ناگ پور کا سفرنامہ

Spread the love

ناگ پور کا سفرنامہ ( آخری قسط )

تحریر : توصیف القاسمی

ناگ پور جانے کا اصل مقصد بامسیف کی ”پیدل پتھ یاترا“ میں شامل ہونا تھا ، پیدل پتھ یاترا کا ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بامسیف کا مختصر طور پر تعارف کرایا جائے ہندتوا عناصر اور بامسیف کے درمیان فرق کو واضح کیا جائے ۔ بام سیف BAMCEF کسی مخصوص مذہب گروہ یا فرقے کی تنظیم نہیں ہے اس کے نام سے جو مفہوم نکل کر سامنے آتا ہے وہی اس کا مقصد ہے بامسیف ایک لمبے چوڑے نام کا مختصر Short cut ہے The All India Backward and Minority Communities Employees Federation

یعنی پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے ملازمین کا قومی وفاق ، جو سماج کے بہتر مستقبل کے لیے کام کرے ۔ بامسیف عوامی طورپر تو پسماندہ طبقات کی تنظیم مانی جاتی ہے مگر حقیقت میں یہ تنظیم برہمن بنیا ٹھاکر کے علاوہ تمام بھارتیوں ( مولنواسیوں ) کی تنظیم ہے اور ہندوتوا طاقتوں کے عزائم و مقاصد کے عین خلاف کام کرتی ہے ، آر ایس ایس پورے ملک کو ہندتوا رنگ میں رنگنا چاہتی ہے جبکہ بامسیف پورے ملک پر آئین ہند کی بالادستی چاہتی ہے ، آر ایس ایس بھارت کو ہندوراشٹ قرار دینا چاہتی ہے جبکہ بامسیف بھارت کو ایک سیکولر اور مذہبی جانبداری سے پاک ملک بنانا چاہتی ہے ، آر ایس ایس کے نزدیک مسلمان بھارت کے لیے خطرناک ہیں جب کہ بامسیف کے نزدیک برہمن ازم ملک کے لیے خطرناک ہے ۔

آر ایس ایس کی تمام سرگرمیاں ”ہندو احیاء پرستی “ کے اردگرد گھومتی ہیں جبکہ بامسیف کی تمام سرگرمیاں لفظ ”مولنواسی“ کے اردگرد گھومتی ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔مولنواسی سے مراد وہ تمام بھارتی ہیں جو برہمن بنیا اور ٹھاکر کے علاوہ ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب یا اقلیت سے ہوں ۔

در اصل پسماندہ طبقات کے مفکرین کا ماننا ہے اور یہ ایک تاریخی سچائی بھی ہے کہ ہندو نہ کوئی دھرم ہے اور نہ کوئی تہذیب بلکہ آریائی نسلوں نے اس لفظ کو جغرافیائی اصطلاح میں استعمال کیا اور پھر یہ ہی لفظ دھرم مذہب تہذیب ، طرز حیات وغیرہ سب کچھ بن گیا اور پھر آریائی نسلوں نے اسی مربے کو یہاں کی اصل آبادی پر بزورِ طاقت تھوپ دیا ، پسماندہ طبقات در اصل اسی تاریخی ظلم و بددیانتی کے خلاف بیدار ہورہے ہیں ۔

یہ ہی وہ فرق ہے جس کی بنیاد پر راقم الحروف بامسیف کے لوگوں کے ساتھ کام کرتا ہے اور میں بار بار کہتا ہوں کہ ”ہندو مسلم اتحاد“ کے تصوّر کو ترک کر کے اب ”مولنواسی اتحاد“ کے تصور کو پروان چڑھانا چاہیے ، بحیثیت مسلمان کے ہمارے بہت سے مسائل بھی اس نظریے سے حل ہوسکتے ہیں جن کی تفصیل راقم بہت سے مضامیں میں پیش کرچکا ۔

اسی لیے میں پوری کوشش بھی کر رہا اور چاہتا بھی ہوں کہ مسلمان شعور و آگہی کے ساتھ ان لوگوں سے جڑیں ، شعور و آگہی کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو اپنی گردن پورے طریقے سے دوسروں کے ہاتھ میں دیں جیساکہ اب تک مسلمانوں نے کانگریس کے ہاتھ میں اپنی گردنیں دے کر رکھی ہیں اور نہ ہی اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل سے لاپرواہ ہوں ، بلکہ پوری قوت سے اور منظم انداز میں اپنی سیاسی پارٹی تشکیل دیں اور کھلے ذہن کے ساتھ تشکیل دیں ، بھارت میں مسلمانوں کی اپنی سیاسی پارٹی کے بغیر ان کی کوئی سیاسی و معاشرتی حیثیت نہیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ اتحاد کا کوئی مطلب ہے ۔

قوموں کے ساتھ اتحاد تنظیمیں اور پارٹیاں ہی کرتی ہیں ناکہ افراد ۔ قارئین کرام اب ”پیدل پتھ یاترا“ کے بارے میں جانتے ہیں ، پیدل چل کر کسی پیغام یا نظریے کو پھیلانے کا عمل موجودہ زمانے میں ایک اہم قدم مانا جاتاہے یہ چیز اس نظریے اور پیغام سے ٹھوس وابستگی کی ایک پہچان اور علامت بھی ہوتی ہے ، مسلمانوں میں اس طرح کی چیزیں تقریباً ناپیدا ہیں ، آپ کبھی نہیں دیکھا ہوگا ان کے قائدین کسی پیغام کو لیکر دو چار کلومیٹر پیدل چلے ہیں ، برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں میں 1930 سے 1945 کے دوران علامہ عنایت اللہ خان مشرقی ( متوفی اگست 1963 ) نے اس قسم کی سرگرمیاں انجام دی ہیں میرے محدود مطالعہ کے مطابق وہ تنہا ایسے راہنما تھے جو اصلاحات کے لیے زمین پر اترتے تھے ، ان کے علاوہ ہماری بڑی بڑی ہمالیائی شخصیات اسٹیج اور آفس کی زینت بن گئی عملی سرگرمیوں سے دور ہوگئی ۔

خیر! یہ یاترا شہر کے مختلف حصوں سے صبح دس بجے شروع کی گئی ، ہماری یاترا ”میڈیکل چوک“ کے نزدیک اونٹ خانہ سے شروع ہوئی ایک یاترا ”دکشا بھومی“ سے شروع ہوئی ، تیسری اور کہیں سے ، یاترا فوجی اسٹائل میں بینڈ باجے کے ساتھ شروع کی گئی ، ہر چوک پر پھولوں سے استقبال کیا گیا ، لوگ جڑتے گئے قافلہ بڑھتا گیا ، پھر تینوں یاترائیں مختلف راستے طے کرتے ہوئے ناگپور کے مشہور”سنودھان چوک “ پر آکر مل گئی اور اس طرح قافلہ تین گنا بڑھ گیا ، یہ قافلہ تقریباً سات کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے دو بجے کے قریب ”اندورا گراؤنڈ“ پہنچ گیا ، جہاں پر اصل پروگرام ہونا تھا ۔

اندورا گراؤنڈ میں بیس ہزار کا مجمع تھا جہاں بامسیف کے اعلیٰ عہدیداروں نے گفتگو کی ۔

یہ لوگ عوام کے مجمعوں میں بھی عام طور پر قانونی گفتگو کرتے ہیں ، ریزرویشن کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں یا پھر آر ایس ایس اور ہندتوا طاقتوں کے نظریات پر کڑی تنقید کرتے ہیں ان لوگوں کی گفتگو کا محور یہ ہی چیزیں ہوتی ہیں مگر اس قسم کے موضوع عوام کے لیے خشک ہوتے ہیں اس لیے عوام جلدی ہی اداسی اور بوریت کا شکار ہوجاتی ہے ۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ بامسیف کے پروگراموں میں بک اسٹال بڑی کثرت سے لگتے ہیں جن میں پسماندہ طبقات کے مفکرین اور مصنفین کی کتابیں رپورٹیں ، قانونی مواد ، تجزیے اور ہندؤ دھرم پر تنقید سے پر کتابیں بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں ، مولانا عبد الحمید نعمانی صاحب کے مطابق پسماندہ طبقات کے مفکرین اور قلمکاروں نے نظریاتی مواد اور کتابوں کے میدان میں ہندو مفکرین اور قلمکاروں کو پیچھے چھوڑدیا ہے ۔

کتابیں قوموں کا حافظہ ہوتی ہیں ، مضبوط اور کار آمد تنظیم کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس کے تمام ارکان کا مطالعہ انتہائی وسیع ہوتا ہے ، اس تنظیم کا خود کا وسیع نظریاتی مواد ہوتا ہے تمام ضلعی یونٹوں کے پاس لایبریریاں ہوتی ہیں ۔

ہمارے یہاں اس پیمانے پر جماعت اسلامی پوری اترتی ہے جس کا ہر کارکن مطالعے کا رسیا ہوتا ہے جس نظریے اور تنظیم کی پشت پر مضبوط کتابی لٹریچر نہ ہو وہ بہت جلد تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوجاتی ہے ، ماشاءاللہ یہاں اندورا گراؤنڈ میں جماعت اسلامی ہند نے اپنا بک اسٹال لگایا جہاں سے آدھے ریٹ پر غیر مسلم حضرات کو ہندی انگلش اور مراٹھی زبان میں اسلامی کتابیں دی گئی اور بڑے پیمانے پر مذکورہ تینوں زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے سیرت کی کتابیں حاضرین نے خریدی ۔

میں نے ناگپور جانے کا اپنا پلان بعض مخلص دوستوں کو بتلایا اور کہا کہ میں یہ چاہتاہوں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات کو ترجمہ قرآن کریم اور توحید خالص پر مبنی ہندی انگلش میں کچھ کتابیں گفٹ کروں ، میرے ان مخلص دوستوں نے اس منصوبے کو بروئے کار لانے میں میرا بھرپور تعاون کیا ، اس طرح تقریباً بیسیوں اعلٰی تعلیم یافتہ غیر مسلم مرد و خواتین تک دعوتی مواد پہنچانے میں کامیاب ہوسکا ، میں ان مخلصین کا شکر گزار بھی ہوں اور دعا گو بھی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *