ہاں میں دو ہزار کا نوٹ ہوں

Spread the love

ہاں میں دو ہزار کا نوٹ ہوں

از : ! نازش ہما قاسمی

جی ہندوستانی روپیے میں قدرومنزلت کے اعتبار سے سب سے بڑا نوٹ ، مجھے کالا دھن پر قدغن لگانے کےلیے ۸؍ نومبر ۲۰۱۶ کو پانچ سواور ہزار کے نوٹ کے بند کیے جانے کے اعلان کے بعد مارکیٹ میں اتارا گیا

گلابی رنگ کا ، طول عرض میں ۲۳۲ ملی میٹر ،ایک طرف گاندھی جی کی ۱۹۴۶ میں لی گئی مسکراہٹ والی تصویر اور اشوک استمبھ وہیں دوسری طرف ہندوستان کے پہلے مریخ مشن ’منگل یان ‘ سیٹلائٹ اور گاندھی جی کا چشمہ جس کے فریم کے ایک دائرے میں ’سوچھ ‘دوسرے میں ’بھارت ‘ درج ہے، بقول ایک معروف کامیڈین کے کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صاف رہے گا تو بھارت نہیں ، بھارت رہے گا تو صاف نہیں‘‘ ، دیدہ زیب ، خوبصورت کرنسی ہوں۔

ہاں میں وہی دو ہزار کا نوٹ ہوں جسے جب لانچ کیاگیا تو ہر طرف میرے فضائل ومناقب بیان کیے جارہے تھے، ٹی وی سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر سو میرے ہی چرچے اور گن گان تھے، گودی میڈیا کے بدھی جیوی بھی میرے قصائد میں رطب اللسان تھے، کویتا باجی سے لے کر سوسودھیر بھیا تک سبھی میری وہ خوبیاں بیان کررہے تھے

جو مجھے بھی نہیں معلوم تھیں کہ مجھ میں ہے بھی یا نہیں؛ لیکن انہیں کالا دھن روکنے، دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور ہندوستان کے غریبوں کو مال دار بنانے کی دھن سوار تھی، ان کا میرے تئیں مخلصانہ جذبہ ہی تھا کہ میں چند ہی دنوں میں پورے ملک میں معروف ہوگیا اور لوگ میری ایک جھلک دیکھنے اور اس کی تصویر لینے کے لیے تڑپ گئے

لوگ دور دراز کی مسافت طے کرکے مجھے رشتہ داروں کی طرح دیکھنے آتے تھے، شروع میں جلد ہی اے ٹی ایم میں بھی آگیا، غریب کی جیبوں میں بھی کچھ دن کے لیے رسائی رہی، تقریباً آٹھ سال کے عہد طفولیت میں ہی مجھے وہ رتبہ، مقام ، منزلت حاصل ہوئی جو آج تک کسی کو بھی نہیں مل سکی اور شاید ہی میرے بعد کسی کو ملے۔

ہاں میں وہی ۲۰۰۰ کا نوٹ ہوں جس کے بارے میں گودی میڈیا کی اینکر کویتا باجی نے ہاتھ ہلاہلاکر ، انگلیاں چٹخا چٹخا کر، منہ چمکا چمکا کر، گردن گھما گھما کر ببانگ دہل تین اہم ٹکنالوجی و سائنسی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کالے دھن کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کومتبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس (دو ہزار کی نوٹ) میں نینو ٹکنالوجی، جی پی ایس کا استعمال ہے، اگر ایک جگہ پر بہت سارے نوٹ پڑے رہیں گے، تو قانونی طور پر کارروائی کریں گے 

انکم ٹیکس والوں کے پاس سگنل جائے گا، یہ سیدھے سیٹلائٹ کی طرف سگنل پہنچائے گا، او ر وہاں پہنچے گا تاکہ اس پیسے کو نکالا جاسکے، بینکوں میں رہے گا اس سگنل کا کوئی مطلب نہیں ہے،اور ۱۲۰ میٹر نیچے مٹی میں دبا رہے گاتب بھی معلوم پڑجائے گا‘‘۔ وہیں سوسودھیر بھیا نے ’چھی نیوز ’ پر تاریخی ڈی این اے ٹیسٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کالے دھن پر روک کے لیے لائے جارہے دو ہزار روپئے کے کرنسی نوٹ کو بنانے کےلیے نینو ٹکنالوجی کا استعمال ہوگا

یہ بڑی بات ہوگی، دو ہزار کی ہر ایک نوٹ پر نینو جی پی ایس چپ لگی ہوگی، این جی سی کے کام کرنے کے لیے کسی پاور سورس کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ سگنل ریفلیٹر کی طرح کام کرتا ہے، جب کوئی سیٹلائٹ لوکیشن کی جانکاری لینے کےلیے سگنل دیتا ہے، این جی سی لوکیشن سے اس سگنل کو ریفلیٹ کردیتا ہے

اس سے لوکیشن کا صحیح اندازہ مل جاتا ہے اور سیٹلائٹ کو کرنسی کے سیئریل نمبر کی بھی جانکاری مل جاتی ہے، اگر آپ اس نوٹ کو سات تالوں میں بھی بند کرکے رکھیں، ٹریک ہوجائے گا، بھلے ہی دوہزار کے نوٹ کو گرائونڈ لیول سے ۱۲۰ میٹر نیچے کیوں نہ رکھا گیا ہو، اسے برباد کیے بغیر این جی سی کو نہ تو نکالا جاسکتا ہے نہ ہی چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے یعنی دو ہزار کا نوٹ آپ کو پھنسا دے گا۔

این جی سی لگی کرنسی کو ٹریک کیاجاسکتا ہے؛ اس لیے کسی بھی جگہ پر جمع کیے گئے کالے دھن کا ٹھیک ٹھاک اندازہ پہلے سے لگایاجاسکتا ہے‘‘۔ بہرحال میری پروان وپرداخت میں گودی میڈیا کے اُن بے لوث دلالوں کا خلوص ہی تھا کہ میں عہدطفولیت میں ہی بام عروج پر پہنچ گیاسرمایہ دار افراد کالا دھن جمع کرنے سے کترانے لگے

جس سے ملکی روپیہ ڈالر سے کئی گنا بڑھ گیا، ہر طرف خوش حالی و ترقی کے زمزمے گائے جانے لگے، نوکریوں کی بہاریں آگئیں، اشیائے خوردنی انتہائی کم قیمتوں پر دستیاب ہونے لگیں، کسانوں کی خودکشیوں کی شرح تھم گئی، پیسوں کی فراوانی اور افراط زر سے ملک میں آپسی اتحادومحبت کا وہ چشمہ پھوٹا کہ منی پور سے لے کر گجرات تک، کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ہر طرف محبت وامن کی ’ شمع‘ جلنے لگی

میرے آنے کے بعد یومیہ مزدوری کرنے والا مزدور بھی دو ہزار کی نوٹ اپنے جیب میں رکھ کر چودھریوں سے نظر سے نظر اور آنکھ میں آنکھیں ملا کر بات کرتا نظر آیا، کیا غریب کیا امیر سبھی کا مقام یکساں ہوگیا۔ اب جبکہ آر بی آئی نےمجھے اتنی جلدی رخصت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے میں صدمے میں ہوں کہ ملک کی ترقی وخوشحالی کا کیا کیا حال ہوگا؟

ملک کے بہت سے شہری میرے رخصت ہونے پر آب دیدہ ہیں، مارے غم کے زاروقطار قہقہے لگا رہے ہیں، ان غم کے ماروں کو اب حوصلہ رکھنا ہوگا ، ملکی مفاد میں اس طرح کی قربانیاں دی جاتی ہیں جو میں دینے کو تیار ہوں اور یہ بات واضح کردوں کہ میرے آنے سے بھی بھرشٹا چار مٹا تھا اور جانے سے بھی کرپشن مٹ رہا ہے۔

بعض کورچشم عقل کے اندھے میرے جانے پر خوشیاں منارہے ہیں، سوشل میڈیا پر مذاق اڑا رہے ہیں ،میمس کی باڑھ آئی ہوئی ہے ، کچھ حاسدین کا کہنا ہے کہ اینکر اور اینکرائن کی ڈیوٹی بھی کٹھن ہے، پہلے جب نوٹ آیا تو اس کے فائدے بتانے پڑے، اور اب جب بند ہورہا ہے تو پھر بند کے فائدے گنوانے پڑیں گے یہ ہے ماسٹر اسٹروک؟

کچھ الزام لگارہے ہیں کہ ۲۰۱۶ سے ۲۰۱۸ کے درمیان ۲ ہزار کے کل ۷۳۰ کروڑ نوٹ چھاپے گئے، ۲ ہزار کا ایک نوٹ چھپنے میں تین روپیہ ۹۵ پیسے کا خرچ آیا، جب کہ ٹوٹل نوٹ چھاپنے میں تقریباً ۱۴۶۱ کروڑ خرچ ہوئے، اب یہ سارے پیسے پانی میں ڈوب گئے؟ یہ سب تخمینے اندازے محض بھرم پھیلا نے کےلیے ہیں، ملکی مفاد میں میرے جانے سے سونے چاندی کی قیمتوں میں بے پناہ اچھال آگیا ہے ، وہ لوگ خاک جانیں جو حاسدین کے گروہ سے ہیں وہ تو ملکی مفاد کے دشمن اور اس کےلیے خطرہ ہیں وہ مخالف گروہ کے پستہ قد لوگ ہیں

انہیں پستی میں ہی رہنا پسند ہے، جبکہ میری رخصتی عظیم تر مفاد کے تحت ہورہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پہلی بار جب اچانک نوٹ بندی ہوئی تھی تو بیویوں کے پاس شوہروں سے چھپاکر جو کالا دھن جمع تھا وہ باہر آیا تھا جس سے مظلوم شوہروں کو معاشی طور پر سہارا ملا تھا، شوہروں نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا تھا اور کہا تھا کہ ایسی نوٹ بندی ہر دس سال میں ہونی چاہیے؛ تاکہ بیویاں شوہروں کی جیب سے جو رقم نکال کر کالے دھن کی شکل میں جمع کرتی ہیں وہ باہر نکل سکے

مودی حکومت نے اسی کالا دھن کو واپس لانے کی بات کی تھی جس میں وہ سو فیصد کام یاب ہے

بابا رام دیو نے بھی اسی کالا دھن کے بارے میں بات کی تھی۔ہاں میں وہی دوہزار کا نوٹ ہوں جسے جمع کرنے کے لیے آر بی آئی نے اس بار اتنا لمبا وقت دے دیا ہے کہ بیویاں بھی اپنے پاس میری موجودگی کا اعتراف نہیں کر رہی ہیں؛ ورنہ پچھلی بار راتوں رات سب سے زیادہ کالا دھن تو بیویوں کی خفیہ تجوریوں سے ہی برامد ہوا تھا، جس سے بیچارے شوہروں کو بڑا فائدہ ہوا تھا اور انہوں نے اس پیکج سے کافی راحت محسوس کی تھی

خیر میں ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنے وجود کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں، حکومت نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی مجھے قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا، مجھے بند کرنے کا اعلان کرنے کے بعد میری عدت بھی تقریباً وہی متعین کی گئی ہے جو اسلام میں متوفی عنھا زوجھا کی ہے،

یعنی چار مہینے دس دن تک مجھے بینک میں جمع کیا جاسکتا ہے. ہاں میں وہی دوہزار کا نوٹ ہوں جس کے بارے میں میرے چاہنے والے طرح طرح کی چہ میگوئیاں کر رہے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ میرے اندر ہے جو چپ لگی ہوئی ہے، اس کی بیٹری ڈسچارج ہوگئی ہے، حکومت چارج کرکے واپس مارکیٹ میں لائے گی، میرے کچھ محبین کا کہنا ہے کہ اتنی ننھی سی عمر میں ہی مجھے دفنا دیا گیا ہے

ابھی تو مجھے صحیح سے چلنا بھی نہیں آیا تھا، ابھی تو میں حکومت کی انگلی پکڑ کر ہی چل رہا تھا کہ مجھے ابدی نیند سلادیا گیا. ایک ہزار کا نوٹ بند کرکے دو ہزار کا نوٹ جاری کرنا یہ ایک جاہلانہ قدم تھا، شاید یہ سوچ کر کیا گیا تھا کہ تاریخ مجھے یاد رکھے گی کہ کوئی بندہ آیا تھا جس نے دو ہزار کا نوٹ جاری کیا تھا۔ ہاں میں وہی دوہزار کا نوٹ ہوں جس کے بارے میں میرے ایک چاہنے والے نے لکھا ہے کہ: “آر بی آئی نے دو ہزار کے نوٹ کو واپس لینے کا فیصلہ تو کیا ہے؛ مگر صاحب کو شرمندگی سے بچانے کے لیے شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ نوٹ صرف مارکیٹ سے غائب ہوں گے

مگر بدستور لیگل ٹینڈر رہیں گے”۔ خیر صاحب نے جن لوگوں کو دو ہزار کے نوٹ سے کالا بازاری کا موقع فراہم کیا تھا اب وہ لوگ صاحب کو گالیاں دیں گے اور 91 کا عدد ڈبل ہوجانے کا امکان ہے. میرے ایک عزیز نے یہ تعزیتی کلمات لکھے ہیں جو میرے لیے بہترین خراج عقیدت ہے اور دعائیہ جملہ بھی ہے: “ابھی عمر ہی کیا تھی، خدا غریقِ رحمت فرمائے! اور میرا گلا گھونٹ کر مارنے والوں کو جہنم رسید کرے ۔ آمین”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *