کمال ایمان مسلمانوں کے اندر آپس کی محبت سے حاصل ہوتا ہے
از : افتخاراحمد قادری برکاتی :: کمال ایمان مسلمانوں کے اندر آپس کی محبت سے حاصل ہوتا ہے
کمال ایمان مسلمانوں کے اندر آپس کی محبت سے حاصل ہوتا ہے
مکرمی!مذہب اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے اس لیےیہ مذہب ہر موڑ پر انسان کو سکون،چین اور امن و سلامتی کا درس دیتا ہے- دوست ہو یا دشمن،اپنا ہو یا پرایا،چھوٹا ہو یا بڑا،بچہ ہو یا بوڑھا،عالم ہو یا جاہل،مرد ہو یا عورت مذہب اسلام کی سلامتی سب کے لیے عام ہے اس لیے مذہب اسلام میں سلام کو جو اہمیت حاصل ہے اور اس کو عمل میں لانے کا جو اچھوتا اور نرالا انداز بتایا گیا ہے،اس کی نظیر دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی
عیسائیوں کے سلام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہیں،یہودی ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتے ہیں،مجوسی جھک کر تعظیم کرتے ہیں اور عرب کہتے ہیں،،حیاک اللّٰہ،، اللّٰہ تمہیں زندہ رکھے
اور مسلمانوں کا سلام ہے،، السلام وعلیکم ورحمتہ وبرکاتہ،، یعنی تم پر سلامتی ہو، اللّٰہ کی رحمت اور برکت ہو- اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طریقہ تمام طریقوں سے افضل ہے اس لئے کہ سلام کرنے والا مخاطب کو یہ دعا دیتا ہے کہ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ تمہیں آفتوں، بلاؤں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے
نیز جب کوئی شخص کسی کو سلام کرتا ہے تو وہ اس کو ضرر اور خوف سے مامون اور محفوظ رہنے کی بشارت دیتا ہے- مکمل سلام یہ ہے کہ کہے،، السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،، اور،، تشہد،، بھی اتناہی سلام ہے اور جب کوئی شخص فقط،، السلام وعلیکم،، کہے تو اس کے جواب میں،، وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ،، کہنا چاہیے اور اگر کوئی،، السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ،، کہے تو اس کے جواب میں،، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،، کہے ( سنن ابو داؤد)سلام سلامت مصدر سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ آفات و عیوب سے پاک ہونے کے ہیں
یہ لفظ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں مستعمل ہے اور اردو لغت کے اعتبار سے اس کے کثیر معنیٰ آتے ہیں- مثلاً سلامتی، آداب،تسلیم اور رخصت کرنا ہے اصطلاح میں اس مرکب دعائیہ کلمہ کا نام ہے کہ جب آنے والا کسی مجلس میں قدم رکھتا ہے یا کسی سے ملتا ہے تو،، السلام وعلیکم،، کہتا ہے یعنی آپ پر سلامتی ہو یا خدا آپ کو سلامت رکھے
حضرت علامہ ابنِ کثیر رحمتہ اللہ علیہ مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ،،مسلمان جب تمہیں کوئی سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ میں اس کا جواب دو یا کم از کم انہیں الفاظ کو دہرادو- وہاں زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے-،،
حضرت ابنِ جریر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث پاک نقل کرتے ہیں:ایک شخص رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور السلام وعلیکم یا رسول اللہ! کہا تو آپ نے وعلیکم السلام ورحمتہ فرمایا پھر دوسرا آیا اور السلام وعلیکم یا رسول اللہ ورحمتہ اللہ کہا۔
پھر ایک صاحب آئے اورانہوں نے السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا تو آپ نے جواب میں وعلیک،، کہا تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی فلاں اور فلاں نے آپ کو سلام کیا،تو آپ نے کچھ زیادتی کے ساتھ جواب ارشاد فرمایا اور میرے صرف علیک پر اکتفاء کیا- تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم نے ہمارے لئے کچھ باقی ہی نہیں چھوڑا
فرمان خداوندی ہے کہ جب تم پر سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو- یا اسی کو لوٹا دو اس لیے ہم نے وہی الفاظ لوٹا دئے-اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ سلام کرنا اور اس کا جواب دینا ایک مہتمم بالشان امر ہے ورنہ رسول کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اتنا اہتمام نہ فرماتے- اسی لیے تو حضرت حسن بصری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سلام کرنا نفل ہے اور جواب دینا فرض ہے اور علماء اکرام کا بھی یہی فرمان ہے- لہذا اگر سلام کرنے والے کا جواب نہ دیا جائے تو یہ گناہ کا باعث ہے- احادیث مبارکہ میں بھی سلام کو بڑی اہمیت دی گئی ہے
آقائے دوعالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان عالی شان ہے: کہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تک تم ایمان نہیں لاؤ گے جنت میں داخل نہیں ہو گے اور جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے ایمان کامل نہیں ہوگا- کیا میں تم کو ایک ایسی چیز نہ بتا دوں جس کے کرنے کے بعد تم ایک دوسرے سے محبت کرو-ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کرو ( ترمذی،ابن ماجہ)
مطلب یہ ہے کہ کمال ایمان مسلمانوں کے اندر آپس کی محبت سے حاصل ہوتا ہے- عداوتیں بھی کبھی گناہ بلکہ کفر کا سبب بن جاتی ہیں اس لئے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے آپس میں سلام پھیلانے کا حکم دیا ہے کیوں کہ سلام ایک تسخیری قوت ہے،جو دلوں سے عداوتیں ختم کرتی ہے اور محبت بٹھاتی ہے-
اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسے سلام کیا جائے اور کسے سلام نہ کیا جائے اور کن لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیےتو حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا سوار پیدل کو سلام کرے اور پیدل بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور کم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں-( بخاری شریف)
افتخاراحمد قادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت مغربی اتر پردیش