تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
ہمیں غیرجانب داری کے ساتھ نہ صرف غیروں کے اقدامات ، بلکہ اپنی مذموم حرکتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے
ڈاکٹر غلام زرقانی ، چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا
کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں، جن کے اثرات عارضی اور وقتی ہوتے ہیں ، جو بہت جلدحافظے سے محو ہوجاتے ہیں ، تاہم کچھ کوتاہیاں ایسی بھی ہوتی ہیں، جن کے منفی اثرات نہ صرف طویل مدتی ، بلکہ بسا اوقات کئی صدیوں تک جاری رہتے ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیںکہ دوسری صورت میں غلطی توماضی میں کسی عیارومکار نے کی ہے ، لیکن آنے والی کئی نسلیں اس کی سزا جھیل رہی ہیں ۔ دبے لفظوںمیں سننے کی سکت ہوتوکہہ دوں کہ مسئلہ فلسطین کا تعلق بھی اسی دوسرے مفروضہ سے ہے ۔
میں نے سابقہ کالم میں تاریخی حوالوں سے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کچھ عرض کیا تھا۔ خیال رہے یہ تمام تر گفتگومملکت اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد کے پس منظر میں تھی۔
اب آئیے ذرا اِس سے پہلے کے حالات کا جائزہ بھی لے لیجیے۔پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ قائم رہی ، جس کے زیر نگیں مشرقی وسطیٰ کے ممالک بھی تھے ۔
حرمین شریفین کو اس دور میں حجاز کے نام سے یاد کیا جاتاتھا، جس پر قبیلہ بنوہاشم سے تعلق رکھنے الے خاندان حکمراں بنائے جاتے تھے، جو ’شریف مکہ ‘ کہلاتے تھے ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران شریف مکہ حسین بن علی تھے ۔ تاریخی اعتبار سے ۱۹۱۵ء میں حسین بن علی نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیااور آس پاس کے عرب قبائل سے تعلق رکھنے والے تیس ہزار نوجوانوں پر مشتمل ایک فوج بھی تیار کرلی ۔
یہاں یہ بات خصوصیت کے ساتھ سننے کے قابل ہے کہ شریف مکہ کی بغاوت کے پیچھے جس شخص نے کلیدی کردار ادا کیا ، وہ ہم میں سے نہیں تھا، بلکہ برطانیہ کا معروف جاسوس تھامس ایڈوارڈ لارنس تھا، جو عرف عام میں ’لارنس آف عربیہ ‘ کے نام سے مشہور ہے ۔خیال رہے کہ لارنس آف عربیہ کہنے کو توآثارقدیمہ کے ماہر کی حیثیت سے عرب میں داخل ہوا تھا۔
لیکن اس نے اپنی ذہانت وفطانت سے بہت جلد عربی زبان بھی سیکھی اور برطانیہ کے اشارے پر دھیر ے دھیرے عرب مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی کرنے لگا۔
یہی وجہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب ترکی کی گرفت کسی قدر کمزور ہونے لگی، تو برطانیہ اور فرانس نے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی درپردہ سازش کی۔ اور اس مقصد کے لیے لارنس آف عربیہ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ لارنس آف عربیہ اور برطانوی سفارت کار سررونالڈ اسٹورس نے شریف مکہ سے ملاقات کی اور انھیں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت میں ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ اس طرح شعلہ بغاوت تیز سے تیز تر ہونے لگا۔
اسٹارس اور لارنس نے شریف مکہ کے بیٹے عبداللہ سے مشاورت کی اور پھر مزید تبادلہ خیالات کے لیے شریف مکہ کے دوسرے بیٹے فیصل کے پاس جا پہنچے ، جو مدینہ کے جنوب میں عرب فوجوں کی قیادت کررہے تھے ۔
اسی درمیان برطانیہ نے لارنس کو فیصل کی زیر قیادت فوج میں بطور رابطہ کار افسر شامل کرادیا ، تاکہ برطانیہ سے بوقت ضرورت فوری امداد پہنچائی جاسکے ۔رفتہ رفتہ ترکوں کے خلاف گوریلا جنگ کی منصوبہ بندی سے لے کر سامان رسد کی فراہمی تک میں انھیں اہمیت دی جانے لگی
