مہاتما کے پیچھے چھپا انسان

Spread the love

مہاتما کے پیچھے چھپا انسان

ازقلم : ڈاکٹر عبدالباسط انصاری

اسسٹنٹ پروفیسر(ایجوکیشن) مانو کیمپس، وارانسی

2اکتوبر کو دنیا بھر میں گاندھی جینتی کے طور پر منایا جاتا ہے، جس میں مہاتما گاندھی کو ان کے عدم تشدد اور آزادی کی جدوجہد میں ان کے عظیم کردار کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے بابائے قوم کا خطاب پانے والے گاندھی جی کی میراث وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے، اور ان کی زندگی اور فلسفہ آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ لیکن مہاتما گاندھی کی زندگی اور فلسفے کے کئی پہلو ایسے ہیں جو عام طور پر کم معروف ہیں اور ان پر عوامی مباحثوں میں کم توجہ دی جاتی ہے۔

مہاتما گاندھی ایک سچے دیش بھکت اور مجاہد آزادی اور ہندوستان کے بابائےقوم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے عدم تشدد اور سول نافرمانی کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں ان کے کردار کو سراہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی اور تعلیمات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں، ان کے اقوال تقریروں میں گونجتے ہیں، اور ان کی میراث کو مجسموں، اداروں اور قومی تعطیلات کے ذریعے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھا گیا ہے۔

تاہم، گاندھی جی کی زندگی کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر کم توجہ دی گئی ہے۔ ان کی شخصیت، ان کے تعلقات، ان کے نظریات اور ان کی جدوجہد کے ایسے پہلو جنہوں نے انہیں ایک مکمل انسان کی شکل میں پیش کیا ہے۔

گاندھی ایک دیندار ہندو خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ گاندھی کا ابتدائی بچپن ایک عام ہندوستانی بچے کی طرح گزرا، اور کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ چھوٹا بچہ ایک دن دنیا کے عظیم ترین رہنماؤں میں شمار ہوگا۔لیکن ان کی ابتدائی زندگی میں ہی، گاندھی کے اندر سچائی اور اخلاقیات کے لیے ایک غیر معمولی جھکاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ ان کی والدہ پُتلی بائی ایک انتہائی مذہبی خاتون تھیں جنہوں نے گاندھی کو اخلاقیات اور سچائی کے راستے پر چلنے کی تعلیم دی۔ ان کی ماں کے گہرے اثرات ان کی زندگی بھر کے فلسفے میں نظر آتے ہیں۔

اگرچہ ان کے والد، کرم چند گاندھی ایک سیاسی شخصیت تھےتاہم، گاندھی جی کی ابتدائی زندگی کسی مضبوط رہ نما کی طرح نہیں تھی۔ وہ ایک عام طالب علم تھے، شرمیلے اور خود اعتمادی سے محروم۔ ایک کم معلوم حقیقت یہ ہے کہ جب گاندھی جی انگلینڈ میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو انہوں نے مغربی عادات اور رسم و رواج کو اپنانے کی کوشش کی۔ اس دوران انہوں نے انگریزی لباس پہنا، وائلن سیکھنے کی کوشش کی، اور انگریزی لہجے کو اپنانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی بھارتی شناخت کو مغربی جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ گاندھی جی بعد میں کیوں مغربی مادیت کو ترک کرکے سادگی کی زندگی اپناتے ہیں۔ ہندوستان واپسی کے بعد وہ اپنی جڑوں سے جڑ گئے اور خود شناسی کی طرف قدم بڑھایا۔

گاندھی جی کو اکثر ایک ہندو روحانی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن ان کا مذہب سے تعلق اس سے کہیں زیادہ گہرا اور وسیع تھا۔ گاندھی جی کی روحانیت محض ہندو رسومات تک محدود نہیں تھی؛ وہ تمام بڑے مذاہب کے سنجیدہ طالب علم تھے۔ انہوں نے عیسائیت، اسلام، جین مت، اور بدھ مت کا مطالعہ کیا ۔لیکن اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ گاندھی جی نے مذہب کو ذاتی عمل کے طور پر دیکھا نہ کہ ایک ادارہ جاتی منشور کے طور پر۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات، خاص طور پر پہاڑی خطبہ سے بہت متاثر تھے، جسے وہ عدم تشدد کا منشور سمجھتے تھے۔ تاہم، وہ منظم مذہب کے ناقد تھے، خاص طور پر وہ مذہبی ڈھانچے جو تقسیم اور تنازع کا باعث بنتے ہیں۔

گاندھی جی کی روحانیت کا پہلو ان کے فلسفے کا ایک اہم جزو تھا، جس میں انہوں نے تمام مذاہب کو ایک ہی روشنی میں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “تمام مذاہب کا مقصد ایک ہی ہے، اور وہ ہے سچائی تک پہنچنا۔” ان کے لیے مذہب صرف رسم و رواج یا عقائد کا مجموعہ نہیں تھا، بلکہ یہ انسان کی اندرونی پاکیزگی اور خدا کے قریب ہونے کا ایک ذریعہ تھا۔

گاندھی جی نے تمام بڑے مذاہب کا مطالعہ کیا اور ان کی تعلیمات میں یکساں طور پر یقین رکھتے تھے۔ وہ عیسائیت، اسلام، ہندو مت، اور بدھ مت کی تعلیمات سے متاثر تھے اور ان سب کو ایک ہی مقصد کی طرف اشارہ سمجھتے تھے۔ ان کی زندگی میں مذہبی ہم آہنگی کا ایک مضبوط نظریہ تھا، اور انہوں نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کی، خاص طور پر خلافت تحریک کے دوران۔لیکن ان کی یہ کوششیں اکثر تنقید کا شکار ہوئیں، اور انہیں دونوں طرف کے رہنماؤں سے اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ گاندھی جی کو دنیا بھر میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف ان کے مضبوط موقف کے لیے سراہا جاتا ہے، ان کے ابتدائی نظریات، خاص طور پر نسل پرستی کے بارے میں، اکثر تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔

جنوبی افریقہ میں اپنے ابتدائی دنوں میں، گاندھی نے زیادہ تر بھارتی اقلیت کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، اور انہوں نے افریقی باشندوں کی حالت زار پر زیادہ توجہ نہیں دی۔وہ صرف ایک مثالی شخصیت نہیں تھے، بلکہ ایک انسان تھے جو مسلسل اپنے تجربات سے سیکھتے اور اپنے اندر بدلاؤ لاتے رہے۔ ان کے بعد کے سالوں میں، جب انہوں نے ہندوستان میں اچھوتوں (جنہیں وہ ہریجن کہتے تھے) کے حقوق کے لیے مہم چلائی، تو ان کا سماجی انصاف کا نظریہ وسیع ہو گیا۔

گاندھی کی زندگی کا ایک اور اہم مگر کم جانا جانے والا پہلو ان کا سچائی کے ساتھ مسلسل تجربات تھے۔ ان کی خود نوشت” سچ کے ساتھ میرے تجربات” ان کی اندرونی جدوجہد، اخلاقی مخمصے، اور غیر روایتی طریقوں کا ایک گہرا جائزہ فراہم کرتی ہے۔

گاندھی جی کو زیادہ تر ہندوستان کی آزادی میں ان کے کردار کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جب کہ ان کے نظریات کا اثر دنیا بھر میں محسوس کیا گیا ہے۔ گاندھی کی تعلیمات اور فلسفہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کے لیے ایک الہام بن گیا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، نیلسن منڈیلا، اور سیسر شاویز جیسے رہ نماؤں نے گاندھی کے عدم تشدد اور سول نافرمانی کے اصولوں کو اپناکر اپنی تحریکوں کو کامیاب بنایا۔ گاندھی کا سادگی اور خود انحصاری کا فلسفہ آج کی دنیا میں ماحولیاتی تحریکوں کے لیے بھی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ خود انحصاری، سادہ زندگی، اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کے حامی تھے، جو کہ آج کی دنیا میں پائیداری اور ماحولیاتی تحفظ کی تحریکوں کے بنیادی اصول ہیں۔

مہاتما گاندھی بحیثیت ایک انسان اگرچہ مہاتما گاندھی کو ایک مقدس شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک انسان تھے۔ ان کی زندگی تضادات، جدوجہد، اور ذاتی ناکامیوں سے بھری ہوئی تھی۔

وہ ایک ایسے شخص تھے جو مسلسل اپنے آپ کو بہتر بنانے اور اپنے ارد گرد کی دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ان کی ذاتی تحریریں اور خطوط سےاس بات کا انکشاف ہوتا ہے۔ گاندھی جی کی سب سے مشہور کتاب” سچ کے ساتھ میرے تجربات”ان کی زندگی کے فلسفے کا نچوڑ پیش کرتی ہے۔

وہ سچائی کے راستے کو سب سے اعلیٰ اور مقدس سمجھتے تھے اور اپنی زندگی بھر اسی اصول پر عمل پیرا رہے۔ ان کا فلسفہ “سیتیہ” (سچ) پر مبنی تھا، اور وہ اسے کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ گاندھی جی نے زندگی بھر سچائی کے ساتھ کئی تجربات کیے، جن میں ذاتی تعلقات، روحانی تجربات، اور اخلاقیات کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد شامل تھی۔ ان کا یقین تھا کہ سچائی کی جستجو میں انسان کو کبھی بھی دوسروں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے، اور یہی وجہ تھی کہ وہ عدم تشدد کے اصول پر سختی سے عمل کرتے رہے۔

اس کو بھی پڑھیں : گاندھی جی:  حق گوئی اور بے باکی کی مثال

گاندھی جی کو سب سے زیادہ ان کے عدم تشدد کے فلسفے کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جسے انہوں نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں بطور ہتھیار استعمال کیا۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عدم تشدد گاندھی جی کے لیے صرف ایک سیاسی حکمت عملی نہیں تھی بلکہ یہ ان کے روحانی اور اخلاقی اصولوں کا مرکز تھا۔

گاندھی جی کا فلسفہ “اہنسا” (عدم تشدد) پر مبنی تھا، جس کا مطلب تھا کہ کسی بھی حالت میں دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ یہ فلسفہ نہ صرف جسمانی تشدد سے بچنے کی تلقین کرتا تھا بلکہ زبانی اور ذہنی تشدد سے بھی دور رہنے کا مطالبہ کرتا تھا۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ دنیا کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے انسان کو اپنے اندر کی نفرت اور تشدد کو ختم کرنا ہوگا۔

عدم تشدد کے اصول نے گاندھی جی کی ذاتی زندگی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ ہر قسم کے تشدد سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے، یہاں تک کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی نرم رویہ رکھتے تھے۔ ان کی عدم تشدد کی مہمات نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ دنیا بھر میں ظلم اور استحصال کے خلاف مزاحمت کا ایک مضبوط ذریعہ بن گئیں۔

گاندھی جی کی زندگی کا وہ پہلو جو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ ہے ان کا جنوبی افریقہ کا دور۔ جب گاندھی جی 1893 میں ایک وکیل کے طور پر جنوبی افریقہ گئے تو وہاں کی نسل پرستی اور نسلی امتیاز نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی نے پہلی بار نسلی امتیاز کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، جو بعد میں ان کی ہندوستانی آزادی کی تحریک کی بنیاد بنی۔

جنوبی افریقہ میں رہتے ہوئے، گاندھی جی نے اپنی زندگی کے اہم اصولوں، جیسے ستیہ گرہ (سچائی کی طاقت) اور اہنسا (عدم تشدد) کو عملی جامہ پہنایا۔ انہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف ہندوستانیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کئی تحریکیں چلائیں، جن میں سب سے مشہور 1906 میں ستیہ گرہ تحریک تھی۔ یہی تحریک ان کی پوری زندگی کا فلسفہ بن گئی اور بعد میں ہندوستان میں ان کی آزادی کی جدوجہد کا اہم حصہ بنی۔

گاندھی جی کی زندگی کا ایک اور پہلو جو اکثر پس منظر میں رہتا ہے، وہ ہے ان کا ہندوستان کے سماجی ڈھانچے میں اصلاحات لانے کا عزم۔ گاندھی جی نے نہ صرف سیاسی آزادی کے لیے جدوجہد کی، بلکہ وہ ہندوستانی سماج کی دیگر خامیوں، جیسے کہ ذات پات کے نظام اور چھوت چھات کے خلاف بھی لڑے۔ انہوں نے خاص طور پر اچھوتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، جنہیں وہ “ہریجن” (خدا کے لوگ) کہتے تھے۔

گاندھی جی کا ماننا تھا کہ ہندوستان میں حقیقی آزادی تبھی ممکن ہوگی جب سماج کے سب سے نچلے طبقے کو بھی عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حق ملے گا۔ اس کے لیے انہوں نے کئی سماجی اصلاحات کی تحریکیں چلائیں اور ذات پات کے خلاف لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔

گاندھی جی کی زندگی اسباق کا ایک خزانہ ہے، جن میں سے بہت سے ابھی تک عوامی گفتگو میں دریافت نہیں ہوئے۔ اگرچہ ان کی عوامی کامیابیوں کو سراہا جاتا ہے۔ لیکن بحیثیت انسان ان کے ذاتی سفر کو “سچ کے ساتھ میرے تجربات” کی روشنی میں نسل اور طبقاتی تقسیم کے بارے میں ان کے بدلتے خیالات، ان کے پیچیدہ تعلقات، اور ان کے غیر روایتی روحانی تجربات—جو ہمیں مہاتما کے پیچھے چھپے ہوئے انسان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

آج کے دور میں، جہاں دنیا بھر کی سیاست میں تشدد اور تقسیم کا غلبہ ہے، گاندھی کا پیغام عدم تشدد، برداشت، اور خود احتسابی پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اس سال گاندھی جینتی کے موقع پر، ہمیں صرف ان کی عظیم کامیابیوں کو یاد کرنے کے بجائے ان کی ذاتی جدوجہد اور ان چھوئے پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے جنہوں نے ان کے عظیم بننے کی راہ ہموار کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *