کیا آپ مسائل حل کرنے والا ذہن رکھتے ہیں
کیا آپ مسائل حل کرنے والا ذہن رکھتے ہیں
علیزے نجف
تبدیلی اس کائنات میں مسلسل واقع ہونے والا عمل ہے، ہر گزرتے وقت کے ساتھ انسانی زندگی کے نقشے میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے، ایک طرف طرز زندگی، وسائل تبدیل ہو رہے ہیں دوسری طرف مسائل کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔
مسائل کی تبدیلی اس بات کا اعلان ہے کہ ہمیں سابقہ حل سے ہٹ کر ایسا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جو مثبت نتائج پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دیرپا بھی ہو۔
زندگی کے مختلف شعبوں میں آنے والی مسلسل تبدیلیوں اور ان کے چیلنجوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے اسے گہری توجہ و فعالیت کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی زندگی میں نشیب و فراز کا آنا بالکل ایک فطری عمل ہے، ایک طرف آسائشوں اور سہولتوں کے نئے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
وہیں دوسری طرف نئے نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، قدرت کے فطری نظام کے مطابق اس دنیا میں مسائل کے ساتھ اس کا حل بھی موجود ہے مسائل کو کیسے حل کیا جاتا ہے یہ باقاعدہ ایک سکل ہے اس کو سیکھنا پڑتا ہے، فطری طور پہ ہر کسی کے اندر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے
لیکن اکثر وہ خوابیدہ حالت میں ہوتی ہے مشکل وقت آنے پہ بےشک اس میں تحریک پیدا ہوتی ہے لیکن اس کو صحیح طرح سے استعمال کرنے کے لئے اس سکل کو باقاعدہ سیکھنے کی اور اس پہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے معمولات زندگی میں اسے سیکھنا تو درکنار اس کو توجہ طلب بھی تسلیم کرنے کو روادار نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم وقت کے ساتھ مسائل کے گرداب میں اس قدر الجھتے جا رہے ہیں ہماری خاندانی اور عائلی زندگی کا سکون منتشر ہو تا جا رہا ہے اس کے واضح اثرات معاشرے پہ بھی مرتب پڑتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
معاشرہ انسانوں سے ہی تشکیل پاتا ہے اور جب لوگ ہی منتشر الذہن ہوں تو معاشرہ اس کے منفی اثرات سے کیسے بچ سکتا ہے، بےشک یہ بات سچ ہے کہ ہم بہت سے مسائل کو ازخود حل بھی کر لیتے ہیں لیکن اکثر ہم بڑے مسائل کے عارضی حل کو ہی غنیمت جان کر اسے بار بار کارآمد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یا پھر ایک ہی رخ سے اس کو دیکھتے ہوئے فرسودہ طریقوں سے اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے توانائی کے ساتھ وقت کا بھی زیاں ہوتا ہے اور ذہنی صحت بھی الجھاؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔
ماہرین کی رائے کے مطابق اب دنیا اس قدر تبدیل ہو چکی ہے کہ ہمیں انیسویں ، بیسویں صدی کی لائف سکلز کو چھوڑ کر نئی صدی سے ہم آہنگ ہوتی لائف سکلز کو سیکھنے کی ضرورت ہے، مطلب ہمیں اپنی سکلز کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے، ہم محض اپنے ماں باپ اور خاندان کی طرف سے سکھائے جانے والے عادات و اطوار پہ ہی گزارا نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں اپنے مطالعہ و مشاہدہ اور تجربہ کی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ تبدیلی کو بروقت قبول کر کے اس کو مینیج کیا جا سکے۔
وقت کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کی نفسیات بھی تبدیل ہو چکی ہے اس حساب سے مسائل بھی بدل چکے ہیں ان کو گھسی پٹی تکنیک سے حل کیا ہی نہیں جا سکتا ہمیں اس کو حل کرنے کے لئے problem solving skills سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
بےشک اس ڈجیٹل دور میں مواقع کی فراوانی نے ایسے بےشمار پروگرامز کو تشکیل دیا ہے جس سے ہر طرح کی سکلز کو بآسانی سیکھا جا سکتا ہے، اس وقت problem solving skills کے حوالے سے بھی کئی سارے پروگرام ترتیب دئے جا رہے ہیں، لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر انسان کسی اکیڈمی سے اس کا باقاعدہ کورس کرے تبھی وہ یہ سکل سیکھ سکتا ہے۔
ہر انسان کے اندر صلاحیتوں کا ایک جہان موجود ہے اس کو دریافت کرتے ہوئے اپنے شعور کو مہمیز دی جا سکتی ہے۔
اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم زندگی میں سب کچھ خود غلطیاں کر کے ہی سیکھیں ہم دوسروں کی غلطیوں اور کام یابیوں سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ کسی مسئلے کے حل کرنے میں کئی عوامل کا اہم کردار ہوتا ہے ان میں سے ایک ہے Brain Storming برین اسٹارمنگ اس کا مطلب ہے جب آپ کسی ایسے مسئلے میں پھنس جائیں۔
جہاں پہ آپ کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے تو آپ اپنے دوستوں اور قریبی لوگوں سے مدد لے سکتے ہیں دوسرے لفظوں میں ہم اس کو مشاورت کہہ سکتے ہیں آپ انھیں مسئلے کی نوعیت و صورت حال بتائیں اور پوچھیں کہ اگر آپ اس جگہ پہ ہوتے تو اس کو کس طرح حل کرتے۔
جب وہ آپ سے حل کی بابت ڈسکس کریں تو انھیں بنا مداخلت کئے بغور سنیں اور ان تمام نکات میں سے چند کو شارٹ لسٹ کر لیں اور پھر غور کریں کہ اس کو کس طرح نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ان کے بتائے حل کو آپ بالکل اسی طرح عمل میں لائیں آپ اپنی سمجھ کے مطابق ضرورتاً اس میں تبدیلی بھی کر سکتے ہیں۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ ہر کسی کے ہر مشورے کو قبول کرنے کو خود پہ لازم کر دیں، مشورہ کرتے ہوئے اپنے شعور اور سمجھ کے ذریعے یہ فیصلہ کریں کہ کیا یہ آپ کے لیے مناسب ہے اگر نہیں ہے تو اس کو نظر انداز کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
برین اسٹارمنگ جس کے معنی ہیں دماغی طوفان یعنی کہ دماغی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانا، ماہرین اس کا طریقہء کار کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہ لوگوں سے متعینہ مسئلے کے حل کے لیے تجاویز پیش کرنے کو کہا جاتا ہے
انھیں اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حل کی تجاویز پہ غور کریں انھیں اس بات پہ غور کرنے کی قطعا ضرورت نہیں کہ وہ حل قابل عمل ہے یا نہیں۔
یعنی وہ اپنی ساری توجہ حل پیش کرنے پہ کریں اس کے نتائج پہ غور نہ کریں اس کوشش میں ایسے حل بھی زیر غور آ جاتے ہیں جنھیں ہم اکثر قابل اعتنا نہیں سمجھتے دوسرے مرحلے میں ان تمام تجاویز پہ یکسوئی کے ساتھ غور کیا جاتا ہے اور اس حل کو الگ کر لیا جاتا ہے جو کہ نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔
برین اسٹارمنگ کا یہ طریقہ جتنے بڑے پیمانے پہ اپنایا جاتا ہے اتنے ہی زیادہ نئے نئے کریٹیو آئیڈیاز اور نکات سامنے آتے ہیں جس سے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں اور ارتقاء کے سفر میں بھی آسانی ہوتی ہے
ہمارے یہاں بدقسمتی سے مشاورت کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے ہم دوسروں سے اپنے مسائل محض اس لئے ڈسکس کرتے ہیں تاکہ لوگ ہمارے ساتھ ہمدردی کریں حالاں کہ انھیں اس کا حل تلاش کرنے کے لئے ڈسکس کرنا چاہئے اور ان سے شیئر کرنا چاہیے جو صحیح حل تجویز کر سکیں اول تو ہم مشاورت کے فوائد کا شعور نہیں رکھتے اور کبھی کبھی شعور رکھتے ہوئے ایسا کرنے میں ہماری انا اور زعم برتری آڑے آتا ہے جس کی وجہ سے ہم مسائل کے بھنور میں الجھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
کسی بھی انسان سے برین اسٹارمنگ کرتے ہوئے آپ کو ان مسائل کی وضاحت کرنی چاہیے جو آپ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ غیر متعلق پہلوؤں پہ اپنا وقت ضائع کرنے سے بچ سکیں۔
اس سے بحث کو ٹریک پر رہنے میں مدد ملتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ ایک نشست میں سارے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں بلکہ آپ ان کو وقت بھی دے سکتے ہیں اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہم مسائل کا دیرپا حل ڈھونڈنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں
برین اسٹارمنگ درحقیقت problem solving کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعے مسائل کو نہ صرف حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ یہ مؤثر لیڈرشپ میں بھی معاون ہوتی ہے
اس بات سے ہم سبھی واقف ہیں کہ جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو ہم بہتر طریقے سے سوچ نہیں پاتے ایسے میں ہم اکثر اس مسئلے سے خود کو علیحدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایک لحاظ سے راہ فرار اختیار کرنے کے جیسا ہے ماہر نفسیات کے مطابق کسی مشکل میں مبتلا ہوتے ہی ہمارے ذہن میں سب سے پہلے دو حل آتے ہیں۔
ایک Fight دوسرے Flight اور یہ دونوں مسئلے کا عارضی حل ہے ماہرین نفسیات کے مطابق یہ دونوں حل حیوانی جبلت کے زمرے میں آتے ہیں، انسانی جبلت یہ ہے کہ مسئلے پہ اور مسئلے سے جڑے ہوئے فریقوں سے بات چیت کی فضا ہموار کی جائے تاکہ مسائل کی اصل نوعیت اور گمبھیرتا دونوں کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے اور بات چیت کے ذریعے اس کا حل نکالا جا سکے۔
اکثر و بیشتر مسائل کے پیچھے نفسیاتی پیچیدگی کا عمل دخل ہوتا ہے اس طرح کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بنیادی انسانی نفسیات کا علم رکھنا ضروری ہے اسی حوالے سے ہی تو کہا جاتا ہے کہ مرض کی صحیح تشخیص آدھا علاج ہے اور آدھا بروقت صحیح دوا کا استعمال ہے۔
اسی طرح نفسیات سے جڑے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لئے جذبات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ جذباتی اور سطحی سوچ سے بچ کرعمل کرنے سے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں اس وقت problem solving ایک فن بن چکا ہے اور اُس کا نام ہے مسئلوں کا حل نکالنا ۔
سادہ لفظوں میںProblem Solvingکی مہارت کو دنیا کی تمام مہارتوں کی ماں قرار دیا جاتا ہے۔ ایک لیڈر کے اندر اس خوبی کا ہونا ازحد ضروری ہوتا ہے کیوں کہ یہ اس کی کامیاب اور مؤثر لیڈرشپ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس کے بغیر ایک نام نہاد لیڈر محض مسائل پیدا کرنے کی وجہ ہی بن سکتا ہے اس کی اس بدنظمی کی قیمت دوسرے لوگ چکاتے ہیں کیوں کہ کسی بھی مسئلے کو غلط طریقے سے حل کرنے کی کوشش مسائل کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے ۔
یہاں تک کہ مسائل اس قدر گنجلک ہو جاتے ہیں کہ اسے ناقابل حل تسلیم کر کے یوں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر خاندان اور آرگنائزیشن کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
ایک لیڈر کی سب سے بڑی خوبی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ کرائسز مینجمنٹ نامی صلاحیت پہ کمال رکھتا ہے جو کہ problem solving skills کے ہی زمرے میں آتا ہے، ہم میں سے ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ ہر شخص لیڈر نہیں ہو سکتا اور ہر لیڈر میں ضروری نہیں کہ تمام قائدانہ صلاحیتیں پائی جائیں کیوں کہ کچھ لوگ حادثاتی طور پہ لیڈر بن جاتے ہیں وہ خاندان سے لے کر بڑی بڑی کمپنیز و اداروں کی سطح پہ بھی پائے جاتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ایک عام فرد بھی اپنے اندر ان بنیادی صلاحیتوں کی نشوونما پہ توجہ دے جس سے وہ اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکے۔
مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے مسائل کی نوعیت کو سمجھا جائے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اسے کب تک حل ہو جانے چاہئیں، پھر مختلف تدابیر کے ذریعے اس کو حل کرنے پہ توانائی صرف کریں۔
مسائل کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کارگر ہوتی ہے اس لئے اس سے متعلق ساری معلومات اکٹھا کریں، ایسے میں ان لوگوں کے تجربے سے مدد لی جا سکتی ہے جو عملی طور پہ اس کو حل کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اس سے ملتی جلتی صورتحال بھی مسئلے کے لیے مؤثر حل کی تلاش میں کار آمد ہوتی ہے۔
ضروری نہیں کہ کوئی بھی مسئلہ ایک ہی بار میں حل ہو جائے اس لیے اسے کئی حصوں میں بانٹ لیں پھر ترتیب وار اسے حل کرنے کی کوشش کریں ۔
انسانی ذہن کے اندر وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جس سے ہر طرح کی صورت حال میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما پہ بھرپور توجہ دی جائے۔
اسے کسی خاص وقت تک محدود کرنے کے بجائے ہمیشہ ہی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا جائے۔
ہے کام یابی اصول و شعور سے مشروط
سینئر صحافی سراج نقوی سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
یو۔این۔این۔ کے اعزازی مدیر اور صحافی ڈاکٹر مظفر حسین غزالی کا علیزے نجف کا انٹرویو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو