سفر نامہ زیارت حرمین شریفین
سفر نامہ زیارت حرمین شریفین زمین حجاز پر بیتے دو عشرے
از:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین:- تحریک علمائے ہند، جے پور
21/ اکتوبر کا سورج غروب ہو چکا تھا جب مسقط سے ہمارا احرام پوش قافلہ پوری کائنات کے روحانی اور جغرافیائی مرکز مکہ مکرمہ میں وارد ہوا۔ یہ ورود کیا تھا، گناہوں میں لت پت لوتھڑوں کا احساس ندامت کے ساتھ اپنے بوجھل جسموں کو مالک کے گھر لے جا کر پٹخ دینا تھا۔
آج کل فلک پیما عمارتوں سے گھرے حصار برکت و ہدایت کعبہ معظمہ کی نشانی دور سے نظر آتا ہوا 65 منزلہ کلاک ٹاور ہوتا ہے۔ جیسے ہی کلاک ٹاور پر نظر پڑتی ہے، زبان پر لبیک کی بے ساختہ صداؤں کی طرح دل کی دھڑکنیں بھی تہہ و بالا ہونے لگتی ہیں۔ ایک خاموش قسم کی کشش ہوتی ہے، جو اپنی طرف کھینچتی ہے اور عصیاں شعار وجود گویا خود بخود کھنچتا چلا جاتا ہے۔
وہ وادی غیر ذی زرع جو دعائے خلیل سے پہلے کبھی وسائل خورد و نوش سے بھی خالی تھی، آج دنیا کے ایڈوانس اور ترقی یافتہ شہروں کو بھی پچھاڑ دیتی ہے۔
شفاف سڑکیں، برق رفتار گاڑیاں، اجلی گلیاں، چمکتی عمارتیں، کعبے کے ارد گرد ہر چہار جانب پا پیادہ رواں دواں انسانی سروں کا ہجوم اور دنیا بھر سے آئے ہوئے رنگ برنگے مہمانان خداوندی کے لیے زندگی جینے کی ہر ضرورت سے آراستہ بازار۔
مکہ مکرمہ کا وزٹ کرنے والا حساس انسان وہاں کی برکتوں اور بہاروں کے بعد سب سے زیادہ جس چیز سے متاثر ہوگا، وہ وہاں ہر راہ پر موجود سرنگوں کا تسلسل ہے، بلا مبالغہ شہر میں سیکڑوں نہ سہی درجنوں سرنگیں ضرور ہوں گی۔ ظاہر ہے سرنگوں کے ساتھ ہی اس کا لازمہ کوہستانی سلسلہ بھی اپنی جدا پہچان رکھتا ہے جبکہ یہاں کی وادیاں بھی کسی طرح کم متاثر کن نہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے مکہ مکرمہ میں مسلسل پہاڑ کاٹ کاٹ کر راستے بنائے جارہے تھے، جو اب مکمل ہو چکے ہیں اور اسی کے ساتھ یہ بزرگ ترین شہر بلند عمارتوں، سرنگوں، پہاڑوں اور وادیوں کا شہر بن چکا ہے۔ نشیب و فراز کا عالم یہ ہے کہ شاید بہت بلندی سے فضائی تصویر کشی کے علاوہ محض بلند عمارتوں یا ہر کسی پہاڑ کے اوپر سے پورے شہر مکہ کا ایک ساتھ نظارہ نہیں کیا جا سکتا۔
غار حرا پر چڑھ کر دیکھنے سے ایسے لگتا ہے جیسے مکہ مکرمہ کوئی ایک شہر نہیں، ایک طرف کی وادی میں کوئی شہر بسا ہوا ہے، دوسری طرف پہاڑ کی کھوہ میں دوسری آبادی ہے اور تیسری طرف کوئی تیسری دنیا۔
اس روحانی اور جغرافیائی مرکز عالم میں پہنچ جانے کے بعد دنیا کا وہ کون سا کونا ہے، جو یاد آتا ہو اور وہ کون سی ضرورت ہے، جو یہاں پوری نہ ہوتی ہو؟
جمپنگ کرتی ہوئی بس میں کلاک ٹاور پر جمی ہوئی نظریں یہ بھول جاتی ہیں کہ انھیں پہلے ہوٹل جا کر اپنا ٹھکانہ پکڑنا ہے، فریش ہونا ہے اور پھر پورے اہتمام و آداب کے ساتھ عمرہ کے لیے جانا ہے۔ اشتیاق و انہماک کی اسی کیفیت میں ہماری بس حرم محترم سے کوئی کلومیٹر بھر کی دوری پر لب راہ واقع 20-22 منزلہ فندق شرکاء الخیر کے گیٹ پر جا کر رکی اور یہی ہوٹل تھا
جس نے اپنی بارہویں منزل پر ہمیں پورے دس دن اپنے دامن میں پناہ گزیں رکھا۔ ہمارے خالہ زاد امجد علی اور انور علی اپنے دیگر شیرانی احباب کے ساتھ ویلکم کے لیے تیار کھڑے تھے اور انہی کی بدولت سامان لادنے کی مشقت سے راحت ملی۔
