جمعہ اور اس کے فضائل و مسائل
تحریر: افتخاراحمد قادری برکاتی :: جمعہ اور اس کے فضائل و مسائل
جمعہ اور اس کے فضائل و مسائل
ہفتے کے سات دن ہر قوم ہر مذہب اور ہر دور کی وضعوں میں تقریباً متفق علیہ رہے ہیں،البتہ مختلف قوموں نے ان کے مختلف نام وضع کئے-چنانچہ ہفتے کا ایک مخصوص دن جو ازل ہی سے بے پناہ اہمیتوں اور فضیلتوں کا حامل ہے جسے ہم اردو و عربی زبان میں جمعہ کہتے ہیں فارسی میں اسے آدینہ کہتے ہیں۔
اور ظہور اسلام سے قبل اہل عرب اسے عروبہ کے نام سے موسوم کرتے تھے- عرب میں پہلی مرتبہ اس دن کا نام عروبہ سے بدل کر جمعہ کعب ابنِ لوی نے رکھا جو سرور کونین صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے جد امجد حضرت عبد المطلب کے پردادا تھے
جیسا کہ قرآن وحدیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت آدم سے لے کرحضرت عبد اللہ تک سرور عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نور ہمیشہ پاک پیشانیوں میں منتقل ہوتا رہا
جناب کعب ابنِ لوی بھی بت پرست نہ تھے،وہ اس دن لوگوں کو حرم کعبہ کے گرد جمع کرتے اور
خطبہ دیتے یہی مناسبت تبدیلی اسم کا سبب بنی-چوں کہ جمعہ،جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنی جمع اور اکٹھا ہونے کے ہیں- قرآن مجید میں اس دن کا تذکرہ اسی نام سے آیا ہے،اذا نودی الصلوت من یوم الجمعہ،حدیث پاک میں ہے کہ اسی دن تمام مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی- اسی دن ملک الموت نے تمام مقامات کی مٹی جمع کرکے خمیر کیا اور حضرت آدم کا پتلا تیار ہوا
اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن جنت سے باہر تشریف لائے- اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی- اور اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی- مشكاةشریف کی حدیث کہ نفخئہ اولی بھی اسی دن ہوگا،جس سے تمام مخلوقات فنا ہوجائے گی،کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام،کا وعدہ پورا ہوگا
اسی دن نفخئہ ثانیہ بھی ہوگا جس پر تمام لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے،حتی کہ مشکات شریف کی حدیث ہے کہ حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا جمع کے دن صبح صادق سے سورج نکلنے تک تمام مقرب فرشتے،زمین وآسمان،ہوائیں،پہاڑی حتیٰ کہ چرند پرند تک ساری مخلوق خوف زدہ رہتی ہے کہ کہیں آج ہی قیامت کا دن نہ ہو،جب سورج نکل آتا ہے تو وہ اطمینان کا سانس لیتے ہیں
صرف انسان و جنات ہی ایسی مخلوق ہیں جو اس سے غافل رہتے ہیں-اللّٰہ رب العزت نے اس دن کو جمعہ کہا اس لیے کہ اس دن تمام مسلمان جمع ہوکر اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں- ارشاد ربانی ہے والیوم الموعود وشاھدومشھود،یوم موعود سے مراد قیامت،یوم مشہود سے مراد یوم عرفہ ( نویں ذی الحجہ) ہے جب حجاج کرام میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں
اور شاہد کا معنیٰ حاضر ہونے والا- اس سے مراد جمع ہے یعنی یوم عرفہ میں لوگ دور دور سے جمع ہوتے ہیں اور یوم جمعہ کی وہ خاص نعمت و رحمت ہے جو خود ہمارے گھر میں آکر ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہتی ہے کہ اے ایمان والو! غفلت سے بیدار ہوجاؤ تم کتنے بے ہس و حرکت اور غفلت کے عادی ہو چکے ہو کہ رحمت و نور کا خزانہ تمہارے پاس آگیا ہے مگر تم دامن تک نہیں پھیلاتے
جمعہ کی فضیلت :
جمعہ کے دن کو اللّٰہ رب العزت نے ہر شریعت میں اپنے بندوں کی عبادت وریاضت کے لئے پسند فرمایا- توریت میں اس کی رحمتوں اور عظمتوں کا تذکرہ موجود تھا- مگر خصوصیت کے ساتھ اللّٰہ نے قوم یہود سے اس دن میں عبادت کا ذکر نہ فرمایا بلکہ انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ تم ہفتے کے کسی ایک دن کو عبادت کے لیے خاص کرلو-
مگر ان کی نظریں اس یوم رحمت تک نہیں پہنچ سکیں- شاید منشائے ایزدی یہی تھا کہ اسے امت محمدیہ کے لیے خاص کرلیا جائے
یہ رب کریم کا فضل بے پایاں ہے جو ہمیں غلامئ مصطفٰی کے سبب نصیب ہوا- اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا، (مشکات شریف الجمعہ) یعنی جمعہ کا دن یہود ونصاریٰ پر بھی فرض کیا گیا تھا مگر وہ اس میں اختلاف کربیٹھے بایں طور کہ یہود نے سنیچر کو اپنی عبادت کے لیے خاص کیا کہ اسی دن اسے فرعون سے نجات ملی تھی
اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنے لیے منتخب کیا مگر جمعہ کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی،ہمیں اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت دی یعنی عظمت و رفعت والا دن ہم پر ظاہر فرمایا گیا اور واضح طور پر بتادیا تاکہ ہم انتخاب میں غلطی نہ کریں- اور جس دن کو مسلمانوں نے منتخب کیا وہ جمعہ تھا اور اسی میں نمازِ جمعہ بھی ہے
اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ مرقات نے ابنِ سیریں سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ہجرت فرمانے سے قبل مدینہ کے انصار نے سوچا کہ جب یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے عبادت کا دن مقرر ہے،تو کیوں نہ ہم بھی اس طرح کا دن مقرر کرلیں،چناچہ انہوں نے جمعہ کے دن سعد ابنِ زارہ کو امام بناکر ان کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں
حدیث بالا میں ھدانا کے لفظ سے اس جانب بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ اللّٰہ نے میری امت کے خیال کو پسند فرمایا- پھر جب حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو جمعہ کا حکم آچکا تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم پیر کے روز مقام قبا میں پہنچے وہاں بنی عمر و ابنِ عوف میں جمعرات تک قیام کیا اور جمعہ کے روز مدینہ شریف کا عزم فرمایا-سالم ابنِ عوف کے وطن وادی میں جمعہ کا وقت آگیا لوگوں نے وہاں پر ایک مسجد کی تعمیر کی سید عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے وہاں پر جمعہ کی نماز پڑھائی
یہ پہلا جمعہ تھا جو صحابہ کرام نے حضور انور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اقتداء میں ادا کیا
جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اس کا منکر کافر ہے- اور بلا عذر چھوڑنے والا فاسق اور ناقابلِ تعظیم،نماز جمعہ ہر مسلمان،مرد،عاقل وبالغ،تندرست اور مقیم شہری پر فرض ہے-جمعہ کی نماز صحیح ہونے کی سات شرطیں ہیں
(1) شہر جہاں قضاء مقدمات کا اختیار رکھنے والا کوئی حاکم ہو
(2) حاکم کا ہونا
(3) وقت ظہر کا ہونا
(4) خطبہ وقت کے اندر ہونا
(5) خطبہ کا قبل نماز ہونا اور اتنی جماعت میں ہونا جو جمعہ کے لیے ضروری ہے
(6) جمعہ کے لیے جماعت شرط ہے جس کی تعداد یہ ہے کہ امام کے علاوہ کم از کم تین آدمی موجود ہوں
(7) اذن عام،کہ نمازیوں کو مقام نماز میں آنے سے روکا نہ جائے-
بیمار،مسافر،بچے،غلام اور عورتوں پر جمعہ واجب نہیں- مگر یہ لوگ اگر جمعہ پڑھ لیں تو ظہر ادا ہوجاتی ہے سوائے عورتوں کے کہ ان پر ظہر ہی فرض ہے- اس لئے کہ جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے اور عورتوں کا مسجد کی جماعت میں شریک ہونا ممنوع بلکہ خود گھر میں ان کی اپنی جماعت بھی مکروہ ہے
لہذا عورتوں کو جمعہ کی جگہ ظہر اور عیدین میں نماز نفل تنہا ادا کرنی چاہئے- (عام کتب فقہ)
دیہاتوں میں جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو وہاں قائم نہیں کرنا چاہئے اور جہاں ہورہا ہو وہاں منع بھی نہیں کرنا چاہیے کہ،العوام کا الانام،جو لوگ صرف جمعہ ہی پڑھتے ہیں اگر انہیں جمعہ سے روک دیا جائے تو وہ یاد الٰہی سے بالکل غافل ہو جائیں گے-
البتہ گاؤں والوں کو جمعہ کے بعد ظہر کی چار رکعتیں ضرور ادا کرنی چاہئے،ورنہ تارک ظہر اور گنہگار ہوں گے- (انوار الحدیث) نماز جمعہ کی اہمیت: نمازِ جمعہ کی پابندی کرنی چاہئے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جس مسلمان نے بلا عذر تین جمعے لگاتار چھوڑ دئیے اللّٰہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے-
یعنی وہ آدمی رفتہ رفتہ نیکی سے دور ہوتا جائے گا اور حدیث ہے کہ کہیں وہ اسلام کی حدود کو پار نہ کرجائے
مستحبات : جمعہ کے دن مسواک کرنا،غسل کرنا،اچھے کپڑے زیب تن کرنا،خوشبو ملنا وغیرہ مستحب ہے
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جمعہ کو آئے پھر جو مقدر میں ہو نماز پڑھے پھر امام کے خطبے سے فارغ ہونے تک خاموش بیٹھے،تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے دس دنوں کے گناہ معاف فرما دے گا جمعہ کی نماز کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم سے وقار و متانت کے ساتھ جانا چاہیے ایک حدیث پاک میں آیا کہ ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ مٹایا جاتاہے ( موطا امام محمد)
مسجد میں اگلی صف میں جگہ ہو تو پچھلی صف میں نہ بیٹھے بلکہ پہلے پہنچ کر امام سے قریب بیٹھنے کی کوشش کرے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ،احضر والذکر و نومن الامام فان الرجل لایزال یتاعد حتیٰ یوخر من الجنتہ وان دخلھا،جمعہ کے خطبے میں حاضر رہو امام سے قریب رہو اس لیے کہ آدمی جس قدر دور رہے گا اسی قدر جنت میں پیچھے رہے گا اگرچہ داخل ہوگا معلوم ہوا کہ جمعہ کے لئے خطبہ سے قبل مسجد میں آنا چاہیے
ایک دوسری حدیث پاک میں آیا کہ جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر رجسٹر لے کر ہر آنے والے کا نام یکے بعد دیگرے لکھا کرتے ہیں یہاں تک کہ جب امام خطبے کے لئے نکلتا ہے تو فرشتے اپنے دفتر سمیٹ کر نمازیوں کے ساتھ خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں اس کے بعد آنے والے کا نام درج ہونے سے رہ جاتا ہے-
اس حدیث پاک سے عوام کو عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ فرشتے خطبے کے احترام میں اپنی ڈیوٹی ختم کر دیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کے خطبے کے وقت شور و شغف،بات چیت،تاک جھانک اور اٹھک بیٹھک کو اپنی ڈیوٹی بنا لیتے ہیں-جب کہ یہ حرکتیں قطعاً ناجائز و حرام ہیں حتیٰ کہ سلام کا جواب تک دینے کا حکم نہیں-
ساعت مقبول:
نماز سے خالی اوقات میں درودشریف کا ورد کثرت سے کرے،نیز نہایت عجز و انکساری کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں دعائیں کرے،اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کے دن میں ایک ایسی بھی گھڑی ہے کہ جسے بندہ مومن نماز پڑھتے ہوئے نہیں پاتا ہے کہ اللّٰہ سے وہ کچھ مانگے مگر اللّٰہ تعالیٰ اسے عطا کردیتا ہے
قبولیتِ دعا کی یہ ساعت رات میں روزانہ آتی ہے مگر دنوں میں صرف جمعہ کے روز- یقینی طور پر نہیں معلوم کہ وہ گھڑی کون سی ہے اللہ کے رسول نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ عبادت کی طرف راغب کرنے کی غرض سے شب قدر کی طرح اس ساعت کو بھی مخفی رکھا
علماے کرام کے اس سلسلے میں دو قول زیادہ قوی ہیں اول وہ ساعت امام کے خطبے کے لیے منبر پر بیٹھنے سے لے کر ادائے نماز کے درمیان دوم وہ ساعت آفتاب ڈوبنے کے وقت ہے،پہلے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا،ھی مابین ان یجلس الامام الی ان تقتضی الصلوت
اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جمعہ کی آخری تین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس میں بندہ مومن جو دعا کرتا ہے قبول ہوتی ہے
ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ نے حضرت کعب بن اخبار سے اس گھڑی کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس گھڑی کو جانتا ہوں اور وہ جمعہ کی آخری گھڑی ہے- حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ اس وقت کوئی نماز پڑھنا مکروہ ہے-انہوں نے فرمایا کہ کیا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص کسی نماز کے انتظار میں بیٹھے تو وہ نماز پڑھنے تک نماز ہی میں ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! فرمایا تو وہی گھڑی ہے-چناں حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا اس وقت خود حجرے میں بیٹھتیں اور اپنی خادمہ فضہ کو دروازے پر کھڑا کرتیں،جب آفتاب ڈوبنے لگتا تو خادمہ آپ کو خبر کرتی اور آپ اس کی خبر پر ہاتھ اٹھاتیں
تحریر: افتخاراحمد قادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com
Pingback: مدارس کی حفاظت کے لیے لائحہ عمل تیار کیجیے ⋆ اردو دنیا تحریر::- افتخار احمدقادری برکاتی
Pingback: روح انسانی پر یوم جمعہ کے اثرات ⋆ اردو دنیا از : اظفر منصور