مقدس لمحات کی قدر کریں
مقدس لمحات کی قدر کریں
نت نئے معمولات رمضان المبارک کی برکتیں حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں
ڈاکٹر غلام زرقانی
عجیب بات ہے کہ پہلے توشاید تفریح طبع کے پروگرام علیحدہ ہواکرتے تھے ، لیکن اب دینی تقریبات میںبھی تفریحی رنگ کی آمیزش دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔مثال کے طورپر شادی کے رسوم پر نگاہ ڈالیے ۔کہنے کو تویہ سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے
لیکن اب یہ صرف نام کی سنت رہ گئی ہے، باقی اس کے نناوے فیصدحصے تفریحات بن کر رہ گئے ہیں ۔ منگنی، ہلدی، اپٹن، مایوں،چڑھاوے، دعوت نامہ، اہتمام شادی ہال، استقبال بارات،کئی کئی ڈشوں پر مشتمل لذیذ ترین طعام ، قیمتی جہیز،تبادلہ تحائف اور نہ جانے کیا کیاکچھ؟اور ہوسکے تواس فہرست میں علاقائی رسومات کو بھی شامل کرلیں
جن پر نہایت ہی سختی کے ساتھ خاندان کی بڑی بوڑھی عورتیں عمل کرانے کے لیے پیش پیش رہتی ہیں ۔
اندازہ لگائیے کہ اسلامی شادی توصرف سادگی سے نکاح اور ولیمہ سے عبارت ہےاورہم نے اپنی تفریح طبع کے لیے اسے کہاں سے کہاں تک پہنچادیاہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ تمام رسومات غیر شرعی ہیں ، بلکہ مدعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ ، متذکرہ بالاتکلفات سے روح عقد مسنونہ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔
اب آئیے ذرا اس پس منظر میں رمضان المبارک کی پرکیف ساعتوں کا جائزہ لیں ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ موسم رحمت آتے ہی ہمیں سب سے زیادہ فکر انوا ع واقسام کے لذیر کھانوں سے دسترخوان سجانے کی ہوتی ہے ؟
سحری میں یہ ڈشیں اور افطار کے موقع پر یہ ڈشیں ہونی چاہئیں ، حتی کہ بہت بڑی تعداد میں ایسے گھر ملیں گے ، جہاں خواتین سموسے، پکوڑے اور آلو چاپ تلنے کے لیے افطارکے آخری لمحات تک انتظارکرتی ہیں ، تاکہ یہ سب گرم گرم دسترخوان پر پیش کیے جاسکیں ۔
انھیں خبر نہیں کہ افطار سے پہلے کے لمحات قبولیت دعا کے لیے کس قدر اہم ہیں ۔ اورظاہرہے کہ جب کھانے پکانے کے حوالے سے مطبخ کے اخراجات بڑھ جائیں ، توپھر اسی اعتبار سے آمدنی میں اضافے کی فکر بھی لاحق ہوجاتی ہے ۔ اس طرح دیکھا جائے تورمضان کی مقدس ساعتیں کھانے پینے کی تیاری اور آمدنی بڑھانے کی کوششوں میں گزر جاتی ہیں ۔
اعتدال کے ساتھ ایک دوڈشوں کے اہتمام میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، تاہم معاملہ اس منزل سے خرابی کی طرف نکل پڑتاہے ، جب ہماری توجہات کا زیادہ تر حصہ غیر ضروری اہتمامات کی نذر ہوجائے ۔
سحری اور افطاری کے موقع پر انواع واقسام کے کھانے کے لیے پرتکلف اہتمام توالگ رہے ، گذشتہ چند برسوں سے رمضان کریم کی مبارک راتوں میں لہوولعب کے جو منصوبے بنائے جارہے ہیں ، وہ آنے والے مستقبل میں نہایت ہی خطرناک ثابت ہوں گے ۔
پہلے توبس چند افراد کبھی کبھی رات میں کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیل لیا کرتے تھے ، اب یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ احباب کرکٹ کا انعامی مقابلہ کروارہے ہیں ۔
اسی طرح کہیں کہیں کیرم بورڈ اور دوسرے تفریحی پروگرامات کا بڑھ چڑھ کر انعقاد کیا جارہاہے ۔ظاہرہے کہ اس طرح نئی نسل میں کھیل کود سے رغبت مزید بڑھتی چلی جائے گی ، جس سے رمضان المبارک کی برکات کے ضائع ہو جانے کے حتمی خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔
یہی حال رمضان المبارک کے موقع پر ٹی وی میں خصوصی پروگرامات کی ریل پیل کاہے ۔ برقی ذرائع ابلاغ پر پرکشش اشتہارات کئی ہفتوں سے آرہے ہیں کہ فلاں فلمی ستارے اور فلاں ٹی وی آرٹسٹ رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی کریں گے ۔ مقصد یہ ہوتاہے کہ مشہور شخصیتوں کے سامنے آنے کی وجہ سے انھیں قیمتی سے قیمتی اشتہارات مل سکیں ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ دھیرے دھیرے ہم نے رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں کو سامان تجارت بنادیا ہے اور دینی معمولات بھی حصول زر کے ذرائع میں تبدیل ہورہے ہیں۔
بہت ممکن ہے کہ ٹی وی پر نشر ہونے والے بعض پروگرام دینی معلومات میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوں ، تاہم غورطلب امر یہ ہے کہ عوام کی ٹی وی اسکرین سے چپک کر بیٹھنے کی عادت جوں جوں بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے اعمال صالحہ کی بجاآوری میں تشویشناک حدتک گراوٹ آرہی ہے ۔
اورپھر رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں افطار اور سحری پارٹیاں بھی آئے دن بڑھ رہی ہیں ۔ یہاں بھی ایسا نہیں ہے کہ بعجلت تمام کھانے پینے سے فارغ ہونے کی کوشش کی جائے ، بلکہ ہوتایہ ہے کہ افطار اورسحری کے بہانے احباب دیرتک گپے لگاتے رہتے ہیں ۔
ظاہرہے کہ مذہبی معاملات میں تو عام لوگ شاید خاموش رہتےہوں ، لیکن جب علاقائی سیاست پر گفتگو شروع ہوتی ہے ، توہر ایک کے پاس ہزاروں موضوعات پر وافر مقدار میں سرمایہ گفتگو ہوتاہے۔
اور پھر جب بال کی کھال نکلنی شروع ہوتی ہے ، توسلسلہ گھنٹوں تک جاری رہتاہے ۔ ٹھیک یہی حال سحری پروگراموں کا ہے ۔ پوری پوری رات لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں اور سحری کھاکر پورے دن سوتے رہتے ہیں ۔ کیا اس طرح رمضان کی ساعتیں برباد نہیں ہورہی ہیں ؟
صاحبو! فرصت کے لمحات میسر آجائیں تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے غور کیجیے گا کہ آپ کے حلقہ احباب میں کتنے لوگ ایسے تھے ، جو سال گذشتہ آپ کے ساتھ تھے ، لیکن اب ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکے ہیں ۔
بہت ممکن ہے کہ کہ یہی تماشہ آنے والے سال ہمارے ساتھ ہواور ہم بھی اس جہان فانی سے کوچ کرجائیں ۔ کیا یہ حقیقت ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ہم رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ اجر وثواب اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کریں ؟
اوریہ تو ہمارے آئے دن کے معمولات میں شامل ہے کہ اگر ہم کسی چیز کی اہمیت سمجھتے ہیں ، تواس کی کامیابی کے لیے منصوبے بناتے ہیں ، تیاری کرتے ہیں اور غور وفکر بھی کرتے ہیں ۔
اپنے اہل خانہ اور بچوں سے ملاقات کاپروگرام بن جاتا ہے ، توبلاتاخیر ہماری تیاری شروع ہوجاتی ہے ۔ شادی کی تاریخ طے ہوتی ہے ، توگھر کے کونے کونے سے اہتمام وانصرام کی صدائیں آنے لگتی ہیں ۔
معلوم یہ ہوا کہ اگر کسی پروگرام کو زیادہ سے زیادہ کامیابیوں سے ہم کنار کرنا ہو، توہم منصوبے بناتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوںمیں زیادہ سے زیادہ اجر وثواب حاصل کریں
تو ہمیں بلاتاخیر سال گذشتہ رمضان المبارک میں اپنے سابقہ معمولات کا تنہائی میں جائزہ لیناچاہیے، تاکہ اگر ان میں کوئی کمی رہ گئی ہوتواسے دورکرسکیں اور اگر وہ بہتر رہے ہوں، توانھیں مزید بہتر سے بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی ہوسکے ۔ ghulamzarquani@yahoo.com
Pingback: زعفرانی ٹولے کے نرغےمیں مسلم بچیاں ⋆ غلام غلام زرقانی
Pingback: نفاذ یکساں سول کوڈ کے امکانات ⋆ ڈاکٹر غلام زرقانی چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا
Pingback: جانوروں سے محبت کی آڑ میں انسانوں کو خطرے کے حوالے کرنا دانش مندی نہیں ⋆ اردو دنیا