ہنستے زخم
ہنستے زخم
از قلم: *_ایوب مظہر نظامی_*
٢٠/ اپریل ٢٠٢٤ء کی یونہی ایک عام سی شام تھی جب میں اپنی جھونپڑی میں بیٹھا کچھ لکھنے میں مصروف تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے، منتشر خیالات اور بکھرے ہوئے افکار کے ہجوم میں جب اپنے مضمون کا تانا بانا بن رہا تھا کہ چونک پڑا اور فون اٹھایا تو ایک پاٹ دار مگر بیکراں جذبات سے لبریز آواز گونجی علیک سلیک کے بعد وہ اپنے اصل مدعے پر آئے اور فرمایا کیا بات ہے ٢٠٢٤ء کے پارلیمانی انتخابات پر اب تک آپ کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا؟ میں نے مصروفیات کا بہانہ کر بات ٹالنے کی پوری کوشش کی مگر ان کی آواز میں اس قدر درد اور دل میں قوم و ملت کے تحفظ و بقاء کا ایسا جذبہ موجزن تھا کہ میں نے اپنے موقف کو تحریری جامہ پہنانے کا وعدہ کرکے فون رکھ تو دیا مگر دل ماضی کی بداندیشانہ حرکتوں اور مستقبل کے خوفناک سیاسی صورتحال کی وادی میں بھٹکنے لگا، جہاں ہمارے ناعاقبت سیاسی رہنماؤں نے محض اپنے وجود کو افق سیاست پر نمایاں کرنے کی حسرت میں بنام مذہب راتوں رات متعدد نئی سیاسی پارٹیاں تشکیل کر ڈالی اور اس طرح فرقہ پرست عناصر کے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا،
کہتے ہیں کہ *_”سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا، وہ ایک آگ ہے جو پہلے خود بھڑکتی ہے، پھر بھڑکائی جاتی ہے اس کی دشمنیاں بھی ناپائیدار ہیں اور دوستیاں بھی ناپائیدار، وہ شرابی کا نشہ ہے جو صبح ہوتے ہی اتر جاتا ہے اور دن ڈھلتے ہی نئی طلب میں تروتازہ ہو جاتا ہے”_*
مذکورہ بالا اقتباس کو آپ حالیہ پارلیمانی الیکشن کے تناظر میں ملاحظہ کر سکتے کہ ملک میں سات فیز میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی سرگرمیاں اپنے شباب پر ہیں، جس کے نتائج ٤/ جون کو آنے والے ہیں، اس بیچ سیاست کے گلیاروں میں آرزومندان اقتدار کا جم غفیر ہے، جہاں ہر شخص اپنی خودداری، وفاداری، شان و شوکت اور اپنے ایمان و ضمیر کو ہتھیلی پہ لیے اس قامت دلجو کی جلوۂ گاہ ناز میں باریاب ہونا چاہتا ہے اور ہرفرد اس ہزار شیوہ نازنین کے لئے اس مقتل میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے، ان آرزو مندوں کی بھیڑ میں جہاں اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے لئے بلیک میلر، اسمگلر، بھتہ وصول کرنے والے کمیشن چور، شرابی اور عادی مجرم ہیں وہیں نقیبان توحید و رسالت، وارثین منبر ومحراب اور پاسبان مذہب وملت بھی ہیں، قلم شعلے برسا رہے ہیں تو زبانیں زمین وآسمان کے قلابے ملانے سے نہیں تھک رہی ہیں،
مختلف دانشورانِ قوم اور قلم کاروں کی مثبت و منفی پہلوؤں پر تیکھے اور منطقی دلائل پڑھنے کو مل رہے ہیں، کچھ لوگ اظہار دانشوری کے لئے خطیبانہ لب و لہجہ میں مسلمانوں کے محفوظ مستقبل کا ایسا خواب بن رہے ہیں جس میں نہ تو کوئی سوچ ہے، نہ فکر، نہ عبرت کا سامان اور نہ ہی نتائج، ہم نہ کسی کے بھاڑے کے مقرر ہیں اور نہ کسی کے قلمی مجارو کہ ایک کو خراج عقیدت پیش کریں اور دوسرے سے اظہار تعزیت اس لئے ہمیں اپنے موقف کے اظہار پر کسی معذرت خواہانہ لب و لہجہ کی قطعاً ضرورت نہیں، ہمیں تو بس ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں حقیقت کو واضح کرنا کہ بنام مذہب سیاست اور زمین کے بٹوارے نے ہماری نسلوں کو نفرت و عداوت اور تعصب و بیزاری کی جو سوغات پیش کی ہے اس نے ہمیں جسمانی و ذہنی طور پر اتنا مفلوج کر دیا ہے کہ آج ہم سے ہماری ہی زمین پر اپنی شناخت کا تقاضا کیا جا رہا ہے اور ہم دو قدم بڑھ کر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم وہی ہیں جن کے بزرگوں نے ہندوستان کے سہاگ کی سلامتی کے لئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا تھا، یہ دو قومی نظریات کے نتائج ہیں جنہوں نے بنام مذہب زمینوں پر سرحدوں کی تقسیم کرکے نفرت اور جنگ و جدال کا بیج بو دیا ہے، تقسیم ہند کے سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی سرحد کے اس پار ہمارے ہمارے بھائیوں کو ” مہاجر” کہہ کر ان سے سوتیلا رؤیہ برتا جا رہا ہے اور ان سے ملک کے تئیں وفاداری کا ثبوت مانگا جا رہا ہے اور یہاں ہماری عبادت گاہیں، ہمارے مذہبی تشخصات اور ہمارے آئینی حقوق اپنی بازیابی کے لئے برسرپیکار ہیں، یہ تلخ حقیقت اپنے حلق سے نیچے اتار لینے میں ہمیں کوئی حرج نہیں ہوناچاہیے کہ اگر سیاسی مفاد کے لئے دو قومی نظرات کی قیادت کرنے والوں کے سروں سے ہم نے سرحدوں کی تقسیم کا نشہ اس وقت اتار دیا ہوتا تو آج غالباً انسانیت کا لہو یوں ارزاں نہ ہوتا نہ اقلیت کا لیبل ہماری لوحِ پیشانی پر مرتسم کیا جاتا، نہ ہی ہمارے مذہبی تشخصات یوں منہدم کیا جاتا اور نہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ہمارے ناکام اتحاد کو دیکھ کر یوں متحد ہوتے،
بقول شاعر
*_صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہِ شوق میں!_*
*_منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی!_*
ڈاکٹر اقبال نے *_” متاعِ کارواں”_* کے لٹنے سے زیادہ *_”احساس زیاں”_* کے فقدان پر نوحہ کیا ہے کہ احساس زیاں اگر ہو تو متاعِ کارواں پھر لایا جا سکتا ہے اور منزل کی طرف پیش قدمی کی جا سکتی ہے، مگر لٹنے کا احساس ہی مٹ جائے تو منزل کی طرف کبھی جادہ پیمائی نہیں کی جا سکتی اقلیم زندگی کی سطح پر مسلمانوں کے مذہبی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی زوال کی بنیادی سبب کو اس فلسفے میں دیکھا جا سکتا ہے،
آج مسلمان زندگی کے تمام شعبوں میں زوال پذیر ہیں، مگر اس سے بھی زیادہ دلخراش حقیقت یہ ہے کہ انہیں ابھی تک اپنے زوال کے بنیادی سبب کا ادراک نہیں ہو سکا ہے، مسلمان ٢٠٠ سو برس پہلے اپنے دور اقتدار کے تحکمانہ انداز کے ساتھ آج بھی جی رہا ہے جس کے پاس، حقوق کی ادائیگی، ذاتی محاسبے کی فرصت نہیں بلکہ حقوق طلبی، احتجاج، جذباتی نعرے اور شکایتوں کا ایک لامتناہی دفتر ہے جن کے ذریعے وہ اپنے عہدے رفتہ میں لوٹنا چاہتے ہیں جو آج تک نہیں لوٹ سکا
اویسی صاحب کے لئے ہمارے دل میں احترام بھی ہے اور محبت بھی اور چونکہ محبت میں سب کچھ جائز ہے اس لئے اویسی صاحب سے معذرت کے ساتھ کہ آج اگر ہم
٧٠ سال کے بعد پھر اسی غلطی کو دوہرا رہے ہیں اور مذہبی وحدت کے نام پر مسلم سیاسی جماعت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں تو پھر ١٠٠/ کروڑ کی قوم مذہب کے نام پر آپ سے کیوں الگ نہیں ہوگی، اور جب سو کروڑ کی قوم ہم ٣٠/ کروڑ کے مقابلے کھڑی ہوگی تو ہندوستان میں ہمارے لئے اپنے بیش قیمت زیست کے چند لمحے گزارنا مشکل ہو جائے گا، مجھے حیرت ہے ان خود ساختہ دانشوروں پر جو بنام مذہب مسلم سیاسی جماعت مجلس اتحاد المسلمین کا علمبردار ہیں کیا ان کی نگاہوں کے سامنے ماضی قریب کے مسلم سیاسی جماعت کی تشکیل کا عبرتناک انجام نہیں ہے یہ تو ایسا ہی ہوا کہ *_”آ بیل مجھے مار”_* ملی و مذہبی امور کی طرح اگر ہم نے کار گاہ سیاست میں بھی ناعاقبت اندیشانہ لب و لہجہ، موہوم افکار اور خطیبانہ جذبات کے سہارے چلنے کی غلطی کی تو گجرات کی ظلم بربریت کی دلدوز داستان ہمیشہ ہمارے ساتھ دہرائی جاتی رہے گی کیونکہ مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے مگر ملکی سیاست کا تعلق ہر ایک ہندوستانی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس لئے ذاتی مفادات اور بے فیض جذبات کی آڑ میں ٣٠ کروڑ مسلمانوں کی زندگی داؤ پر نہ لگائی جائے بلکہ اپنے کارناموں کی بنیاد پر اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرکے اپنے وجود کو ملکی سیاست میں ناگزیر بنانے کی کوشش کی جائے بالفاظ دیگر مسلمانوں کو کسی سیکولر سیاسی پارٹی سے منسلک ہوکر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے،
اخیر میں دانشورانِ قوم و ملت سے محض اتنی گزارش ہے کہ ذاتی منفعت کے لئے سیاسی بساط پر مسلمانانِ ہند کے خرید وفروخت کا گورکھ دھندا بند کریں، محض اظہارِ دانشوری، شخصی عقیدت اور ذاتی خسروی کے حصول کے لئے لوح و قلم اور زبان و بیان سے ملت کو دار پر چڑھائے جانے کی تائید کرنا حرمت لوح و قلم کا خون کرنا اور زبان و بیان کے تقدس کو پامال کرنا ہے،
(نوٹ) ٣٠ کروڑ کا ہندسہ ذاتی تخمینہ ہے جسے سرکاری اعداد و شمار سے کوئی لینا دینا نہیں
١٢/ شوال المکرم ١٤٤٥ھ بروز پیر