عید الفطر کا یوم سعید خلوص عطیہ الہٰی
تحریر: افتخاراحمدقادری برکاتی :: عیدالفطر کا یوم سعید خاص عطیہ الہٰی
عیدالفطر کا یوم سعید خاص عطیہ الہٰی
خیر و برکت کا مہینہ رمضان المبارک اپنی برکتیں باٹتا ہوا گزر گیا- عید الفطر کا مسرت خیز ہلال آسمان پر رونما ہوا- ہر طرف مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی ہر چہرہ فرحت خوشی سے مثل گلاب کھل اٹھا ہر گھر سے فرحت و انبساط کا اظہار ہونے لگا
عید الفطر کا یوم سعید خاص عطیہ الہٰی ہے- ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے والوں کو خلاق کائنات نے بطورِ انعام یہ مقدس دن عطا فرمایا ہے- یہ دن انواع و اقسام کی غذائیں کھانے اور کھلانے کا دن ہے- غریبوں،فقیروں،مفلسوں، تنگدتسوں کی امداد و اعانت کا دن ہے
صدقہ و خیرات کا دن ہے- ملت اسلامیہ کے لئے اظہارِ مسرت کا دن ہے- یتیموں، بے سہاروں، ناداروں، بے نواؤں کی خبر گیری کا مخصوص دن ہے- صاحبانِ نصاب پر لازم ہے کہ وہ مستحقین کو صدقہ فطر ادا کریں تاکہ ملت کے غرباء و فقراء بھی عید کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہوں آج کے دن کوئی محروم شادمانی نہ رہے- ملت اسلامیہ میں کوئی بھوکا نہ رہے- کسی کا دل عسرت و فاقہ کشی کے زخموں سے مضمحل نہ ہو- آج کا دن ملت مرحومہ کے لئے خوشی کا دن ہے اظہارِ تشکّر اور باہمی ملاقات کا دن ہے
خبردار! آج کوئی چولہا ویران نظر نہ آئے، کوئی آنکھ شدت افلاس سے نم نہ ہو- کوئی جسم کپڑوں سے برہنہ نہ ہو- کوئی یتیم اپنی یتیمی پر بلکتا نہ دکھائی دے- کوئی بچہ احساس کمتری کا شکار ہوکر شرمندہ اور غمزدہ نہ ہو- یہ سرمایہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے غرباء کا خیال رکھیں- آج کا دن انہیں خوشیاں تقسیم کریں- ازالہ غربت کا سامان فراہم کریں
واقعی عید تو سبھی مسلمانوں کے لیے ہے سبھی کو خوش وخرم ہونا چاہئے کوئی غم غربت میں آج روتا نہ دکھائی دے کوئی تیغِ افلاس کا زخمی آج تڑپتا نہ نظر آئے- ملت کے سرمایہ داروں کو یہ سب سوچنا ہوگا
آج کے دن ایک دوسرے کو مبارکباد دیجئے ایک سال کے بعد الله رب العزت نے یہ مبارک دن عطا فرمایا ہے- ہر مسلمان حتیٰ الامکان ایک دوسرے سے عید ملے، خلوص و محبت سے ملے- گلے ملنا رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سنت ہے
خبردار! آج کے دن سینے میں کینہ نہ رہے- قرآن مجید میں الله رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں- اگر کوئی مسلمان آپ سے ناراض ہے اسے راضی کیجئے اور اس سے معانقہ کیجئے- ماہ رمضان المبارک کے روزوں نے باطن کی تطہیر کردی ہے- صفائی کے ساتھ ملئے ایک دوسرے کا خیال رکھئے غریب مسلمان کو اپنا جانئے اسے کسی موقع پر تنہا نہ چھوڑئے غریب انسان کو سینے سے لگا کر یہ باور کرا دیجیئے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں
گزشتہ سال میں قوم مسلم میں اگر کوئی تفرقہ و انتشار ہوا تھا تو عید الفطر کے مبارک دن نے اسے مٹا دیا- آج کے دن سب آپس میں بغل گیر ہیں- ایک دوسرے سے ملاقی ہیں- اخوت ومساوات کا بھرپور مظاہرہ ہورہا ہے غریب امیر سے، فقیر بادشاہ سے، کالا گورے سے، مفلس زردار سے، چھوٹا بڑے سے گویا ہر مسلمان باایک دیگر سینہ بہ سینہ مل رہا ہے
آج عیدالفطر کے مبارک دن نے سب کو آپس میں ملا دیا ہے- اب آج کی طرح مسلمان آپس میں مل کر رہیں- افتراق و انتشار کو اپنی صفوں میں داخل نہ ہونے دیں- کینے کو سینے میں نہ گذرنے دیں- نفرتوں کے پودوں کو نہ پنپنے دیں- بغض و عناد کی آگ نہ جلنے دیں- اب عداوتوں کے ناگ سر نہ اٹھانیں پائیں- اب دشمنی کے بیج نہ اگیں- کدورتوں کی چنگاری نہ سلگے- باہمی اختلافات کے بازار گرم نہ ہوں- برادری واد کی مسموم ہوائیں نہ چلیں
خبردار! آئندہ کسی غریب کا دل نہ دکھے- کسی یتیم کو تکلیف نہ پہنچے- کسی بے سہارہ کو گزند نہ پہونچے- کسی مسلمان کو ایذا نہ ہو- کسی پڑوسی کو دکھ نہ پہنچے
آج عیدالفطر کا دن ہے آج کی طرح شیر و شکر ہوکر رہنا ہے- اے مسلمان یہی عید الفطر کا پیغام ہے اور ایسی ہی عید کے موقع پر میں تمام قارئین کو مبارکباد دیتا ہوں- عید مبارک!!!!
