اپنے امام کا حق دبانے والی قوم کبھی خوش نہیں رہ سکتی

Spread the love

تحریر: نورالہدیٰ مصباحی : اپنے امام کا حق دبانے والی قوم کبھی خوش نہیں رہ سکتی

اپنے امام کا حق دبانے والی قوم کبھی خوش نہیں رہ سکتی

گورکھ پور، 1 2 فروری (پریس ریلیز) آج دیر شب ضلع گورکھ پور کے گلہر یا تھانہ حلقہ میں واقع ایک مسجد کے امام صاحب سے میری ملاقات ہوئی ، موصوف گزشتہ 9 سال سے وہاں امامت اور طلبہ کی ابتدائی دینی تعلیم دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، بلکہ آس پاس کے دیہی مواضعات میں بھی حسب ضرورت دینی کام کے سلسلے میں آتے جاتے رہے ہیں شروع میں ان کی تنخواہ گاؤں والوں 3000 روپے  متعین کی نو سال کے بعد ان کی تنخواہ 2300 روپیے ہوگئی ۔

جی ہاں تئیس سو روپیے ہوگئی اس کو  23 تئیس ہزار نہ پڑھیے گا 

 ہر سال ان کی رمضان شریف کی پوری تنخواہ غائب کردی جاتی ہے۔۔اسی پر بس نہیں مذکورہ 3 2سو روپے تنخواہ امام صاحب کو سب کے دروازہ پر جا کر خودی وصولی کرنی پڑتی ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ امام صاحب با صلاحیت نہیں ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف آج بھی جماعت خامسہ تک کی کتابیں آسانی سے پڑھا سکتے ہیں

وہ ایک اچھے خطیب اور بہترین ادیب بھی ہیں عصری علوم کے اعتبار سے ٹی ای ٹی پاس کر چکے ہیں ، مدرس تعلیمی بورڈ سے ڈبل فاصل اور ایک مرکز کی ادارو سے فضیات تک باضابطہ سند یافتہ ہیں

امام صاحب نے بتایا کہ وہ سرکاری ملازمت کے لیے نصف درجن مدارس اور دارلعلوم میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں، انہیں غریب جان کر دنیا وار نظما گرانٹ آنے سے قبل ہی باہر کا راستہ دکھا دیتے تھے

امام صاحب  نے تھک بار کر اس مسجد کی باگ ڈور سنھبال لیا اور کہا کہ اب کہیں نہیں جانا ہے بس یہیں خدمات انجام دیں گے۔ آگے اللہ حافظ ۔ ۔

واضح رہے، امام صاحب کثیر الاعمال ہیں، یعنی ان کی 6 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، گھر میں بیوی اور ضعیف ماں بھی ہیں، ہر ایک کی ذمے داری انہیں کے سر ہے ،انہوں نے کبھی تنخواہ کے لیے گاؤں والوں سے کوئی شکوہ نہیں کیا ۔

کئی بار سوکھی روٹی اور باسی چاول کھا کر گزارہ کرنا پڑا ہے۔ ہر حال میں ہنستے مسکراتے دین کا کام سمجھ کر شب و روز محنت کر رہے ہیں کبھی بھی ناشکری نہیں کی اللہ کے فضل سے ہم لوگوں کی اچھی خاصی تنخواہ ہے

پھر بھی سال میں کبھی تنخواہ انکریمنٹ لگنے میں تاخیر ہوتی ہے تو متفکر نظر آتے ہیں  ،، مذکورہ امام صاحب کی تنخواہ 9  سال میں گاؤں والوں نے اس قدر انکریمنٹ لگایا کہ ان کی تنخواہ گھٹ کر 3000  سے  2300ہوگئی  پھر بھی وہ اسی میں رب کا شکر ادا کر رہے ہیں ۔

میں ان کی آپ بیتی اور درد بھری داستان سن کر حیران رہ گیا، ان کی بات پریقین نہیں کر پارہا تھا، لیں جب تنخواہ او رجسٹر کا معائنہ کیا تو رو پڑا

افسوس صد افسوس پورا گاؤں مل کر اپنے ایک امام کی مختصر تنخواہ کا انتظام نہیں کر پارہا ہے ۔

مذکورہ گاؤں اور وہاں کی اہم شخصیات کے اسمائے گرامی پر میں نے اس لیے سیاہی لگا دی ہے تا کہ سب کے سامنے انہیں ذلیل اور رسوا نہ ہونا پڑے،، آج دیکھا جاتا ہے کہ منریگا مزدوری کرنے والے آرام سے اپنے گھروں میں رہ کر معمولی کام کر کے دس بارہ ہزار ماہانہ کما لیتے ہیں

افسوس جوامام شروع سے آخر تک ہر موڑ پر ہمارے کام آتا ہے ، اس کے ساتھ اس قدر زیادتی اور نا انصافی کہ اللہ کی پناہ۔۔۔  یاد ر ہے، اگر ہم نے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائی تو پھر مصلی امامت سنبھالنا تو دور نماز جنازہ پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ملے گا، اور پھر وہی پانچ دہا، قبل والی کہانی دہرائی جانے لگے گی 

مجھے یاد ہے، ایک مرحوم بزرگ نے تقریبا 2 سال قبل بتایا تھا کہ پہلے بہت تلاش کرنے کے بعد جب کوئی  جنازہ پڑھانے والانہیں ملتا تو لوگ بغیر جنازہ پڑ ھے اپنے مرحومین کو دفن کر دیتے تھے

نشانی کے طور مر حومہ یا مرحوم کی قبر پر ایک لکڑی گاڑ دی جاتی تھی، دو چار ما بعد اگر کوئی پڑھا لکھا شخص ادھر سے گذرتا تو قبر پرلکڑی کا نشان دیکھ کر سمجھ جاتا کہ اس مردے کی نماز جنازہ ابھی تک ادا نہیں کی گئی ہے، اور پھر وہ شخص نماز جنازہ پڑھ کر قبر پر گاڑی  گئی لکڑی ہٹا دیتا

میرے عزیز

ابھی بھی وقت ہے، اپنے امام کی قدر کریں ، آپ اندازہ لگائیں کہ اس مہنگائی کے دور میں کہیں پچاس ہزار تنخواہ پانے والوں کا کام ، جب ٹھیک ڈھنگ سے نہیں چل پارہا ہے تو پھر دو چار ہزار پانے والے امام کا کام کیسے چلتا ہوگا ؟

اس کے بھی تو بال بچے دوست احباب اور رشتے دارہوتے ہیں 

18 thoughts on “اپنے امام کا حق دبانے والی قوم کبھی خوش نہیں رہ سکتی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *