لٹتے مکان، خطرے میں جان، کہاں جائیں مسلمان
لٹتے مکان، خطرے میں جان، کہاں جائیں مسلمان ؟
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
صوبہ ہماچل پردیش :
ضلع سرمور(sirmaur) کے ضلع ہیڈ کوارٹر ناہن(Nahan) میں 19 جون کو ہندو تنظیموں نے ایک مسلم نوجوان جاوید کی گرفتاری کے لیے احتجاجی مارچ نکالا۔
مارچ جب چھوٹا چوک بازار میں واقع اس کی دکان پر پہنچا تو بھیڑ نے اس کی دکان پر حملہ بول کر سارا سامان لوٹ لیا۔خیر یہ رہی کہ جاوید دکان پر موجود نہیں تھا ورنہ اس کی جان بھی جا سکتی تھی۔لوٹ مار کا یہ “بہادرانہ کارنامہ” پولیس کی ذمہ دارانہ موجودگی میں انجام دیا گیا۔
جاوید کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنے واٹس اپ اسٹیٹس پر ذبیحہ قربانی کی تصویریں اپلوڈ کی تھیں۔ بس اسی بات پر شدت پسند ہندوؤں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا جو اس کی دکان لوٹنے اور مقدمہ درج ہونے پر ختم ہوا۔
امیدوں کے عین مطابق یوپی کی “فرض شناس” پولیس نے جلد ہی جاوید کو گرفتار کر لیا۔بس غنیمت یہ رہی کہ پولیس نے یہ بات صاف کر دی کہ مذبوحہ جانور گائے نہیں بھینسا تھا، جس کی قربانی قانوناً درست ہے۔اس صفائی اور قربانی کے قانوناً درست ہونے کے باوجود ہندو آستھا کی بحالی کے لیے “اکسانے” کا کیس لگا کر جیل بھیجنا ضروری سمجھا گیا۔
مزے کی بات یہ ہے جاوید اس شہر کا رہائشی بھی نہیں ہے۔وہ یہاں سے یہاں سو کلو میٹر دور اتر پردیش کے سہارن پور کا رہنے والا ہے۔ناہن میں وہ کرائے دار کے طور پر کپڑوں کا کاروبار کرتا ہے۔اس نے قربانی بھی اپنے گھر سہارن پور ہی میں کی۔تصویر بھی وہیں اپلوڈ کی لیکن شدت پسندوں کی آستھا دوسرے صوبے اور سو کلومیٹر دور ہی سے ایسی آہَت(زخمی) ہوئی کہ اس کی دکان کا سامان لوٹ کر ہی چین ملا۔اب ناہن کی ہندو تنظیموں نے بقیہ مسلم کاروباریوں کو دکان خالی کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔
حکومتی سختیاں اور ہمارے رویے
صوبہ اتر پردیش :
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے حوالے سے مشہور یوپی کا مشہور شہر علی گڑھ کے محلہ ماموں بھانجا میں 19 جون کی رات کو اچانک ہی ایک مسلم نوجوان محمد فرید عرف اورنگ زیب کو کچھ شدت پسند ہندوؤں کی بھیڑ نے گھیر لیا۔لاٹھی ڈنڈوں سے اسے خوب پیٹا گیا۔وہ مسلسل ہاتھ جوڑ کر چھوڑ دینے کی گُہار لگاتا رہا ہے لیکن کسی کے دل میں رحم نہیں آیا۔
جب تک پولیس پہنچتی اورنگ زیب قاتلوں کا شکار ہو چکا تھا۔روایت کے مطابق پولیس نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے اس کے بے جان جسم کو اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے اس کے مردہ ہونے کی تصدیق کر دی۔مسلمانوں کے احتجاج کے بعد پولیس نے سی سی ٹی کیمروں سے شناخت کرکے چھ قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے جن میں ایک قاتل بی جے پی کے لوکل نیتا کا بھائی ہے باقی قاتل بھی بی جے پی اور شدت پسند تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
اصلی کھیل گرفتاری کے بعد شروع ہوا۔جیسے ہی پتا چلا کہ قاتلوں میں ایک غنڈہ بی جے پی نیتا کا بھائی ہے بس فوراً ہی بی جے پی کے لوگ قاتلوں کی حمایت میں اتر آئے۔شہر سے بی جے پی کی ممبر اسمبلی مُکتا وارشنے، شہر کا میئر پرشانت سنگھل، بی جے پی یونٹ بجرنگ دَل اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے قاتلوں کی رہائی کے لیے دھرنا شروع کر دیا۔
ممکن تھا کہ ان کی بات مان لی جاتی لیکن مار پیٹ کا ویڈیو وائرل ہوچکا تھا۔قاتلوں کے چہرے، آواز سب ریکارڈ تھی، اس لیے معاملے کا رخ بدلنے کے لیے اورنگ زیب پر چوری کی نیت سے گھر میں گھسنے کا الزام لگایا گیا اور چور سمجھ کر غیر ارادی قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ پولیس سے کیا جارہا ہے۔فی الحال تو پولیس نے دفعہ 302 (جان بوجھ کر قتل کرنے) کی دفعہ کو برقرار رکھا ہے۔آگے دیکھتے ہیں کیس کس کروٹ بیٹھتا ہے۔تاحال مقتول کے ورثا کو حکومت کی جانب سے کسی طرح کی کوئی مالی مدد نہیں ملی ہے۔
اورنگ زیب ایک ڈھابے پر روٹیاں بنانے کا کام کرتا تھا۔کام ختم کرکے گھر واپس لوٹ رہا تھا۔اس کی غلطی یہ ہوئی کہ جلدی پہنچنے کے چکر میں اس نے ہندو اکثریتی محلے کا رخ کر لیا بس یہی غلطی جان لیوا ثابت ہوئی اور شدت پسندوں نے اس کی مسلم شناخت کی بدولت پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔
ذرا یہ پہلو بھی سمجھ لیں
ہماچل پردیش کے واقعے میں چند باتیں قابل غور ہیں؛
1۔ جاوید ہماچل پردیش کا رہائشی نہیں تھا۔اس کا مکان دوسرے صوبے یوپی میں تھا۔
2۔ قربانی اس نے یوپی میں کی، اسٹیٹس وہیں لگایا۔اکسانے/بھڑکانے والا کیپشن لگایا نہ ہندو دھرم کے متعلق کوئی کمنٹ کیا۔
3۔ قانوناً منظور شدہ جانور کی قربانی کی۔
اس کے باوجود اس کے خلاف ہنگامہ کھڑا کرنا کسی سازش کی جانب اشارہ کرتا ہے۔کیوں کہ جاوید کا کوئی بھی اقدام ایسا نہیں تھا جسے قانوناً غلط کہا جا سکے۔اگر قربانی کا فوٹو اسٹیٹس لگانا “اکسانا” مانا جارہا ہے تو ایسے فوٹو ویڈیو تو ہندو مندروں/پنڈتوں اور ہندو لوگوں کے بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔جہاں وہ لوگ مختلف جانوروں کی بَلی دے کر اس کے خون اور گوشت کا چڑھاوا پیش کرتے ہیں۔اس وقت “اکساوے” کا کیس کیوں درج نہیں ہوتا؟
اس ہنگامے کی اصل وجہ مسلم کاروباریوں کو شہر چھوڑ دینے کی دھمکیوں میں پوشیدہ ہے۔ گذشتہ ایک دو سال سے ہندو اکثریتی علاقوں میں مقیم مسلم کاروباریوں کو نکالنے کی سازش چل رہی ہے۔
جس کی شروعات اتراکھنڈ کے اتر کاشی ضلع سے ہوئی تھی جہاں ایک ہندو لڑکے ذریعے مقامی ہندو لڑکی کو بھگانے میں مدد کرنے والے مسلمان لڑکے کو بنیاد بنا کر مہینوں تک مسلمانوں کو دکانیں کھولنے نہیں دی گئیں۔
شہر چھوڑنے کے پوسٹر لگائے۔دکانوں پر حملے کیے۔کتنے ہی لوگوں نے ڈر کی وجہ سے شہر/کاروبار چھوڑنے ہی میں عافیت جانی۔ہماچل پردیش میں ہوا حالیہ ہنگامہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ شدت پسندوں کی دھمکیوں اور حملوں کی وجہ سے اب تک 16 مسلم دکان دار شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
کہاں تھمے گا یہ سلسلہ؟
یوں تو گو کُشی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم کا سلسلہ خاصا پرانا ہے لیکن 2014 میں بی جے پی کے مرکزی حکومت سنبھالنے کے بعد گو کُشی کے نام پر مسلمانوں کو ہجومی بھیڑ(Mob Linching) کے ذریعے قتل کرنے کا چلن تیزی سے بڑھا۔
یوپی، ایم پی، راجستھان، ہریانہ،دہلی،بہار،جھارکھند،چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں گائے کے نام پر مسلمانوں کو قتل کرنا فیشن سا ہوگیا ہے۔کتنے ہی قاتلوں کو بی جے پی کے سینئر وزرا اور لیڈران نے عوامی استقبالیے دئے۔جس سے عام ہندوؤں میں یہ بات گہرے تک بیٹھ گئی کہ سیاسی و سماجی طور پر نام کمانے کا بہترین اور مختصر فارمولہ گو کُشی کے نام پر مسلمانوں کو پریشان کرنا/وصولی کرنا/پیٹنا اور قتل کرنا ہے۔
اس چلن نے مویشیوں کا کاروبار کرنے والے سیکڑوں مسلمانوں موت کے گھاٹ اتار دیا۔اب شدت پسندوں نے مسلمانوں کی کاروباری پوزیشن کو ختم کرنے کا نیا حربہ یہ نکالا کہ جس ہندو اکثریتی بستی/شہر میں مسلمان ٹھیک ٹھاک کام کر رہے ہوں وہاں کسی ایک مسلمان پر جھوٹے الزام یا ذرا سی غلطی کو بنیاد بنا کر وہاں آباد سارے مسلم کاروباریوں کو نکالنے کی مہم میں لگ جاتے ہیں۔
ان کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔دکانوں پر حملے کرتے ہیں اور دکان مالکوں پر دباؤ بناتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دکانوں سے نکال دیں۔ہماچل پردیش کے ناہن کا معاملہ بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔اگر وقت رہتے اس ٹرینڈ کو نہ روکا گیا تو آنے والے وقت میں مسلمانوں کو اس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔کیوں کہ مسلمان چنندہ مقامات کے سوا ہر جگہ اقلیت میں ہے۔اگر ہندو سماج اسی طرح مسلمانوں کے خلاف مہم چلاتا رہا تو مسلمان کاروبار کرنے آخر کہاں جائیں گے؟
اگر کسی ایک مسلمان سے کوئی غلطی ہو بھی گئی تو اسے بنیاد بنا کر دوسروں کی دکانوں پر حملہ کرنا/انہیں نکالنا کہاں کی بہادری اور کیسا رویہ ہے؟
کیا کریں مسلمان؟
ایسے معاملات بغیر حکومتی رضا کے زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتے۔اگر کسی شہر میں ایسی نفرت انگیز مہم کھلے عام جاری رہے تو اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ حکومت اور انتظامیہ شر پسندوں کو شہ دے رہے ہیں۔اس معاملے میں دامن بی جے پی کا صاف ہے اور نہ ہی سیکولر پارٹیوں کا!
ہماچل کے حالیہ معاملے ہی کو لیں تو یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ وہاں بی جے پی نہیں بل کہ سیکولر کانگریس کی حکومت ہے لیکن اب تک دکان لوٹنے والے شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔اس لیے مسلمانوں کو کچھ بنیادی چیزوں پر توجہ دینا چاہیے:
ارباب اقتدار سے مل کر ماب لنچنگ اور تجارتی تعصب کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کریں۔
جن علما ومشائخ کے صوبائی لیڈران اور وزرا سے تعلقات ہیں وہ ان سے جلسہ ومزار کی حاضری وچادر کی بجائے مسلمانوں کے جان ومال کی حفاظت کے لیے کوئی پختہ قانون وضع کرنے کا مطالبہ کریں۔
محض مطالبے بھر سے کوئی قانون نہیں بنتا اس کے لیے سیاسی و سماجی قوت ضروری ہے اس لیے اپنی سیاسی قیادت کو پروان چڑھائیں تاکہ مخلوط حکومتوں میں قانون سازی کا مطالبہ اور دباؤ بنایا جا سکے۔
مقامی تنطیموں/انجمنوں اور ذمہ داران کو چاہیے کہ کسی بھی حادثہ/ہنگامے/پروپیگنڈے کے وقت ہر دل عزیزی کے چکر میں فوراً ہی اپنے بھائیوں کی مخالفت نہ کرے بل کہ حقائق کا جائزہ لیکر بیان جاری کرے۔
یہ امور مشکل اور محنت طلب تو ہیں لیکن شر پسندوں کے ظلم وزیادتی سے بچنے کے لیے ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔کیوں کہ جب تک ایسی سازشوں کے خلاف مضبوط قانونی اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک ایسے ہنگامے کھڑے کیے جاتے رہیں اور مسلمانوں کی جان ومال اسی طرح حملے ہوتے رہیں گے۔
سیاسی بے قدری اور بڑھتی ہوئی رسوائیاں