اب اور روایتی مدرسوں کی نہیں،اسکولس کی ضرورت ہے

Spread the love

اب اور روایتی مدرسوں کی نہیں،اسکولس کی ضرورت ہے

ڈاکتر اقبال کہتے تھے فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دووہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمد اس کے بدن سے نکال دو جب اقبال نے مذکورہ مصاریع لکھے تھے تب اسلام دشمنی اور مومنوں کے بدن سے روح محمدی نکال پھینکنے کی تمام تر سازشیں فرنگی لیب میں ہی تیار ہوتی تھیں۔

اگر انہوں نے بھارت کے پچھلے ۷۵ سالا ہندوتو سپریمیسی کی سنک دیکھی ہوتی تو فرنگی تخیلات کی جگہ ترمیم فرما کر لازما “بھگوا وچار دھار” تھوپے جانے پر شعر کہتے۔یہ بات میں کیوں لکھ رہا ہوں تو اس میں ایسی کوئی بڑی منطق بھی نہیں کہ آپ کی سمجھ میں نہیں آئی ہوگی۔

آپ نے بھی وقفے وقفے سے بھارت کے دھارمک آتنک اور گنگا جمنی تہذیب کی پامالی کے خونیں مناظر دیکھے ہیں۔ذہن سازی ایک مثبت عمل ہے۔مگر برین واش کرنا ایک منفی اور غیر اخلاقی کام ہے۔

یہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی طاغوتی گروہ اپنے نظریات و مسلمات کو دوسرے پر تھوپنے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو پھر یا تو خوف و دہشت کا راستہ اختیار کرتا ہے یا پھر برین واشنگ تھیوری پر کام کرتا ہے۔

ناقص عقلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اپنی بات کروانا شیطانی نظام کا حصہ ہے۔شیطانی کھوپڑی اور رحمانی بصیرت کے درمیان کی یہ جنگ صدیوں پرانی ہے۔

افسوس اس کا ہے کہ اس برین واشنگ تھیوری کے زہرناک اثرات کو ہمارے عقل مند حلقے نے سنجیدہ نہیں لیا جس کا نتیجہ لازما یہ نکلنا تھا کہ آج ہماری اولاد کے اندر بھی بغاوت کے جرثومے کلبلانے لگتے ہیں۔

شرک و بت پرستی توحید کش زہر ہے اگر بچوں کے سادے دماغ میں یہ ڈالا جائے تو ایسے بدن میں روح محمدی کہاں سے ملے گی۔بڑی جنگ یا یودھ یہ نہیں ہے کہ آپ کی مساجد پر بھگوا حملے ہو رہے ہیں۔بلکہ سب سے بڑی جنگ یہ ہے آپ کے بچوں کے اندر بھگوا وچار دھار اسمارٹ طریقے سے پروسا جا رہا ہے۔اور یہی سب سے بڑی جنگ ہے۔مسجد تو بچا لیں مگر دماغ میں مندر بیٹھا ہو تو پھر ایسی نسل کس کام کی؟ اگر منفیات نے اسمارٹ طریقے اپنا لیے ہیں تو مثبت رجحان کو مزید اوور اسمارٹ بننے کی ضرورت ہے۔میرا ایک ۱۳ سالا بھتیجا ہے جسے ۶ سال کے بعد سے ہی حافظ بننے کا بڑا شوق تھا میں اس کے جذبے و لگن کو دیکھ کر اسے قاری صاحب کہنے لگا تھا۔دینی تعلیم کی طرف اس کے جھکاؤ کو دیکھتے ہوئے اپنے ہی علاقے کے ایک درگاہی مدرسے میں داخلہ کرا دیا گیا۔مگر مدرسین کی بے جا سختی و جلادانہ رویے کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ کر بھاگ آیا۔اب لاکھ سمجھانے بجھانے کے باوجود وہ مدرسہ جانے کو تیار نہیں تھا۔تھک ہار کے اسے اسکول بھیجنے کا سوچا۔میرے بھیا مالی اعتبار سے مضبوط تھے اس لیے اپنے ہی شہر میں آر ایس ایس آپریٹیڈ ایک مہنگے اسکول میں اس کا داخلہ کرا دیا گیا اور ہاسٹل میں رہ کر تین سال تک پڑھائی کرتا رہا۔تین سال کے بعد اس لڑکے سے جب میں ملا تو حیرت انگیز طور پر اس کے behavior سے دھچکا لگا کہ جو لڑکا ہر وقت مدرسہ، قرآن، نماز کی بات کرتا تھا اب اس کے منہ سے بات بات میں صرف ہندوانہ جملے اور شرکیہ بھجن نکل رہے ہیں۔پہلے بنا پانی کے استنجا کو نہیں جاتا تھا اب تو کھڑے کھڑے پیشاب کرنے کو اسکول کا فیشن بتا رہا ہے۔اس رویے پر میں نے سخت ڈانٹ پلائی تو کچھ بدلاؤ بھی آیا۔ایک صبح تڑکے ہی میں نیند سے بیدار ہوا تو کہیں سے بھجن بجنے کی آواز آرہی تھی۔جس میں شکشا کی دیوی سرسوتی( ہندو عقائد میں دیوی سرسوتی کو قاسم علوم مانا جاتا ہے) سے آرتی وندنا(علم و فن کی گہار)کی گئی تھی۔اس سے مدد اور سکشا و شانتی کی گزارش کی جارہی تھی۔جب اس کے بستر کے قریب گیا تو دیکھ رہا ہوں کہ اسی کے سادہ موبائل فون میں بھجن بج رہا ہے۔مین نے پوچھا صبح صبح اللہ و رسول کا نام لینے کے بجاۓ یہ کیا بجا رہے ہو؟ کہنے لگا ہمارے اسکول کا پرارتھنا گیت ہے۔آپ کو یہ سارے بچوں کے موبائل میں ملے گا۔ سب کو یاد کرنا ہوتا ہے۔اب آپ کو اور حیرت ہوگی کہ میرا بھتیجا جس شہر کے اسکول میں پڑھتا تھا وہاں کی ۸۰ فیصد آبادی مسلم ہے۔تو واجبی طور پر اس اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت بھی مسلم رہی ہوگی۔اب آپ سوچیں کہ اس علاقے کے مسلم بچوں کے عقائد اور معمولات کس قدر بھیانک روپ لے چکے ہوں گے جہاں ہندوستان بھر کی بڑی بڑی خانقاہوں کے بڑے بڑے پیروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں پچھلے تین مہینے سے لگ بھگ ایک درجن خانقاہوں کے دو درجن جبہ پوش بابائیں و پیران مغاں کسی نہ کسی بزرگ کا فیضان بانٹنے کے نام پر پیری مریدی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔جی ہاں! میں سیمانچل کے ضلع کشن گنج کے اسمبلی حلقہ ٹھاکر گنج کی بات کر رہا ہوں۔وہی ٹھاکر گنج جہاں اسکول کے نام پر یا تو آر ایس ایس کے ادارے ششو مندر، بال مندر ملیں گے یا پھر عیسائی مشنری کے مشن اسکولس۔آج تک ایک چھوٹا سا بھی اسکول ہم وجود میں نہیں لاسکے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پیران کرام و علماۓ اسلام جب بھی پروچن دیتے ہیں تو صرف یہی کہ مدرسہ کھولو،فلاں مدرسے کو چندہ بھیجو۔فلاں بابا کا مزار بنواؤ۔فلاں خانقاہ کی تعمیر میں حصہ لو، لے دے کے بس یہی۔آج تک کسی نے اسکول و کالج بنانے کی تلقین نہیں کی۔لگتا ہے کوئی اس کی ضرورت و اہمیت سمجھتا ہی نہیں۔”عن أبی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَمَلُہٗ اِلَّامِنْ ثَلٰثٍ ، صَدَقَۃٌ جَارِیَّۃٌ ، أوْ عِلْمٌ یُنْتَفَعُ بِہٖ ، أوْ وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہٗ” ہمارے علما و صوفیا اکثر محافل میں خاص کر ایصال ثواب کی محفلوں میں مذکورہ بالا حدیث کو کوٹ کرتے ہیں۔اس کا ترجمہ تو کرتے ہیں مگر اس کی تشریح و توضیح کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔اس کے انطباق و نفوذ کی وسعت بیان نہیں کرتے۔حضور کی حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فرمان نبوت صرف مخصوص زمانے کے لیے تھا بلکہ آپ کی حدیث کے انطباق کا مسئلہ جب جب درپیش ہوگا اس کے بین السطور میں زمانے کے بدلاؤ اور اس کے تقاضوں کا لحاظ بہر حال رہے گا۔اور ہم آج بھی وہی مفہوم سمجھا رہے ہیں جو آؤٹ آف ٹائم ہوچکا ہے۔صدقۂ جاریہ میں مقررین و خطبا ببانگ دہل بیان کرتے ہیں کہ کنواں کھودوا دینا،مسافروں کے لیے سراۓ بنا دینا۔مدرسہ بنوا دینا۔مسجد بنانا یا اس میں حصہ لینا۔وغیرہ ۔جب کہ آج کے ڈیٹ میں کنواں کھودوانے کی بات عجیب سی لگتی ہے۔مسافروں کے لیے سراۓ بنانے کا کام آج سرکاریں حکومتیں کرتی ہیں یہ کام آپ کے لیے ہے ہی نہیں۔اور نہ ہی آج کے ڈیٹ میں مسافر خانے کا تصور ویسا ہوپاۓ گا جیسا ۱۴ سو سال پہلے کا تھا۔زمانہ بالکل بدل گیا ہے۔پھر بھی انہی چیزوں پر گپے ہانکنا ایک طرح کا مذہبی جبر ہے۔رہی مسجد و مدرسے بنانے یا تعمیر میں حصہ لینے کی بات، تو آج کے حالات کے مد نظر کیا یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے اسکول نہ ہونے کی وجہ سے قوم و ملت کے بچے شرک و ارتداد اور لادینیت کی طرف مائل ہوں اور آپ صرف مسجد اور مدرسے کی بات کرتے رہیں؟ اور یہ بھی کہ مذکورہ حدیث میں جس علم نافع کی بات کی گئی ہے اسے صرف دین کی تعلیم تک محدود رکھنا، عصریات کو خارج کر دینا حدیث کے مفہوم میں تحریف کرنے جیسا جرم نہیں ہے؟ ولد صالح کے جملہ خصائص و اوصاف صرف مولوی صاحب پر ہی صادق آتے ہوں یہ بھی بڑا عجیب لگتا ہے۔کیا کوئی سوٹیڈ بوٹیڈ آدمی ولد صالح نہیں ہوسکتا جو اپنے والدین کے لیے صدقۂ جاریہ ہوسکے؟ مگر افسوس!کوئی حدیث کی گہرائی میں اترنا ہی نہیں چاہتا۔خیال رہے آج آپ مذکورہ بالا حدیث کی اپڈیٹ تشریح و توضیح پیش کریں یہ وقت کی جبری مانگ ہے ورنہ حالات کے جبر میں پھنسنا رہ جائے گا۔ایک بات بڑی چالاکی سے خطبا جلسوں میں اور پیر حضرات اپنی نجی محفلوں میں بیان کرتے ہیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللہ کا۔اس طرح کی باتیں کر کے ہم نے پوری قوم کو نا صرف گمراہ کیا ہے بلکہ ان کے دین و دنیا کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا ہے۔میں کہتا ہوں کہ بھارت جیسے ملک میں اب اور مدارس کی کوئی ضرورت نہیں۔اب قوم کے غیور و جسور افراد کو چاہیے کہ صدقۂ جاریہ کے مفہوم میں اسکول، کالج اور ہاسپیٹل و دیگر کو بھی شامل کر لیں۔خدا کے لیے انہی چیزوں پر زور دیں۔اور کب تک آر ایس ایس اور کرسچن اسکولوں کے محتاجی رہے گی؟ بھارت میں غیر معیاری مدارس اتنے بن چکے ہیں کہ یہ ناصرف قوم پر بوجھ ہیں بلکہ ان کے ناقص پروڈکشن کے سبب زکوٰۃ خوری و چندہ چوری کا ایک غیر شرعی حلقہ وجود میں آ گیا ہے۔آپ میری یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ اگر دین کا کام صرف روایتی مولویوں، پونجی پتی پیروں، نذرانہ خور بدعتی باباؤں پر چھوڑ دیا جاۓ تو آپ کی اگلی نسلوں کو دین سے بس اتنا ہی مطلب رہے گا جتنا بالی ووڈ کے خان برادران کو ہے۔مذہبی لباس کے مذکورہ تینوں درجے کے فرشتہ لباس لوگ فہم دین و تقاضاۓ دین سے بالکل ہی بے بہرہ ہیں۔اگر کچھ ہے بھی تو دینی تقاضوں کو لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔سب کو اپنے پیٹ کی پڑی ہے۔کیوں کہ موجودہ رسومات خانقاہ علمی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ستم تو یہ کہ اس مسلم سماج کا بھی عجیب معاملہ ہے مولویوں کی کوئی نہیں سنتا۔پیروں کی سننا چاہتا ہے مگر پیر سناتے نہیں، یا سنانے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے۔اور سناۓ بھی کیوں جب مفت میں وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہی ہے۔ لوگ انہیں ماورائی ہستی سمجھ کر زمین پر خدائی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ اور باباؤں کو تعویذ گنڈے سے فرصت کہاں۔ایسے میں اگر ہمارے آپ کے بچوں کے سادہ لوح اذہان پر شرک و ارتداد کا سبق نقش کر دیا جاۓ یا اسلام سے بغاوت کا زہر پروسا جاۓ تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ مستقبل میں اس کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔اور اس کا ذمہ دار صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کے سماج سے جڑے وہ سارے لوگ ہوں گے جن کی آپ کے سماج پر گرفت مضبوط ہے۔جو آپ کو اپنی تقدیس و تبرک کے جھانسے میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔آپ یقین جانیں! اسکولس کی تعمیر و ترقی ناصرف وقت کی جبری مانگ ہے بلکہ نسل نو کے عقائد و ایمانیات کے تحفظ کے ساتھ مستقبل کی سلامتی کا باعث بھی ہے۔قومی درد رکھنے والے اور سماجی اصلاحات کا رسک اٹھانے والے اور ملت سازی کی تحریک کا خواب دیکھنے والے یہ بات جتنی جلدی سمجھ لیں مستقبل پر گرفت اتنی ہی مضبوط رہے گی۔ورنہ کل نہ ہم اپنی اولاد کو دین دار رکھنے کے لیے مذہبیت اور لامذہبیت کے درمیان خط فاصل کھینچنے کے مجاز ہوں گے نہ ہی ان کی بہتر زندگی کا آپشن بچے گا۔حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں قدرت کی تعزیریںمشتاق نوری ۱۰؍دسمبر ۲۰۲۰

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *