یوپی کی سیاست میں اویسی کی مداخلت

Spread the love

تحریر: زاہد کمال یوپی کی سیاست میں اویسی کی مداخلت

یوپی کی سیاست میں اویسی کی مداخلت

منطق جس کو ہم آج لوجک کہتے ہیں، وہاں ایک اصول ہے کہ دو متضاد چیزیں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں۔ کوئی باپ بھی ہو اور بیٹا بھی ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔ چھوٹا بھی ہو اور بڑا بھی ہو ایسا نہیں ہوسکتا، کوئی اکثریت میں بھی اور اقلیت میں بھی ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔

لیکن اس میں بہت سے استثنا بھی ہیں ۔ایک استثنا اعتبار کا بھی ہے۔ مثلا میں اپنے بیٹے کے اعتبار سے باپ ہوں اور اپنے باپ کے اعتبار سے بیٹا۔باپ کے لیول پہ بڑا ہوں اور بیٹے کے لیول پہ چھوٹا۔ اس اعتبار کے اعتبار سے پوری دنیا ہی بدل جاتی ہے۔

آج ہم اس اعتبار اور لیول کے فلسفے کو سیاست میں بھی آزماتے ہیں۔ بات کو آسان کرنے کے لیے کچھ چیزیں واضح کر دوں۔ میں میم پارٹی کا ممبر نہیں۔ نہ ممبرشپ کی تمنا ہے۔

نہ میم پارٹی کو ہر جگہ سپورٹ کرتا ہوں۔ لیکن میم پارٹی کے عروج کو مسلم اکثریتی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے سپورٹ ضرور کرتا ہوں۔

دوسری بات ہندوستان کا دستور ہی مسلمانوں کے تئیں بھید بھاؤ کرتا ہے۔ مسلم کمیونٹی کو دستور میں تعلیمی، تہذیبی اور مذہبی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن سیاسی حقوق حاصل نہیں۔ مطلب مسلمانوں کی کم سے کم نمائندگی کا بھروسہ یا ریزرویشن حاصل نہیں۔

ایس سی، ایس ٹی رزرویشن سے جان بوجھ کر الگ تھلگ کردیا گیا۔ اور اس دفعہ کو نویں شیڈیول میں رکھ کر ترمیم کا دروازہ بند کردیا گیا۔ مسلمان، تھوڑی سی جگہ میں، بیک فٌٹ پر کھیلنے کو مجبور ہے۔

تیسری بات ہندوستان میں جمہوریت ہے اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ رایِ عامہ ہر پانچ سال بعد حکومت کا تختہ پلٹ سکتی ہے۔ اس کی یہ طاقت ہی حکم ران جماعت کو ایک ڈر اور تذبذب میں مبتلا رکھتی ہے۔ باقی درمیان سال میں سارا پاور پارٹی کے پاس ہوتا ہے۔

مطلب یہ کہ اگر آپ کی قوم بے گھر بھی ہو جائے، گاؤں در گاؤں جلاوطنی پر بھی مجبور ہو جائے، ہزاروں لوگ قتل ہو جائیں، عید گاہوں میں آپ پر پولس گولیاں برسادے۔ آپ کی قوم علمی، سماجی، سیاسی، اور مالی اعتبار سے دلتوں سے بھی بدتر ہو جائے۔

لیکن آپ اپنی پارٹی اور اسکی پالیسی کے خلاف بڑ بڑا بھی نہیں سکتے۔ اگر آپ کی پارٹی نے وہپ

whip

جاری کردیا اور آپ وہپ کے خلاف ایک لفظ بھی بول گئے تو اگلے دن قانونی طور پر آپ کی ودھایکی منسوخ ہو جائے گی۔

قانون کی نظر سے دیکھیں، تو پارٹی اور وہپ کے خلاف بولنا جرم قرار دیا جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ ہندوستان میں عوام کی حکومت نہیں، جیسا آپ سمجھتے ہیں، بلکہ پارٹی کی حکومت ہوتی ہے۔ پارٹی کا مکھیا سب کچھ ہے۔

صبح سویرے، اگر مکھیا کا فون آپ کو آگیا تو آپ کا پورا دن خراب ہوسکتا ہے، کیا معلوم آپ کے استعفی کا حکم صادر ہو چکا ہو۔ حالیہ دنوں میں مرکزی حکومت میں بڑی بڑی وزارتیں صبح ،صبح، 6 بجے تبدیل ہوگئیں۔

اور جس نے دیر کی 30 منٹ بعد دوبارہ کال پہونچ گئی،” آپ نے ابھی تک استعفی کیوں نہیں دیا۔” گجرات میں تو پوری کابینہ ہی ایک فون کال پر تبدیل ہوگئی۔

یو پی کی سیاست میں اویسی کی انٹری بہت سے لوگوں کو کھٹکتی ہے۔ مولانا محمود مدنی جیسے ذمہ دار لوگ اعلان کرتے پھرتے تھے۔ “ہم اویسی کو یوپی میں گھسنے نہیں دیں گے۔” لیکن آج ان کے بھی سٌر تال بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔

آج وہ بھی الاپنے لگے کہ “ہر قوم، ہر مذہب، ہر ذات، ہر برادری، ہر جماعت، اور ہر کمیونیٹی کو اپنی آواز اٹھانے کا حق ہے۔ اور اٹھانا بھی چاہیے۔

یہی ہمارے دستور کا سبق ہے”۔ پھر بھی کچھ لوگوں کو کچھ خدشات ہیں۔ مثلا اویسی کی انٹری سے پورا چناؤ ہندو بنام مسلم ہو جائے گا۔

2014 سے لے کر آج تک بی جے پی ایک دن کے لیے بھی خاموش نہیں بیٹھی۔ تین طلاق، گائے، گوشت، موب لنچنگ، جناح، ذاکر نایک، کشمیر، کشمیری برہمن، بابری مسجد، سی اے اے، این آر سی، جماعتی کرونا، کیرانہ، پلاین، گھر واپسی

اور حالیہ دنوں میں سڑکوں پر نماز ، دھرم سانشد ، یونیفارم بنام حجاب کی جنگ بے جے پی ایک لمحہ بھی آرام کی سانس نہیں لیتی، مسلسل بر سر پیکار ہے۔ مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔

مسلسل چراغ پا ہے۔ نہ جھکتی، نہ رکتی ہے، نہ آرام کی سانس لیتی ہے، نہ ترس کھاتی ہے۔ اس کے لیے کوئی چناؤ چھوٹا نہیں، اس کے لیے کوئی مدعا چھوٹا مدعا نہیں، جہاں ہاتھ رکھتی ہے آگ لگا دیتی ہے۔ قطعی زہر اگلتی ہے۔

آپ کی خاموشی، بی جے پی کا جواب نہیں، نہ پر تشدد ری ایکشن جواب ہو سکتا ہے، نہ ستر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپا لینا، جواب ہو سکتا ہے۔ نہ آل از ویل

(all is well)

کا وِرد کرنا جواب ہو سکتا ہے۔ ہاں دستور نے آپ کو بہت سے قانونی اور سیاسی ہتھیار دیے ہیں۔

اپ ان کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اپنی بساط بھر لڑ سکتے ہیں۔ اویسی سیاسی میدان سے جواب دیں یا نہ دیں، نفرت کا زہر پھیلتا ہی رہے گا۔ نفرت کا رنگ چڑھتا ہی رہے گا۔ اور یہ ہم 7 سال سے مسلسل مشاہدہ کر تے آرہے ہیں۔

دوسرا خدشہ یہ کہ اویسی کی انٹری سے اکھیلیش ہار جائیں گے جو بی جے پی کو ہرانے کی پوزیشن میں ہیں۔ جی یہ ایک معما ہے جس کا خلاصہ ہونا ابھی مشکل ہے۔

دو مجرموں سے پولس الگ الگ پوچھ تاچھ کرتی ہے۔دونوں سے وعدہ کرتی جو جرم قبول کر لے گا سرکاری گواہ بنا دیا جائے گا اور دوسرا سزا یاب ہوگا۔ ہو سکتا ہے دونوں بتانے سے انکار کردیں۔ ہو سکتا ہے ایک قبول کر لے۔

دوسرا پھس جائے۔ ہو سکتا ہے ہے دونوں ہی قبول کرنے سے انکار کردیں اور دونوں بے قصور قرار دیے جائیں۔ ایسی صورت حال میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اویسی اور اکھیلیش کا اتحاد بھی بہت سود مند نہیں۔

ایک طبقہ اس کا غلط مطلب نکال لیتا ہے جیسا کہ حالیہ دنوں میں آسام میں بدرالدین اجمل اور کانگریس کے ساتھ ہوا۔

اگر اویسی منظر نامے سے غائب ہو بھی جائیں اور اکھیلیش جیت بھی جائیں تو بھی بے جے پی اس پوزیشن میں ہے کہ سام، دام، دنڈ، بھید کے ذریعے اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے۔

جیسا ہم نے پچھلے دنوں، بہار میں نتیش کمار کو، اور مدھیہ پردیش میں جیوتی رادھت٘ی سندھیا کو دیکھا۔ کشمیر، کرناٹک، گوا، اور منی پور میں بھی بھاجپا کو ہار کر جیتتے ہوئے دیکھا۔

راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے باوجود بھی، بے جے پی نے بہت سے بڑے بڑے فیصلے پاس کر لیے۔ کیوں کہ ووٹنگ اور خریدو فروخت اور بار گیننگ کا سلسلہ 5 سال میں صرف ایک بار نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر دن ہر لمحہ چلتا رہتا ہے۔

جو لوگ موافقت میں ووٹ ڈالنا کو تیار نہیں ہوتے انہیں غیر حاضری کا، واک آؤٹ کرنے کا، یا ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا اجر مل چکا ہوتا ہے۔ سی اے اے بل میں ہم نے بہت اچھی طرح اس کھیل کا مشاہدہ کیا. سماج وادی یا بہوجن جیسی پارٹیوں کو جتانا کچھ حد تک مفید ہو سکتا ہے۔

لیکن آپ کی آواز ختم، آپ کی بارگیننگ پاور ختم، آپ کی سیاسی اور سماجی حیثیت ختم، آپ کا وقار ختم، آپ بس ووٹنگ مشین اور ووٹ بینک کی حیثیت تک محدود رہ گیے۔

کیا مسلمان اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے۔۔۔ نہیں وجود کی جنگ نہیں عزت اور وقار کی جنگ ہے۔ حصہ داری اور برابری کی جنگ ہے۔ نمائندگی اور آواز کی جنگ ہے۔ بی جے پی نے عملاً مسلمانوں کے ووٹ کو بے وقعت کردیا ہے۔

بہت سے جوشیلے قاعدین جو چیختے پھرا کرتے پھرا کرتے تھے کہ ہم مسلمانوں کے بغیر کوئی حکومت نہیں چلا سکتا، آج سر چھپائے پھرا کرتے ہیں۔

بھاجپا عملاً مسلم مٌکت سیاست پر عمل پیرا ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔ ظاہر بات ہے ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے۔ اور سیاست میں ایکشن یا ری ایکشن کا پھل ایک دو سالوں میں نہیں، دہائیوں میں آتا ہے۔

اویسی نے جو سیاسی ری ایکشن دکھایا ہے اس کا اثر دس سال بعد دیکھنے میں آئے گا، جب مجلس بھی اپنی طاقت سے بارگیننگ اور سودے بازی کی پوزیشن میں ہوگی۔

کیا اویسی 4/5 ودھایکوں کے ساتھ حکومت بنا سکتے ہیں۔؟۔ جواب نہیں بنا سکتے۔ ہندوستان میں، 2858 پارٹیاں ہیں اور حکومت دو تین پارٹیاں ہی بنانے کے پوزیشن میں ہوتی ہیں تو کیا باقی پارٹیاں مر جائیں؟؟۔

علمی جواب یہ کہ پانی کی کوئی قیمت نہیں، کہیں سے بھی مفت میں حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب آپ ایک گلاس پانی کے لیے پوری زندگی کی کمائی بھی لٹانے کو تیار ہوجائیں۔

عقل مند وہی ہوتا ہے جو صحیح وقت پر صحیح صورتحال میں صحیح فیصلہ کرلے۔ ایک ووٹ کی قیمت مارکیٹ میں عام طور پر 500 روپے ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ کی پارٹی ہے، ایک ودھایک کے ووٹ کے لیے، آپ کچھ بھی ڈیمانڈ کر سکتے ہیں۔

آپ ذاتی مفاد کے لیے اس موقع کا استعمال کرتے ہیں یا قومی مفاد کے لیے یہ آپ کی اخلاقیات پر نر بھر کرتا ہے۔

“کیا ایک دو ایم پی سے اویسی مودی کو ٹکر دے سکتے ہیں۔نہیں تو پھر کانگریس کی طرف واپسی کرلیں۔”

جی یہاں ٹکر دینا مشکل ہے۔ ایم پی الیکشن کا لیول کچھ اور ہو تا ہے۔ ودھایک کا لیول کچھ اور، اور کونسلر، نگر سیوک، سبھاسد کا لیول کچھ اور۔ ایک لاٹھی سے سب کو نہیں ہانک سکتے۔

اندھے کا ہاتھ میں لاٹھی نہیں دے سکتے۔ ہر لیول پہ الگ پالیسی اور الگ اصول اختیار کرنا ضروری ہے۔ اویسی کو بھی جتانا ضروری ہے جہاں وہ ٹکر دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ جہاں اویسی کی پوزیشن نہیں وہاں دل و جان سے، پوری شدت کے ساتھ اکھیلیش کو جتائیں۔

جو بھی اسٹینڈ لیں، پوری شدت کے ساتھ لیں۔ دل سے کریں۔ جان لگا دیں۔ اپنی پہچان بنائیں۔ اپنا اثر اور رنگ چھوڑ کر آئیں۔ زعفرانی رنگ جنون کی حد تک چڑھ چکا ہے۔ پاگل ہاتھی کی طرح بے مروت ہو چکا ہے۔

اس رنگ کو اتارنا مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ اپ گھروں سے نکلیں۔ اللہ ظالموں کے دلوں میں آپ کا رعب ڈال دے گا۔ اور آپ کی تعداد کو ان کی آنکھوں میں دو گنا کر دکھائے گا۔

تحریر: زاہد کمال

یوپی الیکشن سیاست اپیل اور مشورہ

  یوپی الیکشن میں نفرت کے سوداگروں کو سبق سکھانے کا اچھا موقع ہے

 ووٹ ہماری طاقت ہے اور بھارتی ہونے کا ثبوت بھی !ْ۔

 سیکولر اچانک کمیونل بن جاتے ہیں

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