حقیقی تصوف اسلام کی سچی تصویر ہے
حقیقی تصوف اسلام کی سچی تصویر ہے
دامن اسلام سے وابستہ ہونے والے پادری ہلیریا ہیگی کا اعترافی بیان ہمارے لیےچشم کشا ہے
ڈاکٹر غلام زرقانی
گذشتہ دو ہفتوں سے عالم عیسائیت دم بخود ہے ۔
ہوایہ ہے کہ کیلیفورنیا کے ایک مشہور پادری نے عیسائیت ترک کرکے دامن اسلام میں پناہ لے لی ہے ۔
خیال رہے کہ ہلیریاہیگی ماضی میں کئی چرچوں سے وابستہ رہے ہیں ۔ پہلے روسی ارتھوڈیکس ، پھر ایسٹرن کیتھولک چرچ سے منسلک رہے ۔
موصوف نےعیسائی پادری کی منصبی ذمہ داری اداکرنے کے لیے لازمی تعلیم مشہور سینٹ نازیانز ، ویسکونسن سے حاصل کی اور بیزانتائن کیتھولک پادری بنائے گئے ، اور ابھی حال ہی میں انھوں نے ایسٹرن کرسچن چرچ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہلیریا ہیگی نے قلبی سکون کی تلاش میں وقفے وقفے سے کئی دروازوں پر دستک دی ہے، تاہم ان کی پیاس کہیں نہیں بجھی ، بالآخرچشمہ اسلام کے ایک گھونٹ نے انھیں پوری طرح سیراب کردیا۔
ہلیریاہیگی کا عیسائیت کے پادری ہونے سے لے کر اسلام تک کا سفر کوئی اچانک نہیں ہوا ہے ، بلکہ تقریبا دوعشروں پر محیط ہے ۔ انھوںنے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے :
By 2003, I yearned to become Muslim. I saw the beauty of it. The depth. The truth of it. I spoke with the Imam about conversion. I hung out at the local Islamic Center. I made Muslim friends. It was a beautiful and joyful moment. But I didn’t convert. At the time, I was too fearful of such a conversion
’’ میں نے ۲۰۰۳ء میں اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ میں نے مذہب اسلام کی خوبصورتی دیکھی، میں نے اس میں گہرائی وگیرائی محسوس کی اور میں اس کی حقانیت سے متاثرہوا
یہاں تک کہ امام مسجد سے اسلام قبول کرنے کے بارے میں معلومات بھی حاصل کیں۔ میں مقامی اسلامی مرکز سے مربوط ہوااور مسلم دوست بنائے ۔ یہ تجربات میرے لیے نہایت ہی قابل مسرت تھے
لیکن میں نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا، کیوں کہ میں اس کے عوامی رد عمل سے کسی حد تک خوفزدہ تھا۔ ـ‘‘
اسلام سے قربت کی ابتداکے حوالے سے جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں ، ان سے محسوس ہوتاہے کہ ہلیریاہیگی، جو اب سعیدعبداللطیف سے پہچانے جاتے ہیں ، عیسائیت میں رہبانیت اور اسلام میں فکر تصوف میں مماثلت تلاش کرتے رہے ۔
چناں چہ انھوں نے مغربی دنیامیں فکر تصوف کے لیے مشہور ومعروف مولانا رومی اور شیخ ابن عربی کے افکار وخیالات سے استفادہ کرنا شروع کیا، جو بالآخر دامن اسلام سے وابستگی پر منتج ہوا۔
ذرائع ابلاغ میں اسلام کی جو شبیہ پیش کی جاتی ہے ، اس نے بھی سعید عبداللطیف کے قبولیت اسلام میں منفی کردار ادا کیا۔ عالم اسلام میں قتل وخون اور سفاکیت وبربریت کے خوںچکاں حادثات نے ایسا تاثر دیا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے محسوس کرنے لگے کہ اسلام لانے کے بعد شاید معاشرہ انھیں ایک دہشت گرد کی طرح دیکھے گا۔
بہرکیف، اپنے نشرشدہ بیان میں موصوف لکھتے ہیں کہ میں نے کئی بار ارادہ کیا، لیکن ہمت نہیں جٹاپارہاتھا۔ کچھ تومعاشرے کا خوف ، کچھ اہل خانہ سے مزاحمت کا خیال اور پھر طویل عرصے تک ایک عظیم ذمہ دار منصب پر فائز ہوتے ہوئے ہزاروں لوگوں کی محبت وشفقت سے محرومی کا احساس اعلان حق کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا، لیکن بالآخر میں نے طے کرلیا کہ گھر کے باہر عیسائیت کی تبلیغ اور گھر کے اندر اسلام سے محبت زیادہ دنوں تک ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ، اس لیے میں اپنے اسلام کا اظہار کر رہا ہوں ۔
ظاہرہے کہ بات اگر کسی عام شہری یا عصری تعلیم یافتہ فرد کے قبولیت اسلام کی ہوتی ، تویہ چنداں حیران کن نہ ہوتی، لیکن یہاں تو معاملہ مذہب عیسائیت میں کمال حاصل کرنے والے ایک سند یافتہ اور منجھے ہوئے تجربہ کار پادری سے متعلق تھا
اس لیے جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی ، حتی کہ بڑے بڑے عیسائی مراکز نے صفائی دینے کی کوشش شروع کردی اور بہتوں نے تویہ پیشین گوئی تک کردی ہے کہ موصوف جلد ہی دوبارہ عیسائیت کی طرف واپس آجائیں گے ۔
اس طرح سے وہ اپنی قوم ، خصوصیت کے ساتھ نئی نسل کے دلوں میں متذکرہ واقعہ کے اثرات کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں ۔
بات نکلی ہے توعرض کروں کہ مذہب اسلام اس قدرپرکشش، شفاف اور مستحکم دلائل وبراہین کے ساتھ ایستادہ ہے کہ اگر کوئی شخص تلاش حق کے مخلصانہ جذبے میں غیر جانبداری کے ساتھ اسے سمجھنے کی کوشش کرے ، تووہ اس کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ تجربہ ویسے تومجھے کئی بار ہوا ہے ، تاہم تازہ ترین واقعہ چھ ماہ پہلے کا ہے، جب ایک صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنی پریشانی پر مطلع کیا کہ میر ابیٹا کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنے کا خواہش مند ہے ۔
اس لیے آپ اسے سمجھائیں ۔ میں نے دونوں کے ساتھ ایک طویل میٹنگ کی اور لڑکی کو سمجھایا کہ ہم دنیا میں حق بات تسلیم کرلیتے ہیں اور باطل سے دور ہوجاتے ہیں ۔
اس لیے کیا ہی بہتر ہوکہ تم کچھ دنوں تک تلاش حق کے جذبے میں صراط مستقیم تک پہنچنے کی کوشش کرواور میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کروں۔ اسے میری بات اچھی لگی ۔ میں نے کچھ کتابیں دے دیں اوراُس کی مقدس بارگاہ میں مسلسل التجاکرنے کی تلقین کی ، جس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔
دو تین ہفتوں کے بعد دوسری ملاقات ہوئی ،تومیں نے پوچھا کہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے ، اس کے حوالے سے کوئی استفسار یا اعتراض ہوتوکہو۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔ کچھ دیر تک اسلام کی حقانیت پربات ہوتی رہی، پھر چلتے چلتے میں نے مزید چند کتابیں اسے دے دیں۔
تیسری ملاقات غالبا ہندوستان کے سفر سے واپسی پرہوئی ، جس میں انشراح صدر کے ساتھ وہ دامن اسلام سے وابستہ ہوگئی۔
صاحبو! سوکی ایک بات کہے دیتاہوں کہ لوگ کتابوں میں اسلام کی حقانیت پڑھتے بھی ہیں اور علما، ائمہ اور دانش وروں کی زبانوں سے سنتے بھی ہیں ، تاہم کاش وہ مسلم معاشرے میں اسلام کے اثرات دیکھ بھی لیتے ، تویقین جانیے ہمیں نہ دعوت وتبلیغ کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی مباحثات ومذاکرات اور تصانیف وتالیفات کی، بس لوگ ہمارے اخلاق وکردار ، عادات واطوار اور سلوک ومعاملات میں مذہب اسلام کی سچی تصویر دیکھتے اور اس کے زلف کے اسیر ہوتے چلے جاتے ۔
ڈاکٹر غلام زرقانی
چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
ghulamzarquani@yahoo.com
Pingback: زعفرانی ٹولے کے نرغےمیں مسلم بچیاں ⋆ غلام غلام زرقانی
Pingback: نفاذ یکساں سول کوڈ کے امکانات ⋆ ڈاکٹر غلام زرقانی چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا
Pingback: کیا امریکا نے ایک نیا قرآن بنا لیا ⋆ اردو دنیا
Pingback: جانوروں سے محبت کی آڑ میں انسانوں کو خطرے کے حوالے کرنا دانش مندی نہیں ⋆ اردو دنیا