مد ارس ایسے بھی تو ہو سکتے ہیں
از قلم : سيف علی شاہ عدم بہرائچی مد ارس ایسے بھی تو ہو سکتے ہیں !
بے شک مدرسوں کا نام ہر کسی نے سنا ہوگا خواه وه مسلمان ہویا پھر کسی دیگر مذ ا هب کا معتقد ہو چونکہ ہمارے معاشرے میں ایک بات عام ہے کہ مدرسہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں چند طلباء اور ایک دو مدرس کی موجودگی ہو اور قران وسنت کی تعلیم دی جاتی ہو ۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے اور آج کے موجودہ دور میں تو مدرسے کی یہ تعریف ضرور بضرور ناقابل قبول ہے۔
کیوں کہ مدرسہ درس يدرس کے فعل سے بنتا ہے جس کے معنی پڑھنا ہو تا ہے اور مدرسه کا مطلب درسگاہ یعنی پڑھنے کی جگہ اب آپ کو یہ بات تو معلوم ہی ہوگی کہ پڑھناصرف اور صرف اسلامی تعلیم ہی نہیں ہوتا بلکہ آج کے آج کے دور میں ریاضی سائنس ہسٹری پوليٹکس یعنی جسے ہم ما دی علوم بھی کہتے ہیں سب ضروری ہے
آج ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ جب کوئی بھی کسی کے بارے میں یہ سنتا ہے کہ بھائی صاحب مدرسے میں زير تعلیم ہیں تو وہ سوچتا ہے کہ ہاں انہیں دینیات کا ہی علم ہوگا اور ماشاء الله یہ الله ورسول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں حالانكہ یہ سچ بھی ہے کیونکہ تاریخ جہاں اس بات کا گواہ ہے کہ مدارس میں صرف اورصرف دینی علوم کا انتظام ہوتا ہے
اور یہی عموما چلتا آ رہا ہے حالانكہ اب اس سوچ اس نظرئے کا بائیکاٹ ہونا بہت ضروری ہے اور سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب صرف اور صرف دینی علوم حاصل کرلینے سے کام نہیں چلنے والا بلكه آج کے موجودہ سائنسی زمانے میں اس سے کام نہیں چلنے والا بلكہ سارے علوم کا ايک ساتھ ہونا بہت ضروری ہے
آ ج ہمارے ارد گرد کا حال کچھ اس طرح ہے کہ مسلمان حضرات بھی اپنے بچوں کو مدر سے میں تعلیم دلانے سے گھراتے ہیں اور انہیں یہ ایک معمولی سی بات کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتے اب سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ آخر لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟ کیوں انہیں مدارس سے ایسی بات کا احساس ہوتا ہے ؟
اس کا جواب بس اتنا سا ہے کہ مدارس اسلامیہ کا حال ہی کچھ ایسا ہے بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو مدرسے کی تعلیم دلاتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اسلامی تعلیم کی غرض سے یہ کام کرتے ہیں
جب کہ اکثر لوگ تو غریبی کی وجہ سے ہی مدرسے کا رخ کرتے ہیں اور آخر آپ کو يہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ مدد سے میں ڈانے کے ایک سال بعد بچہ ناظره کی تعلیم مکمل کریتا ہے اور پھر تین سال میں مکمل حافظ قران ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اسے یہ خیال آتا ہے کہ اس نے اپنی تعلیم مکمل ہوگئی حالانکہ ایسا نہیں ہے
بلکہ حفظ قران تو محظ تعلیم کی شروعات ہے اور پھر اس کے بعد وہ کی مسجد جب امامت یا مدد سے میں بحیثیت معلم مقرر ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی یونہی مکمل طور پر گزار دیتے ہیں میں یہ نہیں کیتا که یہ غلط ہے بلکہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کے ایسا کرنے کی وجہ سے لوگوں کے دماغ میں ایک بات بیٹھ چکی ہے کہ فارغین مدارس بس اتنا ہی کر سکتا ہے۔
او ر اس کے علاوه اسے کچھ حاصل نہیں ہمیں چاہیے کہ اب لوگوں کے غلط نظریئے کو رد کریں اور بتائیں کہ یہ باتیں سراسر غلط ہے
ایک بہت ہی عجيب و غریب اور افسوسانہ بات سننے کو ملی ہے چند روز قبل ایک چھوٹی سی بچی نے بہت ہی بہترین انداز میں کہا ” ارے بھائی صاحب اگر سارے مسلمان مولانا ہی بن گئے تو ڈاکٹر اور انجينير کون بنے گا ؟۔
” یہ بات تھوڑی نہیں بلکہ بہت عجیب ہے کیونکہ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ مولانا ہونا اور ڈاکٹر یا انجينير ہونا الگ الگ بات ہے میرے پیارے بھائيوں ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہم مولانا ضرور بنے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ڈاکٹر یا انجينير بھی ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کی سوچ مکمل طور پر ختم کردیا جائے اور انہیں یہ بتا دیجئے کہ مولانا مولانا کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے!۔
اب تلاش ہے ایسے مدرسے کی جو دینی مدرسے تعليم کے ساتھ ساتھ مہیا کرے اوروہ بھی کسی بھاری فيس کے بنا مگر اتنے بہترین مدرسے کا دریافت ہونا کافی مشکل معلوم ہوتا ہے
نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے کیوں کہ آپ نے دارالہدی اسلامك یونیورسٹی کا نام شاید سنا ہو اور اگر نہیں سنا ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں ملک ہندوستان کی ریاست کیرلا میں واقع دارالھدی اسلامک یونیورسٹی ایک ایسا ادارہ ہے جسے عالمی سطح پر مقبولیت کا درجہ حاصل ہے
اور اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح کی پڑھائی اس یونیورسٹی میں دی جاتی ہےاس طرح کی پڑھائی اور کہیں بھی نہیں دی جاتی ہے
اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے بیشترممالک میں فارغین جامعہ ہذا مختلف عہدوں پر فائز ہیں آپ یہ جان لیں کہ دارالہدی ایک ایسا جامعہ اور اسلامی ادارہ ہے جس کے نظام کی عالم کے تمام مدارس کو ضرورت ہے اور اس بات کو سمجھیں کہ اگر اس نظام کو ہر جگہ نافذ کردیا جائے تو شاید مسلمانوں کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا اب میں آپ کو اس کے نظام تعليم سے آگاہ کرتا ہوں
یہاں کی متمل تعلیم 12 سال کے طویل عرصے پر منحصر ہے شروعاتی پانچ سال سکینڈری اور پھر دو سال سینیر سیکنڈری اور پھر تين سال ڈگری اور آخری کے دو سال پی جی پر مشتمل ہیں اب آپ نے یہ اندازه تو لگا ہی لیا ہوگا
کہ یہاں کے نظام کا کوئی نظير نہیں اب بات کرتے ہیں یہاں کے تعلیمی مضمونات کی اردو عربی فارسی ہندی حدیث و قران فقہ و تفسير اصول فقہ اصول حدیث منطق کے ساتھ ساتھ انگلش میتھ سائنس ہسٹری کمیوٹر کورس وغيره کی بھی مکمل تعلیم دی جاتی ہے اور ماشاء الله طلباء اس سے کافی متاثر ہوتے ہیں
علاوہ ازیں بچوں کے لیے ایک کمپیوٹر لیب آڈیو لیب اور ایک دو منزلہ لائبريرى اور ساتھ ہی ساتھ دارالحکمه نامی نوتعمیر بلڈنگ جس کا گراونڈ فلور ایڈیٹوریم اور پہلے منزلے پر انٹرنیٹ شدہ کمپیوٹر لیب اور رفرینس ہال بھی ہے
اور اتنا ہی نہیں یہاں برکلاس میں ایک اسمارٹ ٹی وی بھی ہے جس سے مختلف قسم کی پڑھائی کرائی جاتی ہے اب سب سے بڑی بات یہ کہ جامعہ میں دو شعبہ ہے ایک ملیالی طلباء کے لۓ اور دوسرا غير ملیالی طلباء کے لیے جو ہندوستان کی مختلف ر یاستوں سے تعلیمی سفرکر کے آتے ہیں۔
بانیان جامعہ کا مقصد تین باتوں پر مکمل ہوتا ہے پہلا تعليم دوسرا تربيت اور تیسرا دعوت اب آپ خود ہی سمجھ گیے ہوں گے کہ ان تینوں مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچا نے کے لیے اس نظام تعليم کی سخت ضرورت ہے اور صرف اس جامعہ ہی نہیں بلکه دنیا کی تمام اسلامی جامعات کو اس نظام کی ضرورت ہے۔
تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ مدارس صرف اور صرف ویسے ہی ہوں جیسے کے آج تک رہے ہیں بلکہ مدارس ایسے بھی ہوسکتے ہیں جیسا جامعہ دارالہدی ہے ۔
اس لیے میں ایک بات کو گزارش ضرور کروں گا کہ اپنے بچوں ایسے اسلامی ادارے سے متعل کریں تاکہ آپ کا دین و دنیا دونوں سنور سکے اور آپ فخرو ناز سے جی سکیں اور اپنا حق ادا کر سکیں فقط اتنا ہی۔
سيف علی شاہ عدم بہرائچی
9004757175