الفاظ ہی نہیں انداز بھی قابل مذمت ہے
الفاظ ہی نہیں انداز بھی قابل مذمت ہے !!
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
ان دنوں مفتی طارق مسعود کی گستاخی، وضاحت اور رجوع والی ویڈیو کلپس وائرل ہیں۔لوگ مختلف انداز سے تبصرے اور تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔زیادہ تر گفتگو طارق مسعود کے الفاظ پر کی جارہی ہے، جو کرنا بھی چاہیے لیکن یہاں ان کے الفاظ کے ساتھ ساتھ انداز گفتگو پر بھی کلام ضروری ہے۔کیوں کہ کئی بار الفاظ سے زیادہ ضروری انداز گفتگو ہو جاتا ہے۔اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ کئی بار ایک ہی لفظ انداز وکیفیت کی وجہ سے مختلف اور متضاد معانی میں استعمال ہوتا ہے، مثلاً؛ “کیا بات ہے”
یہ جملہ فخر و مباہات کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور استفسار و غصے کے لیے بھی۔کسی باپ کو خبر ملے کہ اس کے بیٹے نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے تو احساس خوشی اور فخر کے ساتھ بے اختیار باپ کے منہ سے یہی نکلتا ہے؛
“کیا بات ہے !!”
یہی جملہ باپ کے منہ سے نہایت غصے میں نکلتا ہے جب اس کے بیٹے کسی بات پر جھگڑا کر بیٹھیں، شور سن کر باپ نہایت کرسخت لہجے میں یہی پوچھتا ہے؛
“کیا بات ہے؟
غور کریں!
الفاظ وہی ہیں صرف انداز اور کیفیت بدلی ہے، مگر تبدیلی انداز نے الفاظ کے معانی ہی بدل دئے !!
معلوم ہوا کہ الفاظ کے ساتھ ساتھ انداز گفتگو بھی شائستہ اور مہذب ہونا چاہیے۔ بات جب بارگاہ رسالت مآب ﷺ کی ہو تو یہ خیال رکھنا بے حد ضروری ہوجاتا ہے کہ بوقت ذکر پاک، نہ صرف ہمارے الفاظ اچھے ہوں بل کہ ہمارا انداز گفتگو بھی مؤدب ہو۔اگر الفاظ درست بھی ہوئے اور انداز گفتگو عامیانہ اور نامناسب ہوا تب بھی بارگاہ رسالت کی بے ادبی کا گناہ لازم آئے گا۔ الفاظ بھی برے انداز بھی برا۔
مفتی طارق مسعود نے جس وقت؛ “ہمارے نبی نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا”
جیسے گستاخانہ الفاظ اپنی بے ہودہ زبان سے نکالے اس وقت اس شخص کا انداز گفتگو اور حرکات بھی نہایت سوقیانہ اور گھٹیا تھیں۔
آپ اس ویڈیو کو غور سے دیکھیں وہ شخص کس طرح ہاتھ لہرا کر سرکار مدینہ کی ذات سے پڑھنے لکھنے کا انکار کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس مناسب تعبیر کے لیے الفاظ کا سوکھا پڑ گیا ہو، لیکن انداز کا تعلق تو علم والفاظ سے نہیں ہے، یہ تو دل سے تعلق رکھتا ہے، کم از کم مفتی طارق مسعود کو انداز تو مؤدب اور مہذب اپنانا چاہیے تھا۔ کئی بار انداز بیان الفاظ کی خامیوں تک کو چھپا لیتا ہے: سیفؔ انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
مگر برا ہو اس ماحول کا جہاں ایسے لوگ پروان چڑھتے ہیں۔جہاں نہ انبیا کے متعلق گفتگو کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے اور نہ صحابہ و اولیا کے متعلق انداز گفتگو کی تربیت دی جاتی ہے۔وہاں تو؛
“سب دھان بائیس پنسیری”
کے مطابق چلنا سکھایا جاتا ہے۔اس لیے ایسے ماحول میں جب کوئی خطیب و ادیب تیار ہوتا ہے تو چاہے کتنا ہی طلیق اللسان ہو، کتنا ہی قادر الکلام ہو مگر اس کا انداز بیان عامیانہ ہی رہتا ہے کیوں کہ اس نے “فرق مراتب” کی تربیت پائی نہ تعلیم، وہ تو صرف اپنی زبان چلانے میں یقین رکھتا ہے، الفاظ چاہے کتنے بھونڈے ہوں، انداز چاہے کتنا ہی گھٹیا ہو۔
انداز ایسا ہوتا ہے !!
مفتی طارق مسعود کوئی جاہل نہیں کہ انہیں الفاظ کی شناعت وقباحت کا علم نہ ہو، نہ وہ کوئی بھاڑ بھوننے والے ہیں کہ انہیں ذکر رسول کے انداز اور اس کی نزاکت وکفییت کا احساس نہ ہو، یقیناً وہ ان ساری چیزوں سے کما حقہ واقف ہوں گے
مگر اس کے باوجود اس طرح کی گفتگو اور بے ہنگم انداز کا صدور بتاتا ہے کہ وہ ذکر رسول کی پر سوز کیفیت اور انداز بیان کی نزاکتوں کو سمجھنے کے مرحلے سے گزرے ہی نہیں ہیں، نہ شاید انہیں یہ ماحول میسر آیا ہے ورنہ ان سے ایسی جسارت ہرگز نہ ہوتی۔ذکر کے وقت ایک مومن کی کیفیت کیا ہونا چاہیے اس کے متعلق امام ابو ابراہیم التجیبی کا یہ قول مشعل راہ ہے :
“واجب علی کل مومنٍ متی ذکرہ او ذکر عندہ ان یغضع و یخشع و یتوقر و یسکن من حرکاته و یاخذ فی ہیبته و اجلاله بما کان یاخذ به نفسه لو کان بین یدیه و یتأدب بما ادبه اللّٰہ به۔”
’’ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ جب بھی مسلمان کے سامنے امام الانبیا حضرت محمدﷺ کا ذکر کیا جائے یا حضور پاک کا اسمِ گرامی لیا جائے تو خشوع و خضوع کے ساتھ حضور کے نام اور ذکر کا ادب و احترام کرے اور اپنی حرکات میں سکون اور قرار اختیار کر لے اور آپ کی ہیبت اور تعظیم کا ایسے اظہار کرے کہ جس طرح بندہ کے سامنے حضور پاک ﷺ موجو د ہیں۔”
ذکر رسول کی کیفیت کیا ہوتی ہے یہ کوئی امام زہری سے سیکھے، حضرت مصعب بن عبد اللہ فرماتے ہیں: ” ولقد رأیت الزهري، وکان من أهنإ الناس وأقربهم، فإذا ذکر عنده النبي ﷺ فکأنه ما عرفک ولا عرفته۔”
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی : 522) ” میں نے امام زہری کو دیکھا کہ وہ بڑے نرم دل اور ملنسار تھے۔جب بھی ان کے سامنے حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر کیا جاتا تو وہ ایسے ہو جاتے گویا کہ نہ وہ تمہیں پہچانتے ہیں اور نہ تم انہیں پہچانتے ہو۔”
رہا سوال حضور پاک ﷺ کے علم پاک کا، تو جب خالق کائنات نے انہیں؛ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَةَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ۔(سورہ بقرہ؛ 129) ” انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے۔”
نازل فرما کر معلم کتاب و حکمت کی سند عطا فرما دی ہو۔جس نبی کی بعثت ہی تعلیم کتاب و حکمت کے لیے ہوئی ہو اس کی ذات سے پڑھنے/لکھنے کا انکار کرنا جہالت ہی نہیں اعلی درجے کی حماقت بھی ہے۔اس معلم کائنات ﷺ کے علم کا عالم تو یہ ہے: تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے، فصحا عرب کے بڑے بڑے کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
اچھی طرح یاد رہے !!
ذکر رسول، ذات رسول ہی کی طرح ادب کا تقاضا کرتا ہے۔نہ صرف الفاظ منتخب اور پسندیدہ ہوں بل کہ انداز وکیفیت بھی ادب وعشق کے سانچے میں ڈھلا ہونا چاہیے ورنہ زبان کا کینچی کی طرح تیز ہونا ایسا نقصان پہنچائے گا کہ سب کچھ برباد ہو جائے گا اور کہنے والے خبر تک نہ ہو سکے گی
Pingback: طارق مسعود دیوبندی کی ہفوات کا قرآن حدیث اور اقوال ائمہ نحو کی روشنی میں ⋆ اردو دنیا
Pingback: سيروا في الارض کے اغراض ومقاصد ⋆