حضرتِ سیدنا عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ عید کے دن اپنے شہزادے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رو پڑے، شہزادے نے عرض کیا، پیارے ابا جان! آپ کس لئے رو رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا بیٹے! مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے آپ کو اس پھٹے پرانے قمیص میں دیکھیں گے تو آپ کا دل ٹوٹ جائے گا- شہزادے نے جواباً عرض کیا دل تو اس کا ٹوٹے جو رضائے الٰہی کو نہ پاسکا یا جس نے ماں یا باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی رضا مندی کے طفیل الله رب العزت بھی مجھ سے راضی ہوگا
یہ سن کر حضرتِ عمر رضی الله تعالیٰ عنہ عنہ تو پڑے، شہزادے کو گلے لگایا اور اس کے لئے دیا کی-( مکاشفتہ القلوب)
امیر المومنین حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی الله تعالیٰ عنہ کج خدمت میں عید سے ایک دن قبل آپ کہ شہزادیاں حاضر ہوئیں اور بولیں بابا جان! کل عید کے دن ہم کون سے کپڑے پہنے گے؟ فرمایا یہی کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں انہیں آج دھولو کل پہن لینا
نہیں!بابا جان! آپ ہمیں نئے کپڑے بنوا دیں
ننھی منی شہزادیوں نے ضد کرتے ہوئے کہا
آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
میری پیاری بچیو! عید کا دن الله رب العزت کی عبادت کرنے اور اس کا شکر بجا لانے کا دن ہے- نئے کپڑے پہننا ضروری تو نہیں
بابا جان! آپ کا فرمان بیشک درست ہے لیکن ہماری سہیلیاں اور دوسری لڑکیاں ہمیں طعنے دیں گی کہ تم امیر المومنین رضی الله تعالیٰ عنہ کی لڑکیاں ہو اور وہی پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں
یہ کہتے ہوئے شہزادیوں کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے- یہ دیکھ کر امیر المومنین رضی الله تعالیٰ عنہ کا دل بھی بھر آیا- آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے خازن ( وزیر مال) کو بلاکر فرمایا: مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیش گی لادو
خازن نے عرض کی حضور! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک مزید زندہ رہیں گے؟ آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
جزاک اللّٰہ خیرا- آپ نے بیشک عمدہ اور صحیح بات کہی
خازن چلا گیا آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے شہزادیوں سے فرمایا: پیاری پیاری بیٹیو! الله رب العزت اور رسول کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی رضا پر اپنی خواہشات کو قربان کردو، کوئی شخص اس وقت تک جنت کا مستحق نہیں بن سکتا، جب وہ کچھ قربانی نہ دے- (معدن اخلاق)
معزز قارئین! دیکھا آپ نے! گذشتہ حکایات سے ہمیں یہی درس ملا کہ اجلے کپڑے پہن لینے کا نام ہی عید نہیں- رنگ برنگے کپڑے پہنے بغیر بھی عید منائی جاسکتی ہے
الله اکبر! حضرتِ سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی الله تعالیٰ عنہ کس قدر غریب و مسکین خلیفہ تھے- اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے کے باوجود آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے کوئی رقم جمع نہ کی تھی- آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کے خازن بھی کس قدر دیانت دار تھے
اُنہوں نے کیسے خوبصورت انداز سے پیش گی تنخواہ دینے سے انکار کردیا- اس سے ہم سب کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے اور پیش گی تنخواہ یا اجرت لینے سے پہلے خوب اچھی طرح غور کرلینا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیشگی لی ہوئی تنخواہ یا اجرت کا حق ادا کرنے سے پہلے ہی موت آجائے اور ہمارے سر پر دنیوی مال کا وبال رہ جائے اور خدا نخواستہ آخرت میں ہم پھنس جائیں
تحریر: افتخاراحمدقادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com