ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

Spread the love

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ گیاوی

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں! امت مسلمہ اس وقت ایک نہایت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ پوری ملت اسلامیہ پر دشمنوں کی جانب سے مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ عالم اسلام اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے، جبکہ برصغیر ہند و پاک کے مسلمان بھی شدید آزمائشوں میں مبتلا ہیں۔ مسلمانوں پر ہونے والے حملے داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی۔

آج ہمارے درمیان نسل، وطن، علاقائی عصبیتوں اور جغرافیائی تقسیم نے جگہ بنا لی ہے، جس کی وجہ سے ہماری صفوں میں انتشار پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، اس خیر امت کو دیگر قوموں نے آسان شکار سمجھ کر نگلنا شروع کر دیا ہے۔ کہیں بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے نام پر اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے، تو کہیں تجدد پسندی اور اباحیت کے ذریعے ہماری صفوں میں دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔

جدید تہذیب کے نام پر ہماری وحدت کو تقسیم کیا جا رہا ہے اور تعلیم کے دوہرے نظام کی بنیاد پر ہمارے درمیان گہری خلیج پیدا کی جا رہی ہے۔

اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، انتشار کو ختم کریں اور بحیثیت مسلمان ایک کلمے کی بنیاد پر اپنی صفوں کو مضبوط کریں۔

ہمیں علاقائی حد بندیوں، لسانی عصبیتوں اور فروعی اختلافات سے پاک ہو کر قرآن و سنت کی بنیاد پر متحد ہونا ہوگا۔ ہمیں بنیان مرصوص بن کر باطل قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہونا ہوگا۔

اسی اتحاد کے ذریعے ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو واپس لا سکتے ہیں اور اپنے وقار کو بحال کر سکتے ہیں۔ ہماری عبادات بھی اسی اتحاد کی تلقین کرتی ہیں اور ہمارے دینی ارکان ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ہی وضع کیے گئے ہیں۔ یعنی امت مسلمہ اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔

فضائل حج بیت اللہ قرآن و احادیث کی روشنی میں

دشمن ہر طرف سے حملہ آور ہے، اور ہماری صفوں میں داخلی و خارجی دونوں سطح پر انتشار پھیلا ہوا ہے۔ نسل، وطن، اور علاقائی عصبیتوں نے مسلمانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ اس تقسیم نے ہماری وحدت کو توڑ دیا ہے اور دشمنوں کو موقع دیا ہے کہ وہ ہمیں آسان ہدف سمجھ کر نقصان پہنچائیں۔بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے نام پر مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے۔

تجدد پسندی اور جدید تہذیب کے نام پر ہماری دینی و اخلاقی اقدار کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کے دوہرے نظام نے ہمارے درمیان خلیج پیدا کر دی ہے

جس کی وجہ سے ہماری نسلیں ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ہماری بقا صرف اتحاد میں ہے۔ قرآن ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور فرقہ واریت سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہماری عبادات بھی اتحاد کا پیغام دیتی ہیں، جیسے نماز، حج، اور روزہ، جو مسلمانوں کو اجتماعیت کا درس دیتی ہے۔قیادت پر لازم ہے کہ وہ ذاتی مفادات اور عہدے کی سیاست سے اوپر اٹھ کر امت کے اتحاد کے لیے کام کرے۔

اختلافات کو علمی دائرے تک محدود رکھنا چاہیے، تاکہ ملت کی اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر ہم نے اتحاد پیدا نہ کیا تو دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمیں مشترکہ مقاصد کے لیے متحد ہونا ہوگا اور اپنے اعمال سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ انتشار ہمیں مزید کمزور کرے گا، لیکن اتحاد ہماری عظمت رفتہ کو بحال کر سکتا ہے۔جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

تاہم افسوس کہ وہ تنظیمیں اور جماعتیں، جنہیں امت کے اتحاد و شیرازہ بندی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، آج خود انتشار کا شکار ہیں۔ ان پلیٹ فارمز اور انجمنوں کے اندرونی اختلافات کے باعث امت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ہمارا ملک ہندوستان بھی اس وقت تاریخ کے ایک سنگین دور سے گزر رہا ہے۔ مخالف طاقتیں، جو نہ تو ملک کی جمہوری روایات کو تسلیم کرتی ہیں اور نہ ہی سیکولر اقدار پر یقین رکھتی ہیں، اقتدار پر قابض ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور خاص طور پر مذہبی قیادت میں ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔

ہمیں ذات برادری اور مسلکی اختلافات سے بلند ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ یاد رکھیں کہ اتحاد زندگی ہے اور انتشار موت۔ ہمیں اپنے علمی اختلافات کو محدود رکھنا ہوگا اور امت کی اجتماعیت کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے۔

ہمارے اعمال سے یہ ظاہر نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں عہدے اور منصب کی طلب ہے۔ یہ رویہ ملت کے لیے نقصان دہ ہے۔

اختلاف فکر و نظر ہر گروہ میں موجود ہوتا ہے اور مسلمانوں میں بھی مسلکی اختلافات ہیں، لیکن دین کی بنیادی باتوں پر امت کا اتفاق ہے۔ اگر اس وقت ہم نے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہ کیا تو خطرہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو جائیں گی اور اقلیتوں کے حقوق چھین لیے جائیں گے۔

ساتھ ہی یہ بھی افسوس کا مقام ہے کہ جو لوگ امت کی وحدت اور اجتماعیت کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں، وہ خود بھی انتشار اور اختلاف کا شکار ہیں۔ وہ پلیٹ فارم، انجمنیں اور بورڈز جو امت مسلمہ کی وحدت کے لیے تشکیل دی گئی تھیں، آج وہ بھی آپس میں منتشر ہیں۔ ان داخلی اختلافات کا امت پر گہرا منفی اثر پڑ رہا ہے، جس سے ہماری اجتماعی قوت میں کمی آ رہی ہے۔

ہمارا ملک ہندوستان اس وقت انتہائی سنگین دور سے گزر رہا ہے۔ مخالف طاقتیں جو نہ تو ملک کے جمہوری کردار کو مانتی ہے اور نہ ہی ہمہ مذہبی سیکولر روایات کا احترام کرتی ہے، اقتدار میں آ چکی ہے۔ ان طاقتوں کے اثرات سے ہمیں بچنا ہوگا، کیونکہ یہ کبھی بھی ہمارے ملک کے تئیں ہمدرد نہیں رہے۔اس وقت مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور خاص طور پر مذہبی قیادت میں افتراق بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بہت غلط اور نامناسب بات ہے۔ جب ہمارے ملک میں سنگین مسائل ہوں، تو ہمیں اپنے اندر سے اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ مزید اختلافات کی فضا پیدا کرنے کی۔ ہمیں ذات، برادری، خاندان، مسلک اور مشرب کے تمام اختلافات سے بلند ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اتحاد ہی زندگی ہے اور انتشار موت ہے۔ ہمیں اپنے مسلک اور مشرب کے اختلافات کو علمی حدود تک محدود رکھنا ہوگا تاکہ امت کی اجتماعیت متاثر نہ ہو۔

امت کی قیادت کے لیے ہماری کوششیں اور عمل زیادہ اہم ہونے چاہیے، نہ کہ عہدے اور منصب کی خواہش۔ اگر ہم اپنی کوششوں کو صرف منصب حاصل کرنے کی جدو جہد تک محدود رکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ کام کرتے ہیں جو دنیا دار لوگ کرتے ہیں، تو یہ ایک بہت غلط پیغام جائے گا۔ ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ ہماری سچائی، خدمت اور دین سے محبت ہی ہماری ترجیح ہے۔

ہر گروہ اور جماعت میں فکری اختلافات ہوتے ہیں، اور مسلمانوں میں بھی مسلک و مشرب کا اختلاف موجود ہے۔ لیکن دین کی بنیادی باتوں پر امت کا اتفاق ہے۔ یہی بنیادی اصول ہمیں متحد کرنے کا ذریعہ ہے۔ ہمیں ان اختلافات کو علمی سطح پر محدود رکھنا چاہیے تاکہ وہ امت کی اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اگر ہم نے اپنی صفوں میں وحدت پیدا نہ کی تو ملکی دشمن، قومی دشمن اور فرقہ پرست طاقتیں اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔

یہ حالات نہایت قابل غور ہے، اور ہم سب کو اپنے اس صورت حال سے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔اس وقت ملک میں ایسے عناصر اقتدار میں ہیں جو جمہوریت اور سیکولر روایات کے مخالف ہیں۔ ان کا مقصد اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا اور ملک کے دستور کو تبدیل کرنا ہے۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہے تاکہ ہم دشمنوں کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکیں۔

تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ مسلک و مشرب کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ مفاد کے لیے متحد رہیں۔ اختلافات کو ذاتی سطح پر محدود کریں تاکہ امت کی اجتماعیت متاثر نہ ہو۔ اگر ہم نے اپنا اتحاد مضبوط نہ کیا تو دشمن ہمارے خلاف کامیاب ہو جائیں گے۔امت مسلمہ کی قیادت اور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپس میں اختلافات سے بچیں اور اتحاد قائم رکھیں۔ اگر قیادت خود انتشار کا شکار ہو جائے گی تو اس کا اثر پورے امت پر پڑے گا، اور امت کی طاقت کمزور ہو جائے گی۔ قیادت کو اپنے اعمال سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اتحاد کے لیے کام کر رہی ہے۔

ہمارا دینی فرض ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو ذاتی مسائل تک محدود رکھیں اور امت کی اجتماعیت کے لیے کام کریں۔ اس سے ہمیں داخلی طاقت ملے گی اور ہم دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔

ہر مسلمان کو اپنی ذاتی ترجیحات کو ملت کی فائدے کے لیے قربان کرنا ہوگا۔ امت کی طاقت اس کی اجتماعیت میں ہے۔ اگر ہم نے اپنے اختلافات کو نظر انداز کر دیا اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم کر لیا تو ہم دشمن کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم اپنے اتحاد کو مضبوط کریں اور امت کو بحران سے نکالیں۔امت مسلمہ کی قیادت کو چاہیے کہ وہ خدمت اور عمل کو اپنی ترجیح بنائے، نہ کہ عہدوں اور منصب کی خواہش۔

اگر قیادت عہدے اور ذاتی مفادات کے پیچھے دوڑنے لگے گی، تو اس سے امت میں غلط پیغام جائے گا اور اس کا منفی اثر پورے معاشرے پر پڑے گا۔تمام مسلمانوں کا مشترکہ مقصد دین کی خدمت ہے۔ مسلک و مشرب کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ہمیں اپنی توانائی کو امت کی خدمت میں لگانا ہوگا۔ اس سے نہ صرف ہمارا اتحاد مضبوط ہو گا، بلکہ ہم دشمنوں کے خلاف بھی کامیاب ہو سکیں گے۔

ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اتحاد قائم رکھیں اور اپنے اختلافات کو ملت کے مفاد میں قربان کر دیں۔ اس وقت ہماری اجتماعیت ہی ہماری قوت ہے۔ اگر ہم نے اپنا اتحاد قائم رکھا، تو ہم دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس حاصل کر سکتے ہیں۔اسی لیے کسی شاعر نے کیاہی خوب لکھا ہے :

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

تحریر: محمد فداء المصطفیٰ گیاوی

رابطہ نمبر:9037099731

دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپرم، کیرالا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *