھ اپنا دفاع کر سکتے تھے لیکن حکومت کو ناراض نہ کرنے کا جذبہ کہیں یا ہر چیز میں ہاں کہنے کا مزاج کہ جس فرمان کو قانونی طور پر بھی رد کرنے کا آپشن موجود تھا اسے کھینچ تان کر جائز بنا لیا گیا۔
اس طرح بھری جماعت میں علامہ عسجد رضا قادری تقریباً تنہا رہ گیے اور جماعت کے بڑے بڑے ناموں نے فتوی جواز دے کر safe zone اختیار کیا۔انہیں لگا کہ عافیت اسی میں ہے مگر یہ چند لمحاتی عافیت تھی حقیقتاً خود کو ان کے جال میں پھنسانا تھا؛ مچھلی نے ڈھیل پائی تھی لقمے پہ شاد تھیصیاد شادماں تھا کہ کانٹا نگل گئینہ کہنا بھی سیکھنا ہوگا
گذشتہ چند سالوں سے ایک ٹرینڈ دیکھنے میں آرہا ہے کہ حکومت جو فیصلہ لیتی ہے ہمارے یہاں بلا چون وچرا تسلیم کر لیا جاتا ہے۔اسی سے شہ پاکر حکومت لگاتار غیر شرعی فیصلے تھوپتی جارہی ہے۔کاش ہم نے نہ کہنا بھی سیکھا ہوتا تو حکومت مَن مانے قوانین تھوپنے میں اتنی دلیر نہ ہوتی۔
حال ہی میں کناڈا میں خالصتانی لیڈر ہردیپ سنگھ نِجّر کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔
کنیڈین وزیر اعظم نے اس کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی پر لگایا۔جس سے ناراض ہوکر حکومت ہند نے کناڈا کے ویزے پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے ایک سینئر افسر کو ملک سے نکال دیا۔اتنے حساس مسئلے پر سِکھوں کی سب سے بڑی کمیٹی شرومنی گرو دوارا پربندھن کمیٹی(SPGC) نے ایک ریزولیوشن پاس کرتے ہوئے کہا:
“کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کا بیان معمولی نہیں ہوتا بل کہ متعلقہ ملک کے قوانین کے دائرے میں اسے ثبوتوں پر مشتمل مانا جاتا ہے
۔اس لیے دونوں ممالک کو اس کی سچائی منظر عام پر لانا چاہیے اگر اس معاملے کو سیاسی وجوہات کی بنا پر دبا دیا گیا تو یہ حقوق انسانی کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔
“اس ریزولیوشن کے ایک ایک لفظ پر غور کریں اور پھر بتائیں کہ ایسی نازک صورت حال میں مسلم قیادت سے اپنے ہم مذہب کے لیے اتنا دلیرانہ اور معقول مطالبہ کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے؟
سِکھ قوم اگر شدت پسندوں کی جارحیت سے محفوظ ہے تو اس کی بنیادی وجہ مذہبی غیرت اور خود داری کو بنائے رکھنا ہے جس کی بنیاد پر وہ ایک آبرو مندانہ زندگی جی رہے ہیں جب کہ ہمارے یہاں حکومت کے ایک اشارے پر بڑے بڑے لوگ آمنا صدقنا کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔حکومت کیسا ہی خلاف شرع قانون بنا دے مفتیان کرام دفتر جواز کھولے تیار ملتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن مسلم قوم کی مذہبی شناخت کو ختم کر کے تہذیبی ارتداد کی راہیں کھولی جارہی ہیں اور ہم لوگ “یسّروا ولا تعسّروا” کا مژدہ سنانے میں مصروف ہیں ۔
یاد رکھیں!عزت صرف ہاں کہنے سے نہیں ملتی عزت پانے کے لیے کبھی نہ کہنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔
اگر اہل مدارس نے یہی رویہ بنائے رکھا تو وہ دن دور نہیں جب مدارس میں رام اور کرشن کی عظمتوں پر سیمینار ہوں گے اور رام لیلا وکرشن کتھاؤں کے مناظر نظر آئیں گے۔