یہاں تک کہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا دماغ بن گئے تھے ۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں فوجی نقل وحمل کے لیے ریل کی سہولت بروئے کار لائی جاتی تھی۔
لارنس آف عربیہ نے ترکی سے فوجی امداد روکنے کے لیے پل اور ریل کی پٹریاں تباہ کر نے میں اس قدر مہارت حاصل کرلی تھی کہ عرب انھیں ’امیر ڈائنامائٹ ‘ کہتے تھے ۔
بہر کیف، لارنس آف عربیہ اور سررونالڈ اسٹورس کے ذریعہ برطانوی سامراج نے جب سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے ، تو شام ، اردن ، فلسطین ، عراق اور لبنان کے علاقے باہم تقسیم کرلیے ۔آل سعود جس نے پہلے ہی درعیہ کے علاقے پر اپنی حکومت بنارکھی تھی۔ ۱۹۲۴ ء میں حجاز پر بھی قبضہ کرلیا۔
اس طرح ۱۹۳۲ء میں حجاز، نجد اور دیگر علاقوں پر مشتمل اپنی سلطنت بنام سعودیہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ برطانیہ نے شریف مکہ کے بیٹے فیصل کو عراق کا اور دوسرے بیٹے عبداللہ کو اردن کابادشاہ بنادیا۔ اور فلسطین کے علاقے اپنے قبضے میں رکھ لیے ۔اس طرح اسرائیلی ریاست کے لیے زمین پوری طرح ہموار کی گئی ۔ ساری دنیا سے سمٹ کر یہودی فلسطین میں آنے لگے ۔
یہودیوں نے عرب مسلمانوں سے منہ مانگی قیمت پر زمینیں خریدیں اوررفتہ رفتہ اپنے قدم جمانے لگے ۔
یہاں پہنچ کر مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ فلسطین کو موجودہ نازک حالات سے دوچارکرنے میں کون کس حد تک مجرم ہے ؟
ظاہر ہے کہ آئینہ کبھی کذب بیانی نہیں کرتا، وہ ہمیشہ سچ دکھا دیتاہے ۔
ٹھیک ہے , ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کے خلاف سازش ہوئی ، لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کیجیے کہ مذموم سازش کے اجرامیں عربوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔کیا اس زمانے میں یہ موٹی بات بام شہرت تک نہیں پہنچ چکی تھی کہ برطانیہ اپنی سامراجیت کی وسعت بڑھانے کے لیے بے تاب ہے ؟
عرب ممالک ہندوستان سے کوئی بہت زیادہ دور نہیں تھے ، انھیں یقینا خبر ہوگی کہ کس طرح برطانوی جاسوسوں نے ہندوستان پر قبضہ کیاہے؟ سب جانتے باجھتے اپنے معاملات غیروں کے حوالے کرنے کی جسارت کیا قابل تلافی جرم ہے ؟
جان کی امان ملے توعرض کروں کہ اگر فلسطین کے مسلمانوں پر جبر وقہر، ظلم وزیادتی اور قتل وخون کے لیے اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک ذمہ دار ہیں ، توکسی نہ کسی حدتک ہم بھی ذمہ دار ہیں ۔
صاحبو! ہزار تاریخی شواہد کے باوجود ہم صاف صاف کہے دیتے ہیں کہ سو سال پہلے جن عاقبت نااندیش قیادت نے برطانوی اشارے پر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ہے ، وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے ، اس لیے ان کے جرائم کی سزا ہمارے نونہالوں کودیناکسی طور قابل قبول نہیں ہے ۔ ٹھیک ہے ، جو غلطی انھوں نے کی ہے ، اس کی سزا آخرت میں انھیں ضرور ملے گی
لیکن ہم بہر کیف، ظلم تشدد، سفاکیت وبربریت اور قتل وخون کے خلاف پہلے بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے ۔یہ بات خوش آئند ہے کہ موجودہ اسرائیلی بربریت کے خلاف ا ب وہاں بھی متحدہ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں ، جہاں سے اسرائیل کو کمک فراہم کی جاتی ہے ۔
ابھی حال ہی میں برطانیہ میں بہت عظیم الشان احتجاج ہوا ہے ، جس کانتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرار داد پر ووٹنگ سے برطانیہ غیر حاضر رہاہے۔ امریکہ میں بھی تقریبا تمام شہروں میں احتجاج ہورہے ہیں ، جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انصاف پسند غیر مسلم بھی شریک ہورہے ہیں ۔
اس لیے امید قوی ہے کہ ان شاء اللہ حالات بہت جلد تبدیل ہوں گے کہ قرآنی وعدہ ہے کہ مشکلات کے بعد نہیں ، بلکہ ’ مشکلات کے ساتھ ہی آسانی ہے ‘۔