مکہ مکرمہ کا قیام محنت کا متقاضی ہوتا ہے اور مدینہ منورہ بنا محنت کے پھل دیتا ہے، ایسے میں پہلے پہل حج/ عمرہ کرنے والے نا تجربہ کاروں کے لیے مجھے ذاتی طور پر یہ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ وہ پہلے مکہ مکرمہ آئیں اور اس کے بعد مدینہ منورہ جائیں، جانے والوں کو یہی ذہن لے کر جانا چاہیے اور دینے والوں کو مسافرین حرمین کو یہی ذہن دینا چاہیے تاکہ مدینہ منورہ کی راحت کوشیوں کے لیے مکہ مکرمہ کی جفا کشیاں بھاری نہ ثابت ہوں۔
مکہ مکرمہ کے پہلے کھان پان سے فارغ ہو کر 21/ اکتوبر کو ہی عشا کے بعد پہلا عمرہ ادا کیا گیا، جس سے رات کے دوسرے پہر میں فراغت پائی۔ اس کے بعد اس طرح کا معمول بنانے کی کوشش کی گئی کہ روزانہ ایک عمرہ ادا ہو سکے، اللہ تعالیٰ کا بے پناہ شکر کہ بہت حد تک ٹارگیٹ سے قریب ہوئے۔
یہاں شاید اس ہندی مزاج کا شکوہ بے جا نہ ہو کہ ہمارے بہت سے معتمر حضرات مکہ مکرمہ کی معمولی محنتوں کے آگے ہمت ہار بیٹھے ہیں اور ایک آدھ عمروں کے بعد خاصا وقت اپنے ہوٹلوں میں گزار دیتے ہیں جبکہ یہ بات نہیں بھولی جانی چاہیے کہ یہ گراں مایہ موقع بار بار میسر نہیں آتا۔
ہمارے اس سفر کے سالار مدنی ٹور اینڈ ٹراویل، بیکانیر کے نمائندے فاروق بھائی ناگوری تھے، جنھیں ٹور مالک عزیز گرامی قاری شوکت صاحب جویا، بیکانیری نے یہ ذمہ داری سونپ رکھی تھی جب کہ ہمارے یہاں تک رسائی کے روح رواں ہمارے ہر دل عزیز اور تحریک علماے ہند کے حساس و فعال ممبر حضرت قاری حاجی لعل محمد صدیقی، امام جامع مسجد، باڑمیر و صدر تحریک علماے ہند، باڑمیر تھے اور اس پورے سفر میں ہمارے لیے نہایت خوشی کا باعث حضرت قاری صاحب قبلہ کا وجود ہی تھا۔
قاری صاحب اپنی با ہمت قیادت میں ہمارے ہی ٹور کا دوسرا بڑا حصہ ہمارے چوبیس گھنٹے بعد 22/ اکتوبر کو لے کر تشریف فرما ہوئے۔
قاری صاحب اپنے مزاج کے اعتبار سے جفاکش اور مخلص واقع ہوئے ہیں، اپنی نگرانی میں آنے والے ایک ایک فرد کا چھوٹے بچوں کی طرح خیال رکھتے ہیں اور عبادت سمجھ کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ مدنی ٹور اینڈ ٹراویلس تجربہ کار ٹور ہے جو نارمل پیکیج میں متوسط درجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ قاری شوکت صاحب حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ زائرین کو کسی طرح کی دقتوں کا سامنا نہ ہو۔
مکہ مکرمہ میں رینکنگ والا ہوٹل دلواتے ہیں تو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف سے قریب۔ کھانے میں بھی بہت حد تک راجستھانی ذائقہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ پندرہ/ بیس دنوں کا دورانیہ وہ صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے جو زائرین کی دیوانگی کے بنا گلے شکووں سے خالی نہیں نکل پاتا۔
بہت سے ٹور والوں کے ساتھ بارہا اس لیے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ ان کے شرکا معمولی معمولی چیزوں پر چراغ پا ہو جاتے ہیں اور کو آپریٹ کرنے کے لیے ذرا بھی تیار نہیں ہوتے حالاں کہ ایمان کی یہ ہے کہ اس سفر میں راحت و کلفت کے معانی بدل جانے چاہیے۔ اللہ توفیق دے۔
(باقی)
Pingback: سفر نامہ زیارت حرمین شریفین قسط دوم ⋆ اردو دنیا از : خالد ایوب مصباحی
Pingback: الجامعتہ القادریہ ریچھا کا دورہ ⋆
Pingback: زمین حجاز پر بیتے دو عشرے ⋆ اردو دنیا از:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
Pingback: سفرنامہ زیارت حرمین شریفین قسط چہارم ⋆ از: خالد ایوب مصباحی شیرانی